نگراں حکومت اور نئے آئی جی سندھ راجہ رفعت مختار اور کراچی پولیس چیف خادم حسین رندنے شہر میں جرائم پیشہ عناصر ،قبضہ مافیا، غیرقانونی طورپر مقیم افغانی باشندوں، ایرانی ڈیزل اور پیٹرول کے اسمگلروں ،بجلی چوروں، ڈاکو، لیٹروں سمیت پولیس میں موجود کالی بھیڑوں اور جرائم پیشہ عناصر کی سر پر ستی کر نے والے اہلکاروں کا صفایا کرنے کی ٹھان لی ہے۔ شہری حلقوں نے ان اقدامات کوسرہاتے ہوئے، اسےمثبت تبدیلی قرار دیا۔
سندھ پولیس میں طویل عرصے کے بعد سیاسی حمایت یافتہ آئی جی کی بجائے پنجاب پولیس سے تعلق رکھنے والے راجہ رفعت مختا ر کی آئی جی سندھ تعیناتی کونہ صرف ڈ اکوؤں، لٹیروں کے ستائے ہوئے عوام بلکہ پولیس کے حلقوں نے بھی سراہاہے ۔ راجہ رفعت مختا ر نے عہدے کا چارج سنبھالنے کے بعد کراچی کے کرائم رپورٹرز سے تعارفی ملاقات کی ۔ اس موقع پر انھوں نے کہا کہ میں وضو کرکے وردی زیب تن کر تا ہوں، سندھ میں میری پہلی تعیناتی ہے۔
میں نے اپنی سروس کا زیادہ عرصہ پنجاب ،بلوچستان اور موٹر وے پولیس میں گزرا ہے۔ سندھ کےعوام کی جان و مال کاتحفظ یقینی بنانے کےلئے پوری کوشش کروں گا۔ میں جرم اور مجرم کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کرتا، مجھے جھوٹ سے نفرت ہے، مثبت سوچ خیر، جبکہ منفی سوچ شر ہے۔ شہریوں کے تعاون کے بغیر پولیس کام نہیں کرسکتی ۔جرم کے خاتمے کے لئے تن من دھن کی بازی لگادوں گا۔ معاشرے میں جھوٹ، فراڈ، بدمعاشی بڑھ گئی ہے، جس کا خاتمہ بہت ضروری ہے۔
آئی جی سندھ سے ملاقات کے بعد یہ تاثر ملاکہ ،راجہ رفعت مختار خوشامد پسند نہیں اصول پرست ہیں ۔ تادم تحریرآئی جی سندھ راجہ رفعت مختار کےایک احسن اقدام کی اطلاع ملی تو اس کو شامل کر نا ضروری سمجھا۔ہیڈ کانسٹیبل مشتاق بھٹی نے آئی جی سندھ سے ملاقات کرنے کے لیے اپنے جاری کردہ واٹس ایپ نمبر پر رابطہ کیا تو واٹس ایپ پر فوری جواب ملا آپ رات 10بجے آجائیں،آپ کی آئی جی سے ملاقات ہے۔ ملاقات میں ہیڈ کانسٹیبل نے آئی جی سندھ سے 3 گزارشات کیں پہلی یہ کہ میری بیٹی میڈیکل میں زیر تعلیم ہے، جس کی تعلیم کے اخراجات اٹھانا میرے لیے بہت مشکل ہو گیا ہے۔
آئی جی سندھ نے اس کی بیٹی کی تعلیم کے تمام اخراجات اٹھانے کی ذمہ داری لے لی ، دوسری گزارش یہ تھی کہ میں ریٹائر ہونا چاہتا ہوں، میرا بیٹا بھی پولیس میں کانسٹیبل ہے۔ میرا سرکاری کوارٹر میرے بیٹے کے نام الاٹ کر دیا جائے۔ آئی جی سندھ نے کوارٹر بیٹے کے نام پر ٹرانسفر کرنے کا فوری حکم جاری کر دیا، تیسری گزارش یہ کی کہ میری پوسٹنگ ہیڈ کوارٹر گارڈن میں ہے، جس کے لیے مجھ آنے جانے میں بہت دشواری ہوتی ہے ، لہذامیرا تبادلہ ایس ایس پی کیماڑی انویسٹیگیشن کر دیا جائے۔ آئی جی سندھ نےہیڈ کانسٹیبل مشتاق بھٹی کی یہ گزارش بھی قبول کرلی۔
