مولانا نعمان نعیم
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:پاک ہے، وہ ذات جو اپنے بندۂ خاص کو لے گیا رات میں مسجد حرام سے مسجدِاقصیٰ تک، وہ مسجد جس کے اردگرد ہم نے برکت فرمادی ،تاکہ ہم اسے دکھائیں اپنی نشانیاں۔(سورۃاِلاسراء)قدس ہی وہ شہر اورعلاقہ ہے جومسجد کے اردگرد ہے تو اس لحاظ سے وہ بابرکت ہوا۔ سرزمین فلسطین نہایت مبارک اور محترم جگہ ہے، یہ آسمانی پیغامات اور رسالتوں کا منبع اور سرچشمہ رہی ہے ، اس سرزمین پر اکثر انبیا اور رسل آئے ہیں ، یہی وہ سرزمین ہے جہاں سے معراج کی ابتدا اور انتہاہوئی ، یہ آسمان کا دروازہ ہے ، یہ سرزمین محشر بھی ہے ۔اللہ عزوجل نے سرزمین فلسطین کو خیر وبرکت والی زمین فرما یا ہے۔
ارشاد ربانی ہے: اور جن لوگوں کو کمزور سمجھا جاتا تھا، ہم نے انہیں اس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا جس پر ہم نے برکتیں نازل کی تھیں اور بنی اسرائیل کے حق میں تمہارے رب کا کلمہ خیر پورا ہوا، کیونکہ انہوں نے صبر سے کام لیا تھا اور فرعون اور اس کی قوم جو کچھ بناتی چڑھاتی رہی تھی، ان سب کو ہم نے ملیا میٹ کردیا۔(سورۃالاعراف: ۱۳۷)مزید فرمایا گیا: اور ہم نے نجات دی اسے اور لوط ؑکواس زمین کی طرف جو (کہ) ہم نے برکت رکھی اس میں تمام جہان والوں کے لیے ۔ (سورۃ الانبیاء: ۷۱)ترجمہ: اور ہم نے تیز چلتی ہوئی ہوا کو سلیمان ؑکے تابع کردیا تھا جو ان کے حکم سے اس سرزمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکتیں رکھی ہیں اور ہمیں ہر ہر بات کا پورا پورا علم ہے۔(سورۃ الانبیاء: ۸۱)
(ترجمہ)اور ہم نے ان کے اور ان بستیوں کے درمیان جن پر ہم نے برکتیں نازل کی ہیں ، ایسی بستیاں بسا رکھی تھیں جو دور سے نظر آتی تھیں ، اور ان میں سفر کو نپے تلے مرحلوں میں بانٹ دیا تھا اور کہا تھا کہ ان (بستیوں ) کے درمیان راتیں ہوں یا دن، امن و امان کے ساتھ سفر کرو۔(سورۃ السبا: ۱۸)
بیت المقدس وہ مقدس مقام ہے جو مسلمانوں ، عیسائیوں اور یہودیوں کے لئے یکساں طور پر متبرک ہے ، یہیں شب ِمعراج کے موقع پر رسول اللہﷺ کو عالم بالا کا سفر کرایا گیا ۔ رسول اکرم ﷺنے نبوت کے بعد سولہ ماہ سے زیادہ عرصہ تک اسی طرف رُخ کر کے نماز ادا فرمائی ، اس لئے یہ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے ، بعض روایتوں سے معلوم ہوا ہے کہ بیت اللہ شریف کی تعمیر کے کچھ عرصہ بعد سیدنا حضرت ابراہیم ؑہی نے بیت المقدس کی بھی تعمیر فرمائی تھی ، حضرت صالح ؑ، حضرت یعقوب ؑ، حضرت داؤد ؑ، حضرت سلیمانؑ، حضرت موسیٰ ؑ، حضرت زکریاؑ، حضرت یحییٰ ؑ، حضرت مسیح ؑاور کتنے ہی انبیائے کرامؑ کی حیات طیبہ اس مبارک مقام سے متعلق رہی ہے ، شہر بیت المقدس کے قرب و جوار میں بھی مختلف علاقے ہیں ، جو مختلف پیغمبروں سے منسوب ہیں ، اسی لئے اسلام کی نگاہ میں اس شہر اوراس مسجد کی خاص اہمیت ہے۔
