• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: ایک باہمی جھگڑے کے دوران میں نے اپنی بیوی کو پورے ہوش و حواس میں مخاطب کرتے ہوئے یہ الفاظ کہے: میں آپ کو طلاق دیتا ہوں اور اس کے بعد اپنی گری ہوئی عینک کو اٹھاتے ہوئے اگلا جملہ کہا: بس یہ طلاق ہوگئی، یہاں میں نے اپنی بیوی کو مخاطب نہیں کیا، بلکہ خود سے ہم کلام ہوتے ہوئے پہلے جملے کی تاکید میں کہا۔ 

اس کے بعد کمرے سے نکلتے ہوئے اِسی طرح ہم کلامی کے انداز میں ایک اور جملہ (جو صحیح طرح یاد نہیں، غالباً ’’بس میں نے طلاق دے دی‘‘ کہا) یہ کہتے ہوئے جب کمرے سے نکل رہا تھا تو میری بیوی نے ہماری بیٹی 16سالہ بیٹی کو میرے متعلق کہا کہ اس نے تین مرتبہ کہا ہے، جس پر میں نے فوراً اس بات کو رد کیا کہ میں نے صرف ایک طلاق دی ہے اور باقی کی تکرار پہلی کی تاکید میں ہم کلام ہوتے ہوئے کی ہے اور میں اب بھی یہ بات یقین سے کہتا ہوں کہ میں نے ایک ہی طلاق دی ہے اور باقی کے جملے اور الفاظ پہلے کی تاکید میں خود سے کلام کرتے ہوئے کہے، بہرحال اس واقعے کے فوراً بعد ہمارے استاد اور ان کی اہلیہ آئے اور میری بیوی کو سمجھانے کی کوشش کی، لیکن وہ نا مانیں اور اپنے گھر چلی گئیں۔ 

یہ واقعہ 16 نومبر 2024 کو ہوا، اس دوران میں مسلسل صلح کوشش کرتا رہا ہوں اور قولی اور تحریری رجوع کرچکا ہوں۔ احناف کے فتویٰ کی مطابق طلاق ایک ہوئی ہے یا تین ہوئی ہیں، میرے رجوع کرنے کی شرعی حیثیت کیاہے؟ (ایک سائل، کراچی)

جواب: مفتی غیب نہیں جانتا، بلکہ فریقین کے بیان کردہ احوال کی روشنی میں شرعی حکم بیان کرنا مفتی کا کام ہے۔ اُن کے سچا یا جھوٹا ہونے کا فیصلہ اُن کے اور رب کے درمیان کا معاملہ ہے، چنانچہ اگر کوئی فریق غلط بیانی سے کام لے رہا ہے، تو اُس کا وبال خود اُس پر ہے۔

اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق کے صریح الفاظ کہے، تو یہ طلاق ہر حال میں واقع ہوجاتی ہے، چاہے اس نے طلاق کی نیت کی ہو یا نہ کی ہو، نیزصریح الفاظ میں تکرار سے غرض اگر تاکید ہو تو جتنی مرتبہ کہا، سب ایک ہی طلاق سمجھی جاتی ہے، ورنہ جتنی مرتبہ کہا، اتنی ہی طلاق واقع ہوں گی۔

سوال میں بیان کی گئی صورت کے مطابق آپ نے ایک طلاقِ رجعی دی اور اُس کے بعد اُس طلاق کی تاکید کے طور پر کہا: بس یہ طلاق ہوگئی، بس میں نے طلاق دے دی، ان الفاظ سے جدید طلاق واقع نہیں ہوگی۔

فوری طور پر آپ نے وضاحت بھی کردی کہ ’’ میں نے صرف ایک طلاق دی ہے اور باقی کی تکرار پہلی کی تاکید میں ہم کلام ہوتے ہوئے کی ہے ‘‘، اس سے صرف ایک طلاق واقع ہوئی اور چونکہ آپ نے رجوع بھی کرلیا ہے، آئندہ صرف دو طلاقوں کا اختیار آپ کو حاصل ہے۔ 

علامہ حسن بن منصور اوزجندی المعروف قاضی خان لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ کسی شخص نے اپنی بیوی سے (تین مرتبہ) کہا: انت طالق ( تجھے طلاق ہے) اور وہ کہتا ہے: پہلے جملے سے میری مراد قصداً طلاق دینا تھا اور دوسرے اور تیسرے جملے سے میری مراد بیوی کو سمجھانا تھا، تو دیانتاً اس کے قول کی تصدیق کی جائے گی اور قضاء ً (یعنی قاضی کے ہاں) اُسے تین طلاقیں ہوگئیں، (فتاویٰ قاضی خان، جلد2،ص:218)‘‘۔

خدانخواستہ جب کبھی آپ نے اپنی بیوی کو دو طلاقیں ( الگ الگ یا ایک ساتھ ) دے دیں، تو دونوں ایک دوسرے پر حرام ہوجائیں گے، ابھی آپ کا دونوں کا نکاح بدستور قائم ہے، رجوع صحیح ہوچکا ہے۔ 

آپ کے سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو مسائل کی سمجھ ہے، پھر جب آپ نے ایک طلاق دے دی تو ایک سے زائد بار اسے مؤکَّد کرنے کی کیا ضرورت تھی، اس سے آپ جیسے لوگوں کی طبعی افتاد کا پتا چلتا ہے کہ عنداللہ ایک ناپسندیدہ بات آپ سے سرزد ہوگئی تھی، تو اُس پر نادم ہوتے، نہ کہ اس کے تکرار پر اصرار کرتے، آپ کی اہلیہ کو بھی معلوم ہوگیا تھا، پس آپ کا یہ انداز انتہائی ناپسندیدہ ہے۔

اقراء سے مزید