ایڈیشنل آئی جی کراچی خادم حسین رند نے عہدہ سنبھالتے ہی پولیس ہیڈ کوارٹر گارڈن میں دربار طلب کرلیا۔ انھوں نےکراچی پولیس کے تمام سینئیر اور جونئیر افسران سے اپنےخطاب میں ایس پیز اور ڈویژنل ایس ڈی پی اوز کو چین آف کمانڈ کے تحت اپنے اختیارات کو استعمال کرنے، ایس ایچ اوز کی میرٹ پر تعیناتی اور زیرو ٹولرینس کی ہدایت کی۔پولیس چیف نے شعبہ تفتیش اور آپریشن کو مشترکہ طور پر مقدمات کے اندراج سے لےکر ملزمان کی گرفتاری اور عدالتوں سے سزائیں دلوانے تک ہر طرح کا تعاون کرنے کا حکم دیا۔
عوام کیساتھ پولیس کے مثبت رویے اور باہمی تعاون کو بڑھانے کےلئے روزانہ کی بنیاد پر ایس ایچ اوز کو دن میں2 گھنٹے عوام سے ملاقات یقینی بنانے کی ہدایت کی ۔ کراچی پولیس چیف نےتمام تھانوں کے ایس ایچ اوز کو ترجیحی بنیادوں پر اسٹریٹ کرائمز پر قابو پانےکے لئے مناسب حکمت عملی ترتیب دینے کی ہدایات بھی کیں۔ انہوں نے کہا کہ لینڈ گریبنگ، اسمگلنگ، منشیات، بجلی چوری ،غیر قانونی واٹر ہاڈرینٹس ا ور دیگر جرائم کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔
انہوں نے ایس ایچ او کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے سرپرائز وزٹ کا عندیہ بھی دیا ، انھوں نے ایس ڈی پی او سہراب گوٹھ، ایس ایچ اوز سرجانی اور رضویہ کو ناقص کارکردگی پر معطل کرکے انکوائری کا حکم بھی دے دیا۔ایس پی انویسٹی گیشن کو شعبہ تفتیش میں بہتری لانےکےلئے اقدامات کا از سر نو جائزہ لینے کی ہدا یت کرتے ہوئے کہا کہ کراچی پولیس محدود وسائل میں رہتے ہوئے امن و امان کے قیام اور قانون کے نفاذ کےلئے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔ پولیس چیف خادم حسین رند کی جانب سے پولیس افسران کوملنے والی ہدایت سے واضح لگتا ہے کہ اب پولیس کا قبلہ درست ہو نے جارہا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ نئے تعینات ہو نے والے زونل ڈی آئی جیزاور ضلعی ایس ایس پیز چارج سنبھالتے ہی متحرک ہو گئے ہیں۔ پہلے مرحلے میں انہوں نے غیر قانونی طور پر مقیم تارکین وطن کے خلاف کریک ڈاون کر کے خواتین بچوں سمیت سیکڑوں افغانیوں کو موقع سے گرفتارکیا، یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ شہر میں لاقانونیت ،چوری اور بڑی ڈکیتیوں میں بیشترغیر قانونی تارکین وطن ہی ملوث پائے گئے ہیں۔ غیرقانونی ایرانی ڈیزل اور پیٹرول کی اسمگلنگ کے میں ملوث ما فیازکی گرفتاری کے علاوہ بجلی چوروں کےخلاف مقدمات کا اندراج نیک شگون اور بنیادی ا قدام ہے۔ اس سے قبل اعلٰی سابق پولیس افسران نے زبانی خرچ اور فوٹوسیشن کےسوا شہریوں کے تحفظ کے لیے کوئی ٹھوس اور عملی قد م نہیں اٹھایا تھا۔
