قبل از تاریخ اِنسان یہ تصوّر کرتا تھا کہ سطح زمین پر جو طبعی خدّوخال موجود ہیں وہ سیّارہ زمین کے صرف 28 فی صد حصوں میں موجود ہیں جب کہ بقیہ 72 فی صد حصوں میں سمندر کے نمکین پانی کا ایک نا ختم ہونے والا ذخیرہ موجود ہے، جس کی سب سے اہم وجہ سائنسی شعور کی پسماندگی تھی لیکن جدید سائنسی انکشاف سے آج کا ترقّی یافتہ اِنسان بھی یہ جان کر حیرت زَدہ ہے کہ سمندر کے اندر ہی اندر کوہستانی سلسلے ایک طویل علاقوں تک پھیلے ہوئے ہیں جہاں وقتاً فوقتاً زلزلے اور زیرِ آب آتش فشانی کا عمل بھی برابر ہوتا رہتا ہے، جس کی وجہ سے پہاڑی سلسلے پھوٹ بھی جاتے ہیں، جس کے ذریعہ بلند تپش والا ’’ارضی سیال‘‘ یعنی میگما اور لاوا سمندری فرش پر بہہ جاتا ہے۔
سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ اس بلند حرارتی علاقوں میں بعض گراں قدر ذخائر اور خصوصی نوعیت کی حرارتی کشش سے قربت رکھنے والی حیات اور حیاتِ نو کی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں لیکن سمندر کا پانی بہت گہرا (900-4000 میٹر) ہونے کی وجہ سے ان علاقوں کا کوئی حصہ سمندر سے باہر بے نقاب نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے 1873 ء تک ماہرین ان کے حالات سے لا علم رہے۔ دُوسری جنگ عظیم کے بعد ’’چیلنجر‘‘ نامی بحری جہاز جدید آلات سے مزین ہو کر ایک نظروں سے اوجھل دُنیا کی تلاش اور دریافت میں سرگرداں ہوگیا،جس کے نتیجے میں پہلی مرتبہ صدائے بازگشت کی بنیاد (Echo Sounding) کی ٹیکنالوجی کی بنیاد پر زیرِ آب سمندری فرش کی حقیقی بناوٹ اور پروفائل کے بارے میں بڑی حیرت انگیز معلومات سے دُنیا کو آگاہی حاصل ہوئی، جس کی وجہ سے سمندر بین الاقوامی طور پر ریسرچ اور تجزیہ کا محور اور مرکز بن گیا۔
نتیجے میں 66 ممالک متحد ہو کر سمندر کی پُراسرار دُنیا کا کھوج لگانے کے لئے اتھاہ گہرائی میں غوطہ زَن ہو کر اجتماعی طور پر یہ انکشاف کیا کہ ’’ایٹلانٹک‘‘ سمندر کے بیچوں بیچ ایک عظیم کوہستانی سسٹم موجود ہے جہاں سے گرم سیال مادّہ مسلسل باہر اُبل کر سمندری پانی میں شامل ہو رہا ہے ،جس سے نئی سمندری فرش (کرسٹ) کی وقوع پذیری ہو رہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ سمندری فرش پر ’’ارضی سیال‘‘ یعنی میگما اور لاوا کے برابر اخراج اور منجمد ہونے سے عظیم پہاڑی سلسلے بھی جنم لے رہے ہیں ،جس کا اپنا ’’کرسٹ‘‘ بھی ہوتا ہے۔ سائنسی حلقوں نے متفقہ طور پر اس کا نام ارضی علوم کے حوالے سے ’’مِڈ اوشینک رج‘‘ (Mid-oceanic Ridge) یعنی وسطی سمندری پہاڑیاں تجویز کیا۔
یہ رج عام طور پر آتشی چٹانوں کی بنی ہوئی ہیں جو تقریباً 80000 کلومیٹر لمبی اور 1500-2500 کلومیٹر چوڑی معلوم کی گئی ہیں۔ اس ’’مڈ اوشینک رج‘‘ میں وادی سسٹم بھی موجود پائی گئی ہے۔ اسے’’افتراقی وادی‘‘ (Rift Valley) سلسلے کہتے ہیں جو قوت تنائو کے سلسلے کی ایک کڑی ہے جو دونوں اطراف نارمل خطاسے منسلک ہے۔ افتراقی وادی کا ’’مِڈ اوشینک رج‘‘ کے کرسٹ پر تخلیق پانا ایک حیران کن خصوصیت کو ظاہر کرتا ہے ،کیوںکہ زمین پر موجود کوئی بھی پہاڑی سلسلہ ایسا نہیں ہے جہاں پر اس طرح کی وادی کرسٹ کے ساتھ سفر کرتی ہو۔
اس قسم کی حیران کن افتراقی وادی کی موجودگی ایک تو براعظم کے ان مقامات پر تخلیق پاتی ہیں جہاں پر دو پلیٹوں میں ایک دُوسرے سے دور (Divergent of Plate) جانے کا عمل جاری ہو یا پھر دوسری طرف ان علاقوں میں جہاں ’’مِڈ اوشینک رج‘‘ کا غلبہ ہو۔ یہ زمین پر موجود وادی سے بالکل مختلف تیز خنجر کی طرح ہوتی ہیں ،جس کی سب سے کلاسک اور ترقّی یافتہ مثال مڈ ایٹلانٹک رج (Mid-Atlantic Ridge) شمار کی جاتی ہے۔