ایک صحابیؓ نے رسول اللہ ﷺسے بیت المقدس کے بارے میں دریافت کیا توآپ ﷺنے فرمایا : یہ حشر و نشر کی سر زمین ہے ، یہاں آؤ اور نماز ادا کرو کہ اس مسجد میں ایک نماز ادا کرنا دوسری مسجدوں میں ایک ہزار نماز ادا کرنے کے برابر ہے، ان صحابیؓ نے استفسار کیا : اگر میرے اندر وہاں تک جانے کی استطاعت نہ ہو ؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: کم سے کم تیل کا ہدیہ ہی بھیج دو، جو وہاں چراغ میں کام آئے۔( ابن ماجہ)
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا : جب حضرت سلیمانؑ بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو اللہ تعالیٰ سے دُعا فرمائی ، اس میں ایک دُعا ایسی حکومت کی تھی جو آپ کے بعد کسی کو میسر نہ آئے اور اس میں ایک دُعا یہ بھی تھی کہ جو اس مسجد میں صرف نماز کے لئے آئے، تو اس کے گناہ اس طرح معاف ہو جائیں کہ گویا وہ آج ہی اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ تین دُعاؤں میں سے دو تو مقبول ہو گئیں اور مجھے اُمید ہے کہ یہ تیسری دُعا جو مغفرت سے متعلق تھی ، وہ بھی مقبول ہوگئی ہوگی۔ ( ابن ماجہ) اور یہ روایت تو حدیث کی متعدد کتابوں میں وارد ہے کہ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ خاص طور پر تین ہی مسجدوں کے لئے سفر کرنا درست ہے ، مسجد حرام ، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ ۔( ابن ماجہ ) اس لئے مسلمانوں کو اس مقدس اور متبرک مقام سے ہمیشہ قلبی اور جذباتی تعلق رہا ہے۔
ارض مقدس سے مراد ’’ارض مطہر‘‘ (پاک وصاف سرزمین ) ہے ، راغب کہتے ہیں : بیت المقدس : یعنی یہ شرک وکفر کی نجاست سے پاک ہے ، زجاج کہتے ہیں : ارض مقدس سے مراد دمشق، فلسطین اور اردن کے بعض حصے ہیں ، حضرت قتادہؓ سے مروی ہے : اس سے ملک شام مراد ہے ، ابن عساکر نے معاذ بن جبل ؓ سے روایت کی ہے کہ ارض مقدس عریش سے فرات تک کی سرزمین کو کہتے ہیں۔ سرزمین فلسطین کو ’’ارض مقدس‘‘ صرف قرآن مجید میں ایک جگہ پر کہا گیا ہے ، اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے : اے میری قوم! اس مقدس سرزمین میں داخل ہوجاؤ جو اللہ نے تمہارے واسطے لکھ دی ہے،اور اپنی پشت کے بل پیچھے نہ لوٹو، ورنہ پلٹ کر نامراد ہوجائوگے۔( سورۃالمائدۃ: ۲۱)