ایڈیشنل آئی جی کرا چی نے برسوں سے کے پی او میں براجمان پرسنل اسٹاف آفیسرڈی ایس پی وسیم احمد کو تبدیل کر کے سب انسپکٹر پٹھان خان کو اپناپی ایس او مقررکیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ، اس تبدیلی سے، کے پی او میں تعینات پولیس اہلکاروں میں خوشی کی لہر دوڑگئی ہے ، جبکہ آئی جی سندھ نے ایڈیشنل آئی جی کراچی خادم حسین رند کو مزید 3 اہم عہدوں کا چارج بھی دےدیاہے،وہ بیک وقت ایڈیشنل آئی جی اسپیشل برانچ، ایڈیشنل آئی جی اسٹیبلشمنٹ، ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی سمیت تینوں عہدے پر خدمات انجام دیں گے۔
سندھ پولیس میں الیکشن کمیشن کی اجازت ملنے کے بعد زونل ڈی آئی جیز اور ضلعی ایس ایس پیز تعنیات کردیئے گئے ہیں، جبکہ دوسرے مرحلے میں پولیس کے تینوں زونز میں بڑے پیمانے پر ایس ایچ اوز کے تبادلے اور تعیناتی بھی عمل لائی جا چکی ہے، جبکہ کئی معطل کر دیے گئے ہیں، اسمگلنگ مافیا، آرگنائزڈ کرائمز و دیگر جرائم میں ملوث تھانیداروں کو ضلع بدر کردیا گیا۔ شہری حلقوں نےپولیس کےان انقلابی اقدامات کوسراہا ہے۔
باخبر ذرائع کے مطابق سندھ رینجرز کو بھی فری ہینڈ دے دیا گیا ہے، جس کے بعد سندھ رینجر نے غیر قانونی طور پر مقیم افغانی باشندوں، قبضہ مافیا، اسمگلرز، غیر قانونی ہائیڈرنٹ ،پانی چور مافیا، ایرانی ڈیزل اور پیٹرول کے اسمگلرز، اسٹریٹ کرمنلز کے خلاف سندھ بھر میں بڑے آپریشن کی تیاریاں مکمل کر کے ان کے خلاف آپریشن کی حکمت عملی تیار کر لی ہےاور فہرستیں بھی تیار ہوچکی ہیں، ذرائع کا کہنا ہے کہ مین سپرہائی وے ٹول پلازہ، افغان بستی، افغان ٹاون، ابدالی کالونی، محلہ پشتون آباد، جنجال گوٹھ، رحمن ٹاون الآصف اسکوائر ،گلشن معمار سہراب گوٹھ میں بااثر قبضہ مافیا اور افغانیوں کا مکمل صفایا ہوگا۔
ضلع ملیر میں قائدآباد شیر پاؤ کالونی، گلشن بونیر میں بھی غیرآباد افغانیوں وقبضہ مافیا کے خلاف بھی سخت آپریشن کیا جائے گا۔ کراچی میں اسٹریٹ کر منلز کے خلاف آپریشن کی حکمت عملی طے کر لی ہے نیز زمینوں پر قبضہ کرنے والوں کی فہرستیں بھی تیار کر لی گئیں ہیں۔ داخلی اور خارجی راستوں پر اسمگلنگ کو ہر صورت میں روکا جائے گا۔ آپریشن میں سندھ رینجرز ،سندھ پولیس، ایس ایس یو، آرآر ا یف،سی آئی اے اور سی ٹی ڈی شامل ہے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ بااثر قبضہ مافیا کوسابق حکومتوں میں شامل مرکزی رہنماوں، سابق مشیروں اور وزیروں کی مکمل حمایت حاصل تھی۔
