فرحی نعیم
’’اتنی مشکل ہوتی ہے کھانے بنانے میں، چولہے میں گیس اتنی کم آ تی ہے۔ ایک چولہا تو پھر بھی ٹھیک جلتا ہے لیکن دوسرے کی گیس کا پریشر بہت کم ہے‘‘، ایک سہیلی نے اپنا دکھ سنایا ۔
’’کم از کم تمھارے دو کام تو ساتھ چل رہے ہوتے ہیں، میرے گھر تو ایک ہی پرانا چولہا ہے، چائے تک پکانے میں دیر لگتی ہے، پہلے سالن بناؤں پھر روٹی،بچے کھانا مانگتے ہیں، تو سمجھ نہیں آتا ، پہلے کیا کروں ۔۔!!‘‘
’’ ارے مجھ سے پوچھو، ہماری طرف تو گیس ہی ندارد ہے، سلینڈر پر کھانا پکتا ہے ، گھنٹے بھر کا کام، دو تین گھنٹوں میں مکمل ہوتا ہے ، سارا دن چولہے کے آگے جلتے رہو، سلینڈر کا خرچہ بھی دگنا، بلکہ چوگنا‘‘!!,
’’کیا یہ ہمارے لیے ہے؟‘‘تقریب میں آنے والی ایک مہمان نے شیشے کی پلیٹوں میں سجی چاکلیٹ کو دلچسپی سے دیکھتے ہوئے استفسار کیا ۔
’’ نہیں یہ خاص مہمانان گرامی کے لیے ہے۔‘‘مسکرا کر استقبالیہ پر موجود خواتین کی طرف سے جوابا کہا ۔ جس پر مہمان کے چہرے پر ہلکی سی ناگواری کا تاثر ابھرا اور وہ آگے بڑھ گئیں ۔‘‘ لو یہ تو ہمارے لیے بھی نہیں تو ان کو کہاں سے دیں،‘‘ پیچھے سے بڑبڑاہٹ ابھری۔
" لگاتار پیریڈ، بیچ میں بالکل وقفہ نہیں ، میرا تو دماغ ہی نہیں کام کرے گا، اوپر سے سائنس جیسا مضمون ۔۔ اف!!’’ میں تو اس تنخواہ میں کام نہیں کر سکتی ۔۔‘‘ نئی اپائنٹ ہونے والی استانی نے اسٹاف روم میں داخل ہوتے اعلانیہ کہا اور کرسی کھینچ کر دھم سے بیٹھی اور شکوہ کناں ہوئی۔
’’ کوئی فائدہ نہیں ، میں بھی پچھلے ڈیڑھ سال سے یہی احتجاج کر رہی ہوں، مسلسل ریاضی پڑھانا ، آسان نہیں ، اور تنخواہ۔۔ ہونہہ ۔۔۔‘‘ اسٹاف روم میں اس وقت تین چار ہی ٹیچرز بیٹھی تھیں۔ ان میں سے کسی نے اپنا دکھڑا رویا۔
’’ ڈیڑھ سال!!" تیسری نے استہزائیہ انداز میں کہا ۔ ‘‘ آٹھ سال کے مقابلے میں ڈیڑھ سال کیا معنی رکھتا ہے ۔ مجھے یہاں پڑھاتے اگلے ماہ پورے آٹھ سال ہوجائیں گے، لیکن مجال ہے جو انتظامیہ کو میرا خیال ہو، بس اپنا کام جاری رہنا چاہیے ۔ پیکج میں بھی دو سال سے کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا،’’ شکوؤں کے جواب میں تیسری نے بھی جواب شکوہ سنایا ۔
شکوے، گلے، شکایتیں ،آپ جس سے بات کریں ،یا اپنا کوئی مسئلہ بیان کریں،وہ اس سے زیادہ اپنے شکوہ اور شکایتیں بیان کرنے لگتا ہے، ایسا لگتا ہے کوئی بھی اپنی زندگی سے مطمئن نہیں ہے ، نہ اپنےادارے سے جہاں وہ کام کرتا ہے، نہ ہی اپنی گھریلو ذمہ داریوں سے۔آپ کسی کو اپنی کوئی بھی پریشانی سنائیں ، وہ آپ کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی اپنی یا اپنے کسی قریبی عزیز کی مشکلات بیان کرنا شروع کر دے گا ۔اور اس کے بعد آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ کا مسئلہ تو حقیقتاً کوئی مسئلہ ہی نہیں اس سے زیادہ لوگوں کو مشکلات کا مقابلہ ہے۔