اللہ عزوجل نے سرزمین فلسطین کو ’’سرزمین محشر‘‘ بھی فرمایا ہے ، ارشاد باری عزوجل ہے :وہی ہے جس نے اہل کتاب میں سے کافر لوگوں کو ان کے گھروں سے پہلے اجتماع کے موقع پر نکال دیا۔(سورۃالحشر:۲)یہاں ’’ اول حشر‘‘ سے مراد یعنی ان یہودیوں کا ملک شام میں اکٹھا ہونا ہے ، جس وقت نبی کریم ﷺ نے بنو نضیر کو سرزمین مدینہ سے جلاوطن کردیا تھا، زہری سے مروی ہے کہتے ہیں ، اول حشر کے طور پر ان کی دنیا میں جلا وطنی سرزمین شام میں ہوئی تھی، ابن زید کہتے ہیں : ’’اول حشر‘‘ سے مراد سرزمین شام ہے، ابن عباسؓ سے بکثرت روایات میں منقول ہے، فرماتے ہیں : جسے اس بات میں شک ہو کہ ارض محشر سے مراد سرزمین شام ہے وہ اس آیت کو پڑھے ، پھر اس آیت کا آپ ﷺ نے تذکرہ فرمایا۔
قرآن کریم میں کئی جگہوں پر بغیر کسی صفت کے تذکرہ کے سرزمین فلسطین کا ذکر موجود ہے ۔اور ہم نے فیصلہ سنادیا بنی اسرائیل کو کتاب میں کہ بلاشبہ ضرور تم فساد کرو گے زمین میں دو مرتبہ اور ضرور بالضرور تم چڑھائی کرو گے بہت بڑی چڑھائی ۔(سورۃ الاسراء: ۴) شوکانی نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ یہاں اس آیت میں سرزمین شام اور بیت المقدس مراد ہے۔(ترجمہ) اور ہم نے زبور میں نصیحت کے بعد یہ لکھ دیا تھا کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے۔(سورۃالانبیاء: ۱۰۵)ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ یہاں ارض مقدسہ سے سرزمین شام اور فلسطین ہے،امت محمدیہﷺ وارث ہوں گے۔
ارشاد رب العزت ہے:اور ہم نے بنو اسرائیل کو ایسی جگہ بسایا جو صحیح معنی میں بسنے کے لائق جگہ تھی، اور انہیں پاکیزہ چیزوں کا رزق بخشا، پھرانہوں نے (دینِ حق کے بارے میں ) اس وقت تک اختلاف نہیں کیا جب تک ان کے پاس علم نہ آگیا۔یقین رکھو کہ جن باتوں میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے، ان کا فیصلہ تمہارا پروردگار قیامت کے دن کرے گا۔(سورۂ یونس: ۹۳)یہاں ملک شام کا جنوبی علاقہ فلسطین مراد ہے۔
قرآن کریم نے بعض سرزمین فلسطین کے علاقوں کا بھی تذکرہ کیا ہے :اور مریم کے بیٹے کو اور ان کی ماں کو ہم نے ایک نشانی بنایا، اور ان دونوں کو ایک ایسی بلندی پر پناہ دی جو ایک پرسکون جگہ تھی اور جہاں صاف ستھرا پانی بہتا تھا۔(سورۃ المؤمنون:۵۰)ابن جریرؒ نے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: یہاں ’’الربوۃ‘‘ سے مراد ’’ الرملۃ‘‘ ہے ۔ابن عساکر ابو ہریرہ ؓ کی روایت نقل کرتے ہیں : ’ ’ ربوۃ‘‘ سے فلسطین کا علاقہ مراد ہے۔ قتادہ، کعب اور ابوالعالیہ فرماتے ہیں : اس سے مراد بیت المقدس ہے۔
(ترجمہ)تو وہ حاملہ ہو گئی ،اس سے پھر وہ الگ ہوگئی اس کے ساتھ ایک دور جگہ (یعنی جنگل )میں ۔(سورۂ مریم : ۲۲)مفسرین نے اس آیت کا یہ مطلب بتایا ہے کہ حضرت مریم ؑحالتِ حمل میں دور چلی گئیں ، ابن عباسؓ فرماتے ہیں: وادی اقصیٰ تک گئی، اور یہی بیت اللحم ہے ، اس کے اور ’’ایلیا‘‘ کے درمیان چار میل کا فاصلہ ہے ، اور ’’ایلیا‘‘ ’’بیت المقدس ‘‘ کاہی ایک نام ہے۔