دوسری جانب آئی جی سندھ راجہ رفعت مختار نے ضلع ساؤتھ میں اپ گریڈ کیے گئے پولیس سہولت مرکز کا افتتاح کر دیا ہے، پہلے مرحلے میں کراچی کے اضلاع میں سہولت مراکز کا افتتاح کیا جائے گا۔ آئی جی سندھ کاکہنا ہےکہ عوام کی خدمت میری پہلی ترجیح ہے، ہمارا اصل کام مفاد عامہ کو ترجیح دینا ہے۔
سندھ کے دیگر رینج میں بھی جلد ہی عوام کو خدمت مرکز کی سہولت دی جائے گی، انھوں نے مزید کہا کہ، سہولت مراکز سےعوام کوکریکٹر سند، پولیس کی تصدیقی سند، لرنرز ڈرائیونگ لائسنس، ڈرائیونگ لائسنس, انٹرنیشنل اور ڈپلیکیٹ ڈرائیونگ لائسنس ،لائسنس کی توثیق و تجدید، ملازمین کی رجسٹریشن ، کرایہ داروں کی رجسٹریشن ،وہیکلز ویری فیکیشن ،گمشدگی کرائمرز اور، خواتین پر تشدد کی رپورٹس،ایف آئی آر کی کاپی کی دستیابی جیسی سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں۔ کراچی میں مزید پولیس خدمت مراکز کا قیام جلد عمل میں لایا جائے گا۔ تمام متعلقہ محکمے عوام کے مسائل حل کرنے میں بھرپور تعاون کریں گے۔ نگراں وزیر داخلہ سندھ نے امید ظاہر کی کہ پولیس خدمت مرکز عوام کے مسائل کے حل اور پولیس کے امیج کو بہتر کرنے میں نمایاں کردار ادا کرے گا۔
شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ سندھ پولیس میں اب تک جو بھی آیا ، اس نے پالیسی کے تحت نہیں محکمےکو اپنی مرضی سے چلایا۔ سابق آئی جی سندھ غلام نبی میمن سمیت دیگر سابق آئی جیز کے ادوار میں بھی صرف تجربات ہوئے جو سب ناکام ہی نظر آئے ،جبکہ کچھ عرصہ قبل سابق ایڈیشنل آئی کراچی جاویداختر اوڈھو نے اسٹریٹ کرائمز کی روک تھام کے لیے شاہین فورس بنائی، جس کا تجربہ بھی نہ صرف ناکام ہوا بلکہ چند جوان تو ڈاکووں سے مقابلے میں اپنی جان تک گنوا بیٹھے۔
آئی جی سندھ راجہ رفعت مختاراور ایڈیشنل آئی جی کراچی خادم حسین رند کے آنے سےعوام اور خصوصا پولیس اہلکاروں کو امید کی نئی کرن نظر آئی ہے، یہ بھی حقیقت ہےکہ سندھ پولیس کے مسائل لا محدود اور وسائل بہت کم ہیں، حتی کہ آج تک سندھ پولیس ڈی این لیبارٹری تک نہیں بناسکی ہے، برسوں سے پولیس تھانوں کی موبائلز کوڈیزل کی عدم فراہمی کی شکایت تاحال ختم نہیں ہوئی، عام آدمی کے لیے ایف آئی آر کٹوانا اب تک جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، اگر کوئی ڈیوٹی افسر ایس ایچ او کے کہنے پر ایف آر درج کر نے پر تیار بھی ہو جائے تومدعی کوسادے کاغذ، کاربن اور بال پوائنٹ اپنے ساتھ لانا لازم ہوتا ہے، محکمہ پولیس میں بہتری لانے میں سب سے بڑی رکاوٹ حکومت کی جانب سے من پسند بلکہ دلپسند افسران کی تعیناتی ہے، ایک بہتر معاشرے کے قیام کے لیے ہم سب کو اپنا کردار درست سمت میں ادا کرنا ہوگا۔ امید ہے کہ آئی جی سندھ اورکراچی پولیس چیف پولیس کی اصلاح اور بہتری کے لیے ٹھوس اقدامات کر یں گے۔