آج ہماری ، خاص کر خواتین کی زندگی مسائل کا گڑھ بن چکی ہے ، جن میں سے آدھی ہماری اپنی پیدا کردہ ہیں۔ ہم نے زندگی کو خود ہی بوجھل اور کٹھن بنادیا ہے ، بے صبری میں اضافہ اور شکر گزاری میں کمی ہماری عادت بن چکی ہے ۔ جتنا زندگی میں نعمتوں کا تناسب بڑھ رہا ہے ، ہماری نا شکری کا پیمانہ بھی اوپر کی جانب گامزن ہو رہا ہے ۔ حقیقتاً ہم اپنے پاس موجود نعمتوں کی ناقدری کر رہے ہوتے ہیں ، ہر پہلو سے اس کا ناقدانہ جائزہ لیتے ہیں ، پھر بھی مطمئن نہیں ہو پاتے ۔ مطمئن جب ہوتے ہیں جب، اپنے سے نیچے دیکھتے ہیں، اس کے بعد ہی اپنے پاس موجود چیز کی قدر دانی ہوتی ہے۔
بچپن سے بڑھاپے تک، انسانی فطرت ہر آن تبدیلی اور انقلاب چاہتی ہے ۔ وہ ساکت و صامت نہیں رہ سکتی اس کی سرشت میں سکوت نہیں آگے بڑھنے ، بہت کچھ حاصل کرنے کی جستجو ہے۔ یہ جستجو عمر کے ہر حصے میں برقرار رہتی ہے۔ اگر اس کی جہت درست سمت کی جانب ہے تو ، اس کے لیے کامیابی کے در کھل گئے ، بصورت دیگر سعی لاحاصل بھی ہو سکتی ہے اور کوشش بار آور نہیں بھی ٹھہر سکتیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کسی حال میں بھی مطمئن نہیں رہتا، آگے بڑھنے، خوب تر کی تلاش اور دوسرے کو پیچھے کرنا وہ کبھی کبھی اس کو جائز بھی سمجھتا ہے ۔ اور یہیں سے خرابی کی ابتدا ہوتی ہے۔ بہت کچھ حاصل کرنے کی تمنا اسے اس راستے پر بھی ڈال سکتی ہے جہاں غلط بھی درست لگتا ہے ۔اور من چاہا کا حصول اسے غلط راہ اپنانے پر اُکساتا بھی ہے ۔ وہ اپنے آپ کو دلائل سے قائل کرتا ہے کہ اس سب کا حصول، اصل میں تو اس کا حق ہے جو نہیں مل پارہا ،لہٰذا انگلیاں ٹیڑھی کرنے میں مضائقہ نہیں ، حالانکہ اگر حقائق کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ خواہش کا پہلا قدم ہی ہمارے لیے آزمائش ہے، پھر تو راستہ کھلا ہی کھلا ہے۔
یہاں وہی اصول لاگو ہوتا ہے کہ ہمیشہ اپنے سے نیچے دیکھا جائے تو زندگی آسان و سہل بن جاتی ہے ۔ اور یہ ہمارے اپنے اختیار میں ہے ، ہم اسی پر قانع ہیں جو ہمارے پاس موجود ہے؟ یا زیادہ کی خواہش ہمیں اُکساتی ہے ؟اگر ہم اپنے پاس موجود پر مطمئن ہیں تو ہمارے گلے، شکوے،ہوا کے جھونکے کے مانند ،ہماری قناعت کے آگے دم توڑ دیں گے، بصورت دیگر زندگی مزید مشکل ہو جائے گی ۔ اگرزندگی کو پر سکون بنانا ہے تو آج ہی ان کو ایک پوٹلی میں باندھ کر کسی کوٹھری میں بند کردیں اور اپنی زندگی سے لطف لیں۔