اسلام آباد (رپورٹ :رانا مسعود حسین)سپریم کورٹ آف پاکستان کے فل کورٹ بینچ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کیخلاف تمام درخواستیں مستردکرتے ہوئے پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم کرلی اور پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو قانون کے مطابق قرار دیدیا،پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستیں 5، 10 سے مسترد کی گئیں چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کا اطلاق ماضی سے نہیں ہوگا،فیصلے کے مطابق ماسٹر آف روسٹر کا تصور ختم کردیا گیا، بینچ کی تشکیل، مقدمات موخر کرنے اور از خود نوٹس کا صرف چیف جسٹس کا اختیار 3 رکنی ججز کمیٹی کو منتقل ہوگیا ہے، 184/3 کے مقدمات میں اپیل کا حق آئینی قرار دے دیا گیا ۔اپیل کے حق کیلئے 9 ججز نے حمایت 6 نے مخالفت کی، ماضی کے کیس سے اطلاق کا فیصلہ 8،7 کے تناسب سے مسترد ہوگیا، 15 رکنی فل بینچ نےبراہ راست تاریخی کوریج کی، 4 صفحات پر مشتمل مختصر فیصلہ جاری کیا گیا ۔ قبل ازیں دوران سماعت چیف جسٹس پارلیمنٹ سپریم کورٹ کی دشمن نہیں ہے، عوام کے حقوق ہیں، ہم بھول جاتے ہیں کہ دنیا مل جل کر چلتی ہے، ہم ایک دوسرے کے اداروں کو منفی سوچ سے کیوں دیکھتے ہیں، جیو اور جینے دو کا اصول اپنانا ہو گا، درخواست گزاروں کو ثابت کرنا ہے کہ قانون غلط ہے، اٹارنی جنر ل بتائیں یہ قانون آئین کے مطابق ہے یا نہیں؟ پارلیمنٹ چاہتی تو ایک قدم آگے بھی جاسکتی تھی، پارلیمان نے عدالت پر اعتماد کیا، اس قانون سے سپریم کورٹ کی عزت رکھی اورہم آئینی ادارے میں مین میخ نکال رہے ہیں۔تفصیلات کے مطابق عدالت عظمیٰ کے15رکنی فل کورٹ بنچ نے سپریم کورٹ(پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023کیخلاف دائر درخواستوں کی سماعت مکمل ہونے کے بعد10 ججوں کا اکثریتی فیصلہ جاری کرتے ہوئے آئینی درخواستیں مستردکردی ہیں۔ فیصلے کے اجراء کے بعد آئین کے مطابق سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 ملک میں اپنے اجراء کی تاریخ 10 اپریل 2023سے نافذالعمل ہوگیا ہے، دس، پانچ ججوں کی اکثریت کے تناسب سے سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ کو برقرار رکھتے ہوئے آئینی درخواستوں کو مسترد کیا جاتا ہے، پندرہ ججوں میں سے(5ججوں) جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس مظاہر علی اکبرنقوی اور جسٹس شاہد وحید نے ا س قانون کی مخالفت کی ہے جبکہ باقی دس ججوںنے اس قانون کے حق میں فیصلہ دیا ہے تاہم عدالت نے آٹھ، سات ججوں کے تناسب سے ’’اس قانون کے ماضی سے اطلاق‘‘ کی شق کومسترد کردیا ہے جسے بعد اس قانون کا اطلاق ماضی سے نہیں ہوگا،جن اقلیتی ججوں نے اس قانون کے ماضی سے اطلاق کی حمایت کی ہے،ان میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق اور جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں جبکہ بقایا 8ججوں نے اسکی مخالفت کی ہے، اسی طرح عدالت نے نو، چھے ججوں کے تناسب سے آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت مقدمات میںاپیل کے حق کی شق کو برقرار رکھا ہے،جن 6 ججوںنے اپیل کے حق کی مخالفت کی ہے ان میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس شاہد وحید شامل ہیں۔ قبل ازیں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل پندرہ رکنی فل کورٹ بینچ نے بدھ کے روز کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جوکہ شام کے وقت کھلی عدالت میںجاری کیا گیا، مقدمہ کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ ہماری دشمن نہیں ہے، پارلیمنٹ نے اس قانون سے سپریم کورٹ کی عزت رکھی ہے، ماضی قریب میں سپریم کورٹ نے اختیار سماعت بڑھایا نہیں بلکہ تخلیق کیاہے، کیا بطور سپریم کورٹ ہم ایسا کر سکتے ہیں؟ جس کا اختیار ہی نہیں تھا؟