• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماہم مسعود

اشفاق احمد اکثر کہا کرتے تھے کہ آدمی عورت سے محبت کرتا ہے جب کہ عورت اپنی اولاد سے محبت کرتی ہے۔اس بات کی مکمل سمجھ مجھے اُس رات آئی۔ یہ گزشتہ صدی کے آخری سال کی موسمِ بہار کی ایک رات تھی۔ میری شادی ہوئے تقریباً دوسال ہو گئے تھے۔ اور میرا بیٹا تقریباً ایک برس کا تھا ۔اُس رات کمرے میں تین لوگ تھے، میں ،میرا بیٹا اور اس کی والدہ !مجھے اور میرے بیٹے کو بخار تھا۔ 

مجھے کوئی ایک سو دو درجے اور میرے بیٹے کو ایک سوا یک درجے بخار تھا۔اگر چہ میری حالت بیٹے کے مقابلے میں کہیں زیادہ خراب تھی۔ تاہم میں نے یہ محسوس کیا کہ جیسے کمرے میں صرف دو ہی لوگ ہیں۔ ایک میرا بیٹا اور دوسری اس کی والدہ ۔۔۔

مکمل طور پر نظر انداز کیے جانے کے احساس نے میرے خیالات کو زیر وزبر تو بہت کیا لیکن ادراک کے گھوڑے دوڑانے پر عقدہ یہی کھلا کہ عورت نام ہے اس ہستی کا کہ جب اس کو ممتا دیت کردی جاتی ہے تو پھر اس کو اپنی اولاد کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ یہاں تک کہ شوہر بھی نہیں ۔خاص طور پر جب اس کی اولاد کسی مشکل میں ہو۔

اس کے ساتھ میں نے ایک اور نتیجہ نکالا وہ یہ کہ اگر میرے بیٹے کے دردکا درمان اس کی والدہ کی آغوش ہے تو یقیناً میرا علاج بھی میری ماں کی آغوش ہو گی۔ جیسے ہی یہ خیال آیا میں بستر سے اُٹھا اور اپنی ماں کے کمرے کی طرف چل پڑا۔ اس وقت رات کے دو بجے تھے پر جیسے ہی میں نے کمرے کا دروازہ کھولا تو وہ فوراًاُٹھ کر بیٹھ گئیں جیسے میرے آنے کا انتظار کررہی ہوں، پھر کیا تھا بالکل ایک سال کے بچے کی طر ح گود میں لے لیا اور تو جہ اور محبت کی اتنی ہیوی ڈوزسے میری آغوش تھراپی کی کہ میں صبح تک بالکل ٹھیک ہو گیا۔

پھر تو جیسے میں نے اصول ہی بنا لیا جب کبھی کسی چھوٹے بڑے مسئلے یا بیماری کا شکار ہوتا کسی حکیم یا ڈاکٹر کے پاس جانے کی بجائے سیدھا مرکزی ممتا شفا خانہ برائے توجہ اور علاج چلا جاتا۔ وہاں جاکر مجھےکچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بس میری شکل دیکھ کر ہی مسئلہ کی سنگینی کا اندازہ لگا لیا جاتا۔

میڈیکل ایمرجنسی ڈیکلئیرکر دی جاتی۔ مجھے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ (ماں جی) کے ہی بستر پر لٹا دیا جاتا اور ان کا ہی کمبل اوڑھا دیا جاتا،کسی کو یخنی کا حکم ہوتا تو کسی کو دودھ لانے کا۔ خاندانی معالج کی ہنگامی طلبی ہوتی ،الغرض توجہ اور محبت کی اسی ہیوی ڈوز سے آغوش تھراپی ہوتی اور میں بیماری کی نوعیت کے حساب سے کبھی چند گھنٹوں اور کبھی چند پہروں میں روبہ صحت ہو کر ڈسچارج کر دیا جاتا۔

یہ سلسلہ تقریباً تین ماہ تک جاری رہا۔ وہ وسط نومبر کی ایک خنک شام تھی جب میں فیکٹری سے گھر کے لیے روانہ ہونے لگا تو مجھے لگا کہ میں مکمل طور پر صحت مند نہیں ہوں، تو فوراً میں نے آغوش تھراپی کروانے کا فیصلہ کیا اور گھر جانے کی بجائے ماں کی خدمت میں حاضر ہو گیالیکن وہاں پہنچے پر اور ہی منظر دیکھنے کو ملا۔ ماں جی کی اپنی حالت کافی ناگفتہ تھی۔ پچھلے کئی روز سے چل رہیے پھیپھڑوں کے عارضہ کے باعث بخار اور درد کا دور چل رہا تھا۔

میں خود کو بھول کر ان کی تیمارداری میں جت گیا،مختلف ادویات دیں، خوراک کے معروف ٹوٹکے آزمائے۔ کوئی دو گھنٹے کی آؤ بھگت کے بعد ان کی طبیعت سنبھلی اور وہ سو گئیں۔ میں اپنے گھر واپس آگیا۔ابھی گھر پہنچے آدھا گھنٹہ ہی بمشکل گذرا ہوگا کہ فون کی گھنٹی بجی دیکھا تو چھوٹے بھائی کا نمبر تھا۔ سو طرح کے خیالات ایک پل میں آکر گزر گئے۔جھٹ سے فون اُٹھایا اور چھوٹتے ہی پوچھا،بھائی سب خیریت ہے نا۔ بھائی بولا سب خیریت ہے وہ اصل میں ماں جی پوچھ رہی ہیں کہ آپ کی طبیعت ناساز تھی اب کیسی ہے۔۔۔اس روز میرے ذہن میں ماں کی تعریف مکمل ہو گئی تھی۔ ماں وہ ہستی ہے جو اولاد کو تکلیف میں دیکھ کر اپنا دکھ ،اپنا آپ بھی بھول جاتی ہے۔اے ماں ! تیری محبت کا کوئی مول نہیں۔