کراچی (ٹی وی رپورٹ ) سینئر صحافیوں کا جیو کے پروگرام ’’جرگہ‘‘ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سرینا عیسیٰ چیف جسٹس کے ساتھ کھڑی ہیں نہیں تھی بلکہ وہ تاریخ رقم کررہی تھیں،حلف برداری کی تقریب کے بعد دیر تک ڈی جی آئی اور آرمی چیف کی موجودگی خوشگوار حیرت کا باعث بنی۔
چیف جسٹس نے پاکستانی خواتین کو پیغام دیا ہے کہ اگر اپنے حق کیلئے شریک حیات کا ساتھ دیتی ہیں تو پھر کامیابی آپکا مقدر ہوگی، قاضی فائز عیسیٰ کا چیف جسٹس بننا واقعتا ایک معجزہ ہے۔
ان پر یہ ذمہ داری ہے کہ آیا وہ بطور چیف جسٹس جوڈیشری کا احتساب کرتے ہیں یا نہیں، دیکھنا ہوگا کہ وہ برادر ججز جو ان کے مخالف رہے ان کے ساتھ ان کا کیا رویہ رہتا ہے۔
میزبان سلیم صافی نے اپنے پروگرام جرگہ کیلئے سینئر صحافیوں قیوم صدیقی، حسنات ملک، جہانزیب عباسی، حسن ایوب اور مطیع اللہ جان پر مشتمل ایک پانچ رکنی بنچ تشکیل دیا ہوا تھا، جن سے گفتگو کرتے ہوئے سلیم صافی نے کہا کہ آج چشم فلک نے یہ نظارہ دیکھ لیا کہ وہ عارف علوی جنہوں نے عمران خان او ران کے سرپرستوں کی ایماء پر انہیں ہٹانے کیلئے سپریم جوڈیشل کونسل کو ریفرنس بھیجا تھا آج انہوں نے ان سے چیف جسٹس آف پاکستان کا حلف لیا۔
عام تاثر یہ ہے کہ اگر بندیال صاحب ایک انتہا تھے تو جسٹس فائز عیسیٰ دوسری انتہا پر نظر آتے ہیں۔
اب لگتا یہی ہے کہ سپریم کورٹ میں سنیارٹی کے اصول چلیں گے اور زیادہ تر فیصلے شخصی کی بجائے اجتماعی طور پر ہوں گے، مخصوص بنچ نہیں ہوں گے۔
پروگرام میں بھی سنیارٹی کی بنیاد پر پہلے گفتگو کرتے ہوئے عبدالقیوم صدیقی نمائندہ خصوصی جیو نیوز کا کہنا تھا کہ قاضی فائز عیسیٰ کا چیف جسٹس بننا واقعتا ایک معجزہ ہے کیونکہ دیکھا جائے تو ان پر ان کے برادر ججز، اسٹیبلشمنٹ، اس وقت کی حکومت سب ہی حملہ آور تھے اور میڈیا بھی اس کا ایک حصہ تھا کیونکہ اس وقت قاضی فائز عیسیٰ کا نام اسکرین پر چلنا شجر ممنوع تھا لیکن آج کے جو لمحات اور مناظر میں نے ایوان صدر میں دیکھے اور جس کو کہتے ہیں آنکھوں کے اندر بس جانے والا تو وہ منظر میں نے دیکھا جو میری آنکھ میں بس گیا ہے۔
انہوں نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھی تقریب حلف برداری میں آئیں اور مخصوص سیٹوں پر بیٹھ گئیں جس کے بعد آرمی چیف آئے تو وہ وہاں بیٹھی ہوئی تھیں جس پر وہ کھڑے رہے خیال کیا جاتا ہے کہ ان کو کچھ غلط فہمی ہوئی تھی تاہم بعد ازاں چیف جسٹس کی اہلیہ کو بتایا گیا کہ آپ کی نشست آگے ہے جس پر وہ آگے کی طرف آئیں۔