جب آمریت چل رہی تھی اور ایک جابرحکمران نے حقوق سلب کر لیے تھے تو اس وقت تو کوئی نہیں بولا تھا اور اب جب پارلیمنٹ نے قانون سازی کی تو سوالات اٹھائے جارہے ہیں، سپریم کورٹ کو مزیداختیار دیا جا رہا ہے،تاہم اگراکسی کو نہیں پسند آ رہا تو کالعدم قرار دے دیجیے گا،ماضی میں ہمارے کندھوں پر بندوق رکھ کر ہمیںاستعمال کیا گیا، ماضی میں عدالتوں سے اختیارات چھینے گئے،شریعت کورٹ بنا کر متوازی عدالتی نظام قائم کیا گیا لیکن چونکہ یہ سب ایک جابر نے کیاتھا اسلئے اسلامی ریاست میں سب نے اسے سراہاتھا، دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ قانون بنانے کا اصل منبع پارلیمان ہے، پارلیمان کے بنائے قانون کو دیگر تمام قوانین پر فوقیت حاصل ہے، اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ( پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کا دفاع کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے پریکٹس اینڈ پروسیجر سے متعلق قانون سازی کا اختیار حاصل ہے،ماضی میں براہ راست اختیار سماعت کے مقدمات کے فیصلوں سے ملک کا نقصان ہواہے، ،قبل ازیں فل کورٹ بینچ نے کیس کی سماعت کی تو اٹارنی جنرل بیرسٹر منصور عثمان اعوان نے اس قانون کے حق میں اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میں تحریری جواب کی بنیاد پر اپنے دلائل پیش کرونگا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ سب باتیں دہرائینگے بلکہ نہیں ہائی لائٹ کرینگے،جس پر انہوںنے کہا کہ جو کہا جا چکا ہے اسکو نہیں دہراؤں گا۔دوران سماعت جسٹس عائشہ ملک، جسٹس منیب اختر اور جسٹس اعجاز الااحسن نے فل کورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل کے حق پر سوالات اٹھائے تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فل کورٹ تشکیل دینے کی اپنی غلطی کا اعتراف کرتا ہوں مگر پھر معزز ججز کو اس بینچ میں بیٹھنا نہیں چاہیے تھا، جب آٹھ رکنی بینچ تشکیل دیا گیا اس وقت بھی ججز کو ذہن میں رکھنا چاہیے تھا کہ آٹھ رکنی بینچ کیخلاف اپیل کون سا بینچ سنے گا،میرے فاضل دوستوں نے اس وقت تو کوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔ جسٹس طارق مسعود نے ریمارکس دئیے کہ وہ وکلا جو ہمیشہ مطلق العنانیت کیخلاف سڑکوں پر نکلتے رہے، اب جبکہ پہلی دفعہ قانون بنا کر مارشل لا کا راستہ روکا جا رہا ہے تو آپ کیوں اسکی مخالفت کر رہے ہیں؟ ماضی میں سپریم کورٹ نے آرٹیکل 184/3 استعمال کرتے ہوئے مارشل لا کی توثیق کی،پارلیمنٹ نے مارشل لا کو روکنے کیلئے قانون بنایا، چار مرتبہ اس ملک پر ظلم کیا گیا،آخری دفعہ پرویز مشرف نے ظلم کیا، ایک چیف جسٹس بینچ بنا کر غیر آئینی اقدام کی توثیق کر دیتا ہے،اس پر آپکو اعتراض نہیں،قرآن بھی مشاورت کی بات کرتا ہے، آپ کہتے ہیں ڈکٹیٹر شپ ٹھیک ہے،کیا ہم غلام ہیں، یہ ہمارا مستقبل ہے،ڈکٹیٹر شپ کو فروغ نہ دیں،قانون پر فیصلہ کر لینگے،اس ملک کو چلنے دیں،اتنا تو کہیں قانون ٹھیک بنا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں آرٹیکل 191 اور عدلیہ کی آزادی کی بات کروں گا، 3 سوالات اٹھائے گئے تھے جن کا جواب دوں گا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں آرٹیکل 19 اے میں جو اصطلاح استعمال ہوئی وہ باقیوں سے الگ ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 19(اے) سے اخذ حق قانون سازی سے ہی بنا، آرٹیکل 191 پارلیمنٹ کا حق قانون سازی ختم نہیں کرتا، پارلیمنٹ نے عدلیہ کی آزادی دی ہے مگر اپنا حق قانون سازی بھی ختم نہیں کیا۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ 1973 سے پہلے رولز بنانے کا اختیار گورنر جنرل یا صدر کی پیشگی اجازت سے مشروط تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے جس بنیاد پر دلائل دیئے وہی دیتے تو یہ مسائل نہ ہوتے، کئی بار سیدھا ہاں یا نہ میں جواب دینا آسان نہیں ہوتا۔جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں رولز کو قانون کا درجہ ہے مگر آرٹیکل 191 کے تحت یہ قانون نہیں، جب ہم قانون کی بات کرتے ہیں تو ہمیں ایکٹ آف پارلیمنٹ سے زیادہ دیکھنا ہو گا۔جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ رولز بن جانے کے بعد آرٹیکل 191میں درج قانون کی اصطلاح ختم ہو جاتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرٹیکل 191 میں پارلیمنٹ پر ترامیم کی کوئی پابندی نہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں سپریم کورٹ کے بنائے گئے رولز میں پارلیمنٹ کے ترمیم کرنے پرکوئی پابندی نہیں؟ کیا پھر پارلیمنٹ کے بنائے قانون میں سپریم کورٹ کی جانب سے ترامیم پر بھی کوئی پابندی نہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون دینے والا ادارہ پارلیمنٹ ہے، زیرالتوا کیسز کی تعداد 70 ہزار تک پہنچ گئی تو شاید ایک اور قانون کی ضرورت پڑے۔