آسیہ عمران
پڑھنا پڑھانا,جاب ،سوشل سرگرمیاں سب ختم ،زندگی گویا شوہر ،گھر، بچے کے گرد گھومنے لگی ہے۔ یہ وہ حد ہے ،جس سے پرے کچھ بھی نظر نہیں آرہا۔ عجیب ٹینشن میں ہوں۔ شادی جیسے فل اسٹاپ لگنے لگی ہے۔ اس کی باتوں کا اندازہ شدید اندرونی اکھاڑ پچھاڑ کی خبر دیتا تھا۔ بہتے آنسوؤں اس نے یہ بھی کہا۔ شدت سے خود کے ضائع ہونے کااحساس ہے۔ اب تو میاں کی جاب، معاشی مسائل پیش آنے پر یہ احساس مزید بڑھ گیا ہے۔
عقل، سمجھ جیسے ختم سی ہو گئی ہے ۔ جاب کا ارادہ کروں تو آگے پیچھے کھائی دکھائی دیتی ہے۔ ایک طرف معاشی مشکلات تو دوسری طرف ننھے وجود کے لئے ممتا اور اس کے مستقبل محفوظ کرنے کا احساس ہے۔ماں اور ساس جنت سدھار گئیں ۔ کوئی ہمت بندھانے والا بچے کے معاملے میں ساتھ دینے والا بھروسہ مند فرد بھی میسر نہیں۔ وہ گویا بلکتے اندر کادرد بیک وقت لفظوں اور آنسؤں کی صورت نکالے جا رہی تھی۔ ڈاکٹر صاحبہ خاموشی اور توجہ سے سنتی رہیں۔
یہاں تک کہ وہ تھک کر خود ہی خاموش ہو گئی ۔ماحول پر سکوت طاری تھا۔جسے ڈاکٹر کی آواز نے توڑا وہ اس کا ہاتھ نرمی سے اپنے ہاتھ میں لئے بولیں۔میری بہنا کبھی زمین میں بیج ڈال کر پودا اگنے اور پھر درخت بننے کے سفر کو ملاحظہ کیا ہے؟ سوالیہ انداز پر اس کی آنکھوں میں حیرانی کا تاثر ابھرا۔ ڈاکٹر صاحبہ نے بات جاری رکھی۔ بیج ڈال کر پہلا کام یقیناً انتظار کا ہوتا ہے۔
پودا کتنے ہی دن اگتا دکھائی نہیں دیتا ، مگرانتظار کرتے ہیں ،کیوںکہ معلوم ہوتاہے کہ زیر زمین بیج خاص پراسسز میں ، کئی طوفانوں کے زیر اثر ہے ،جس سے وہ قوت جنم لیتی ہے جو بیج کو پھاڑتی، راستہ بناتی، ننھی کونپل کی صورت مضبوط درخت کی بنیاد رکھتی ہے۔ ایسے میں کوئی بے صبرامٹی کھود کر مشاہدہ کرنے لگ جائے تو بیج کا سارا تحرک ، محنت نہ صرف ضائع ہو جاتی ہے بلکہ بیج پھر کسی قابل نہیں رہتا۔ یاد رکھیں، بچوں کو پالنا، گھر سنبھالنا، شوہر کو خوبصورت اور پرخلوص رفاقت کے حصار میں لینا ایک بہت بڑا ،بہت عظیم ،بے حد پر مشقت اور مفید کام ہے۔
بنیاد مضبوط ہو تو خیر کا ناقابل یقین سلسلہ چل نکلتا ہے۔ چھپی صلاحیتیں نمو پاتی ہیں۔ بے صبرا پن ہو تو کیا کرایا اکارت چلا جاتا ہے۔ لہٰذا سوچ کا زاویہ بدلیں۔ ممکنہ صورتوں پر غور کریں ۔بند راستے پر نظریں جمانے کے بجائے، اردگرد نظر دیکھیں کئی راستے کھلے اور کشادہ نظر آئیں گے، بس زاویہ نگاہ بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت آپ جس عظیم مرحلے میں ہیں۔لوگ لاکھ باتیں بنائیں ،مگر خود کو بتائیں آپ کا موجودہ کام اور درپیش حالات انتہائی اہم ، وسعت نظری کے متقاضی ہیں۔
تھوڑا صبر ،انتظار ، ثابت قدمی اہم ہے۔ خاندان میں بڑی بہو ہونا ،چھوٹے بچوں کی ماں ہونا، رشتوں کوبیلنس رکھنے کی کوشش میں لگے رہنا بلند پائے کا کام اورصلاحیت ہے۔ کانٹوں کے درمیاں پھولوں کی کاشت کرنا معمولی حوصلے سے ممکن ہی کہاں ہے ۔مختلف مزاج کے لوگوں سے حسب مراتب تعلق ،قبولیت، ڈیلنگ کمال درجےکی تحمل مزاجی کی متقاضی ہے۔ اب آپ خود سوچیں۔
کیا یہ ’’فل اسٹاپ‘‘ ہے ۔آپ جان جائیں گی ۔یہاں تک کہ سلسلے کا آغاز ہے۔فل اسٹاپ تو تب ہوگا ۔جب ان حالات میں منفیت کے زیر اثراپنے ہر عمل کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہرانے لگیں گی۔ حوصلہ ،امید اور ہواس کھو بیٹھیں گی ۔تب نہ صرف طاقت ضائع ہو گی بلکہ خود کو ضائع کر بیٹھیں گی، اس تتلی کی طرح جسے تخلیقی عمل میں آسانی دینے کوئی پیوپا کاٹ ڈالے اور یہ بے صبری اسے اڑنے کی طاقت اور پروں سے محروم کر دے۔
لہٰذا اس وقت کو قیمتی جانیں ۔یقیناً سخت ہے، مگر آپ کو برداشت کرنا ہے کہ، نتیجے میں آپ کو خاص طاقت،اڑان چاہیے۔ لہٰذا گرم سرد حالات کا مقابلہ کرتے خوش اور مطمئن رہنا سیکھیں۔ اس بات کو سمجھیں کہ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا۔ تنگی ،آسانی دونوں زندگی کا حصہ ہیں۔ رب کا وعدہ ہے ۔ہر تنگی کے ساتھ ہی آسانی ہے۔ وہ بندے کی آزمائش کرتا ہے کہ وہ مختلف حالات میں مجھ پر کتنا بھروسہ کرتا ،تعلق کتنا استوار کرتا اور اپنے حصے کے کام پر مستقل مزاجی سے جما رہتا ہے ۔اچھا وقت یقینا ًقریب ہے۔