• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جو تنخواہ سال کے آخر میں یکمشت ملتی ہے اس پر زکوٰۃ کا حکم

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

سوال: میں ایک نیم سرکاری کالج میں عارضی طور پر پڑھاتا ہوں، ہمیں تنخواہ سال کے آخر میں یکمشت ملتی ہیں، اس تنخواہ سے اگلے سال کے سارے اخراجات پورے کرنے ہوتے ہیں، تو اس پر زکوٰۃ کا کیا حکم ہے؟

جواب: جس مسلمان عاقل بالغ شخص کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر نقد رقم یامالِ تجارت موجود ہو یا ان چاروں چیزوں میں کسی بھی دو یازائد کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر پہنچتا ہو اور وہ شخص مقروض بھی نہ ہو تو اس مال پر سال گزرنے کی صورت میں زکوٰۃ واجب ہوگی، اور اگر وہ پہلے سے نصاب کا مالک ہے تو سال مکمل ہوتے وقت قرضہ نکال کر جتنی رقم بھی ہوگی، اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں تنخواہ کی رقم سے قرض اور سابقہ تمام اخراجات کو نکالنے کے بعد بچت کی رقم نصاب کے برابر یا اس سے زیادہ ہے، تو سال پورا ہونے کے بعد اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی، اگر تنخواہ کی رقم سالانہ خرچ ہوجاتی ہے، کچھ بچتانہیں یا بچتا ہے، لیکن نصاب کے برابر نہیں یا سائل صاحبِ نصاب نہیں تو زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔ 

اگر سائل پہلے سے صاحبِ نصاب ہے ،لیکن جب اپنے سابقہ نصاب پرسال پورا ہوگا، اس وقت تک تنخواہ نہیں ملی ہے تو اسے نصاب میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ اگر تنخواہ ملنے کے بعد سابقہ نصاب پر سال پورا ہوا ہے تو تنخواہ کی بچت رقم سے بھی زکوٰۃ ادا کرے گا۔ (الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الزکوٰۃ، الباب الأوّل فی تفسیر الزکوٰۃ، ج،1،ص، 171 تا 175، و باب مصرف الزکاۃ والعشر، ج: 2، ص: 248، و باب زکوٰۃ المال،ج،2،ص،306،ط: دار الفکر- بدائع الصنائع، کتاب الزکوۃ، فصل الشرائط اللتی ترجع إلی المال،ج،2ص،ط:دار الکتب العلمیۃ- البحرالرائق، کتاب الزکوٰۃ، شروط وجوب الزکاۃ، ج:2، ص:222، ط:دار الکتاب الاسلامی)