• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پارلیمنٹ کو کچلنا کیوں چاہتے ہیں؟ کہتے ہیں نمبر گیم پورا ہونا چاہئے، فرد واحد آکر پارلیمان کو ربر اسٹیمپ بنا دیتا ہے، چیف جسٹس

اسلام آباد (ایجنسیاں، جنگ نیوز)چیف جسٹس پاکستان نے پروسیجر ایکٹ کیخلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ نے اچھی نیت سے قانون سازی کی ہے، پارلیمنٹ کو کچلنا کیوں چاہتے ہیں؟ کیا پارلیمان ہماری غلطی درست نہیں سکتی ؟اگر کوئی مریض مر رہا ہو تو کیا میڈیکل کی سمجھ رکھنے والا صرف اس لیے مریض کو مرنے دے کہ وہ ڈاکٹر نہیں ہے ؟ پارلیمنٹ کو کہتے ہیں کہ نمبر گیم پورا ہونا چاہیے لیکن فرد واحد آکر پارلیمان کو ربڑ اسٹمپ بنا دیتا ہے، کوئی تو یاد دلائے گا کہ آئین کے دائرے میں رہیں، جسٹس منیب اختر نے کہا سادہ اکثریت سے آئین میں بالواسطہ ترمیم کا دروازہ کھولا جارہا ہے، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا سوال اچھے یا برے کا نہیں اختیار کا ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا آئین اور قانون سازوں کی نیت دیکھ رہے، صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد زبیری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین کاآرٹیکل 191 سپریم کورٹ کو رولز بنانے کی پاور دیتا ہے، بعدازاں سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پرسیجر ایکٹ کی سماعت آج تک ملتوی کردی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے تشکیل کردہ فل کورٹ بینچ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کیخلاف دائر 9 درخواستوں پر سماعت پیر کو سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 15 رکنی فل کورٹ بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔ صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد زبیری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 191 مطابق کورٹ کے پریکٹس اینڈ پروسیجر کو ریگولیٹ کرنے کیلئے سپریم کورٹ آئین اور قانون کے تابع رولز طے کر سکتی ہے، اس لیے میری عاجزانہ رائے ہے کہ کورٹ کے پریکٹس اینڈ پروسیجر رولز کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار رکھنے والی واحد اتھارٹی پارلیمنٹ نہیں سپریم کورٹ ہے، قانون اور آئین کے تابع کا یہ مطلب نہیں کہ پارلیمنٹ اس سلسلے میں قانون سازی کر سکتی ہے، اگر قواعد طے کرنے کے اختیار کو قانون سازی سے مشروط کر دیا جائے تو سپریم کورٹ کی قانون سازی کا اختیار ختم ہوجائیگا۔ دوران سماعت جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ سوال اچھے یا برے کا نہیں اختیار کا ہےآئین سپریم کورٹ کو رولز بنانے کےلیے بااختیا ر بناتا ہے۔پارلیمنٹ رولز نہیں بنا سکتی نہ ہی رولز بنانے کیلئے قانون سازی کر سکتی ہے، موجودہ قانون کے دائرہ کار میں رہ کر رولز میں تبدیلی کا اختیار صرف سپریم کورٹ کے پاس ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا سادہ اکثریت سے آئین میں بالواسطہ ترمیم کا دروازہ کھولا جارہا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم یہاں آئین اور قانون سازوں کی نیت دیکھ رہے ہیں، اگر آئین سازوں کی نیت دیکھنی ہے تو آرٹیکل 175 دیکھیں، اگر آئین سازوں نے مکمل اختیار سپریم کورٹ کو دینا ہوتا تو واضح طور پر لکھ دیتے، اگر کوئی بھی ضابطہ قانون یا آئین سے متصادم ہوگا تو وہ خود ہی کالعدم ہو جائے گا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا آئین کہتا ہے سپریم کورٹ اپنے پریکٹس اینڈ پروسیجر کے رولز بنانےکیلئے بااختیار ہے، سپریم کورٹ آئین سے بالارولز بناتا ہے تو کوئی تویاد دلائےگاکہ آئین کے دائرے میں رہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا آئین توپہلےہی سپریم کورٹ کوپابندکرتا ہےکہ آئین و قانون کے مطابق رولز بنائے جبکہ چیف جسٹس پاکستان نے عابد زبیری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا وقت کم ہے جلدی سے میرے سوال کا جواب دے دیں کہ سبجیکٹ ٹو لا کو نکال دیں تو رولز بنانے کے اختیار پر کیا فرق پڑےگا؟صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد زبیری نے اپنے دلائل میں کہا آئین سے آئین و قانون کے مطابق رولز بنانےکے الفاظ ہٹا دیے جائیں توبھی فرق نہیں پڑےگا، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا بس ٹھیک ہے جواب آ گیا، اگلے نکتے پر جائیں۔عابد زبیری کا کہنا تھا اگر آرٹیکل 191میں کہا جاتا پارلیمنٹ سپریم کورٹ سے متعلق قانون سازی کر سکتی ہے تو ٹھیک تھا، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا ایک اور سوال ہے، کیا سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے اختیار سے تجاوزکرکے قانون بنا سکتی ہے؟ ہمیں دیکھنا ہو گا آئین کسی بھی ادارے کو آئینی حدود کا پابند کہاں بناتا ہے، آئین سپریم کورٹ کو آئین و قانون کے مطابق رولز بنانےکیلئے بااختیار بناتا ہے بات ختم۔

اہم خبریں سے مزید