انہوں نے کہا یہی نہیں اس کے لئے بھی ایک منظر قابل دید تھا کہ حلف برداری سے پہلے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت کے گارڈز کو اشارہ کیا جس پر وہ گارڈز جاکر اہلیہ چیف جسٹس کو لے کر آئے اور وہ چیف جسٹس کے شانہ بشانہ کھڑی ہوگئیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ منظر بھی دیکھا کہ حلف برداری کی تقریب کے بعد بھی کافی دیر تک وہاں پر ڈی جی آئی اور آرمی چیف موجود تھے۔ اور یہ چیزیں میرے لئے کافی خوشگوار حیرت کا باعث بنیں۔ اور ایسا بھی کبھی نہیں ہوا ہے کہ پہلے دن چیف جسٹس آف پاکستان اپنے فل کورٹ کے ساتھ بیٹھیں۔ عبدالقیوم صدیقی کا کہنا تھا کہ اگر پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ Valid law ڈیکلیئر ہوتا ہے تو پھر اس کے بعد 184(3) میں جسٹس بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر نے مل کر جو فیصلے کئے ہیں ان کی وہی حیثیت ہوگی جیسے ہم پانچ مل کر کوئی ایک فیصلہ کرلیں۔
عبدالقیوم صدیقی نے اس موقع پر ایک اور قصہ سناتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے ججز کی گاڑیاں پانچ سال بعد تبدیل ہوتی ہیں اسی طرح سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کی گاڑی پرانی ہوگئی ہے ججز کی گاڑیاں تبدیل ہورہی ہیں آپ بھی اس حوالے سے بھجوادیں جس پر قاضی فائز عیسیٰ نے جواب میں کہا کہ مجھے تو نئی گاڑی کی کوئی ضرورت نہیں۔
جس پر راوی کا کہنا ہے کہ عمر عطا بندیال اپ سیٹ ہوگئے اور آکر قاضی فائز عیسیٰ سے کہا آپ خود تو کچھ کرتے نہیں ہیں اور دوسروں کو مسائل میں ڈال دیتے ہیں۔
صحافی مطیع اللہ جان کا کہنا کچھ چیزیں ایسی ہوجاتی ہیں جو تاریخ کی وجہ سے نئی روایات بنادیتی ہیں جن حالات سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ او ران کی اہلیہ گزر کر آئے ہیں ہم نے دیکھا ہے کہ کٹہرے میں بھی دونوں اکٹھے کھڑے تھے تو جب وہ وہاں پر ان کے ساتھ کھڑی ہوسکتی ہیں تو پھر جب وہ چیف جسٹس کا حلف اٹھارہے ہیں تو وہاں بھی ان کا ان کے ساتھ کھڑا ہونا بنتا ہے ۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ چیف جسٹس نے پاکستان کی 50 فیصد سے زائد خواتین کو ایک پیغام دیا ہے کہ اگر آپ اپنے حق کے لئے ڈٹ جاتی ہیں اپنے شریک حیات کا ساتھ دیتی ہیں تو پھر کامیابی آپ کا مقدر ہوگی اور کامیابی کا جب اعلان ہوگا تو آپ ان کے ساتھ ہی کھڑی ہوں گی ۔
سرینا عیسیٰ صرف ایک چیف جسٹس کے ساتھ نہیں کھڑی تھیں بلکہ وہ تو اس تصویر میں اس منظر میں ایک تاریخ رقم کررہی تھیں اور پاکستان کی خواتین کی نمائندگی کررہی تھیں ۔یہ تو سبق تھا ان کے لئے بھی جنہوں نے ان دونوں کے خلاف سازشیں کیں اور میرے خیال میں اس سے بہترین جواب نہیں ہوسکتا تھا ان سازشوں کا ۔
مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ صرف یہ ایک نئی روایت نہیں اس کے علاوہ بھی ایک نئی روایت یہ قائم کی گئی کہ ایک جملہ جو اردو میں پڑھا جاتا تھا وہی جملہ پھر انگریزی میں بھی پڑھا جاتا تھا۔