ارشاد ربانی ہے: اور (وہ وقت بھی یاد کرو)جب ہم نے کہا تھا کہ اس بستی میں داخل ہوجاؤ اور جہاں سے چاہو جی بھر کر کھاؤ اور (بستی کے)دروازے میں جھکے سروں سے داخل ہونا اور یہ کہتے جانا کہ (یااللہ)ہم آپ کی بخشش کے طلب گار ہیں (اس طرح)ہم تمہاری خطائیں معاف کردیں گے اور نیکی کرنے والوں کو اور زیادہ (ثواب) بھی دیں گے۔( سورۃ البقرہ : ۵۸)علماء کے مابین اس گاؤں کی تعیین میں اختلاف ہے ، جمہور علماء کا کہنا ہے یہاں ’’قریۃ‘‘ ’’گاؤں ‘‘سے مراد بیت المقدس ہے۔ ابن عباس ؓسے مروی ہے : یہاں ’’باب‘‘ دروازہ سے مراد بیت المقدس کا ’’باب الحطۃ‘‘ہے۔
سورۃ البقرہ ۲۵۹میں ارشاد باری تعالیٰ ہے(تم نے)اس جیسے شخص (کے واقعے) پر (غور کیا) جس کا ایک بستی پر ایسے وقت گزر ہوا جب وہ چھتوں کے بل گری پڑی تھی ۔قرطبی ؒنے ذکر کیا ہے اس سے مراد وہب بن منبہ اور قتادہ وغیرہ کے قول کے مطابق بیت المقدس ہے، جس وقت اللہ عز وجل نے بخت نصر کے ذریعہ بیت المقدس سے ان کا تخلیہ کرایا تھا، یہ عراق کا والی تھا، شوکانی اور جمہور بھی اسی بات کے قائل ہیں۔
(ترجمہ) جب طالوت لشکر کے ساتھ روانہ ہوا تو اس نے (لشکر والوں سے) کہا کہ اللہ ایک دریا کے ذریعے تمہارا امتحان لینے والا ہے( البقرہ : ۲۴۹)قتادہ نے ذکر کیا ہے کہ یہاں نہر سے مراد اردن اور فلسطین کے درمیان کی نہر ہے ، شوکانی نے ابن عباس ؓسے روایت کیا ہے کہ یہ نہر اردن ہے ، ابن عباسؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد نہر فلسطین ہے۔
(ترجمہ) یہاں تک کہ جب وہ آئے چیونٹیوں کی وادی پر کہا ایک چیونٹی نے اے چیونٹیو تم داخل ہو جاؤ، اپنے گھروں (بلوں )میں (کہیں )ہرگزکچل نہ دیں تمہیں سلیمان اور اس کا لشکراس حال میں کہ وہ شعور نہ رکھتے ہوں ۔(سورۃ النمل : ۱۸)امام رازی کہتے ہیں : اس ’’وادی النمل‘‘ سے مراد ’’وادی شام ‘‘ ہے ، جہاں چیونٹیوں کی کثرت ہوتی ہے ، یہ وادی ’’عسقلانی ‘‘ کے پڑوس میں واقع ہے۔
یہ سرزمین جس کے تقدس اور تبرک کا تذکرہ قرآن کریم میں بار بار آیا ہے، جس کے مسلمانوں کے بطور وارث ہونے کا تذکرہ قرآن مجید نے کیا ہے، یہ مسلمانوں کے یہاں نہایت متبرک اور مقدس گردانی جاتی ہے، اس لئے مسلمانوں کو اس مقدس اور متبرک مقام سے ہمیشہ قلبی اور جذباتی تعلق رہا ہے۔ اسلام سے پہلے یہ شہر بار بار تاراج کیا جاتا رہا، خاص کر چھٹی صدی قبل مسیح بابل کے حکمراں بخت نصر نے اس شہر اور اس کے مقدس مقامات کی جس طرح اینٹ سے اینٹ بجائی اور ایک لاکھ یہودیوں کو قید کر کے بابل لے گیا ،وہ تاریخ کے اہم واقعات میں سے ایک ہے ، یہودی جو اپنے آ پ کو اس شہر کا اصل وارث سمجھتے ہیں، صرف چند سال ہی اس شہر پر برسر اقتدار رہے۔
حضرت عمرؓ کے عہد میں بیت المقدس کا علاقہ حضرت عمروبن العاصؓ اور حضرت ابو عبیدہؓ نے فتح کیا ، مسلمان چاہتے تھے کہ شہر میں خون ریزی نہ ہو اور صلح کی صورت نکل آئے ، عیسائیوں نے یہ شرط لگائی کہ خلیفہ المسلمین خود آکر دستاویز پر دستخط کریں ، حضرت عمر ؓ نے اسے قبول فرمالیا اور مدینہ میں حضرت علیؓکو اپنا قائم مقام بنا کر بیت المقدس تشریف لائے، بیت المقدس سے پہلے ہی’ جابیہ‘ نامی مقام پر اسلامی لشکر نے حضرت عمرؓ کا استقبال کیا، وہیں عیسائی رہنما بھی آگئے اور معاہدۂ صلح کی تحریر عمل میں آئی، اس معاہدے کے تحت عیسائی باشندوں کی جان ومال ، مذہبی مقامات، حضرت مسیح ؑکی مورتیوں وغیرہ کی حفاظت کی ضمانت دی گئی، بلکہ عیسائی یہودیوں کے ساتھ رہنا نہیں چاہتے تھے ، حضرت عمرؓنے ان کی اس خواہش کو بھی قبول فرمایا اور یہودیوں کی الگ آبادی بنائی گئی۔
افسوس صد افسوس کہ اس مقدس اور پاک سرزمین پر ناپاک یہودی قابض ہوکر مسلمانوں پر بدترین مظالم ڈھارہے ہیں۔ مسلمانوں کو اس کے تقدس کو سمجھنا اور بیت المقدس کی بازیابی کے لیے ہرممکن کوشش کرنی چاہیے، بلاشبہ یہ ایک دینی و مذہبی فریضہ ہے۔
ہم آج بھی اپنے اس موقف کا اعادہ کرتے ہیں کہ ہم اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ ہیں،فلسطینی مجاہدین کا اسرائیل پر حملہ تاریخی کامیابی اور تاریخی معرکہ ہے کہ اپنے علاقوں کو اسرائیل کے غاصبانہ قبضے سے چھڑایا ہے، یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ اسرائیل کوئی بڑی قوت نہیں، بلکہ اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔1967 سے پہلے والے بارڈرز کے تحت خودمختار فلسطینی ریاست قائم ہونی چاہیے جس کا مرکز القدس شریف ہو۔
بلاشبہ تنازع فلسطین کا یہی واحد قابل عمل حل ہے لیکن عشروں پہلے اس پر عالمی اتفاق رائے کے باوجود اب تک اس کا ٹلتے رہنا بعض بڑی طاقتوں کے منافقانہ رویوں کا نتیجہ ہے۔ امن پوری دنیا کی ضرورت ہے اور اس کے لیے تنازع فلسطین کا منصفانہ حل ناگزیر ہے، اقوام متحدہ اپنا فرض پورا کرے اور 1967 کی قراردادوں پر عملد رآمد کرواتے ہوئے بیت المقدس کو مسلمانوں کے حوالے کرے، ارضِ فلسطین، مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کی آزادی کی جدوجہد امت مسلمہ کا دینی و اجتماعی فریضہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بیت المقدس کی بازیابی کے لیے پوری مسلم امہ اپنے اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے۔