مِڈ رج‘‘ مرکزی ایٹلانٹک کے ساتھ 10000 میل کھینچتا گیا ہے اور سمندری فرش کے تین حصوں پر حاوی ہے جو ٹیکٹونک قوت کا مظہر ہوتی ہے۔ اس کی چوٹی براعظم پر موجود پہاڑی سلسلوں سے بھی زیادہ بلند (زیرِ آب) ہوتی ہے لیکن کبھی کبھار جزیرہ کی صورت میں سطح سمندر سے بلند ہو جاتی ہے۔ مثلاً ایزور (Azore) پرتگال میں موجود جزیرہ ’’مائونٹ پیکو‘‘۔ ان تمام معلومات کو مدنظر رکھتے ہوئے 1974ء میں ’’فرنچ ،امریکن اوشونک انڈر واٹر اسٹڈی‘‘ جیسے پروجیکٹ کی سنگ بنیاد رکھی گئی، جس کے اغراض و مقاصد میں مڈ رج کا زیرِ آب براہ راست مطالعہ کرنا، اس کی تصاویر کیمرے میں محفوظ کرنا اور مختلف چٹانی نمونوں کے حصول کو فوقیت دینا شامل تھیں۔
ماہرین ارضیات نے اس پروجیکٹ کے توسط سے بہت ہی واضح شواہد اکٹھا کئے، جس سے یہ اندازہ ہو گیا کہ ’’مڈ رج‘‘ کے اطراف یقینی طور پر ’’افتراقی وادی‘‘ موجود ہے، جس کے متوازی ایک باریک دراڑ لائن موجود ہے جو خطا کی توسیع کا نتیجہ ہے۔ یہی باریک دراڑیں کہیں پر شگاف کی شکل میں دکھائی دیتی ہیں ،جس کے ایک طرف دورِ حاضر کا ’’پیلو بسالٹ‘‘ (Pillow Basalt) افتراقی وادی کے فرش پر تنگ پٹی کی صورت میں موجود ہے جو ماضی قریب کی آتشی کارکردگی کی نمائندگی کرتا ہے۔ ماہرین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ ’’مِڈ رج‘‘ میں موجود رفٹ وادی مسلسل اور کبھی کبھی زیرِ آب آتش فشانی اور زلزلے جیسی قدرتی عوامل کی نشاندہی کرتا ہے جو افتراقی قوت سے وابستہ ہوتے ہیں۔
دُوسری طرف گرم چشموں کی ایک قطار موجود ہے جو دھات بردار ہونے کے ساتھ عمل ترسیب سے بھی گزر رہی ہیں۔ بحری غوطہ خوری کے پیشے سے منسلک ماہرین نے مڈ رج میں ان وادیوں کے کئی مقامات پر گرم چشموں کی موجودگی کا براہ راست مشاہدہ کیا اور ان گرم چشموں کی موجودگی کی وجہ اتھلے بسالٹک میگما سے خارج ہونے والی بلند تپش کو قرار دیا جو 20 ڈگری سینٹی گریڈ سے 350 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتی ہے۔ جیسے ہی گرم پانی اپنی جگہ یعنی رفٹ وادی کے بالائی جانب سے خارج ہو کر اُوپر اُٹھتا ہے تو کناروں کا سرد پانی اس کی جگہ لینے کے لئے پیش قدمی کرتا ہے۔
اس طرح ایک دائری چکر کے عمل کا آغاز ہوتا ہے، جس کے دوران سمندر کا سرد پانی نیچے موجود رج کے ساتھ منسلک بسالٹک دراڑوں سے بہتے ہوئے دوبارہ سمندری فرش پر نمودار ہوتا ہے۔ زیرِ آب سروے کے دوران یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ ’’مِڈ رج‘‘ پر موجود رفٹ وادی بہت سارے مقامات پر دراڑ زدہ زون سے وابستہ ہوتی ہے، جس کی وجہ سے سمندری فرش کی بلندی کہیں کم اور کہیں زیادہ ہوتی ہے جہاں پر کھڑی چٹانیں واضح طور پر موجود ہیں۔ اس مقام پر جو رفٹ وادی موجود ہے وہ خطائوں سے جوڑے ہوئے ہیں۔
جسے ’’ٹرانسفارم فالٹ‘‘ کہتے ہیں جو کئی ہزار کلومیٹر سمندری فرش کے آر پار پھیلے ہوئے ہیں اور آخر کار براعظمی مارجن کی طرف جا ملتے ہیں۔ سمندری فرش کے بعض مقامات پر بحری چوٹی (Sea Mount) پائی جاتی ہیں جو مخروطی شکل کی زیرِ آب پہاڑی چوٹیاں ہوتی ہیں۔ اس میں سے کچھ جزیروں کی صورت میں سطح سمندر سے باہر بے نقاب ہوگئی ہیں۔ یہ مڈ رج کے بازوئوں پر منتشر حالت میں پائے جاتے ہیں۔
سمندری فرش کے کچھ علاقوں میں بحری چوٹی کی بہت بڑی مقدار (تقریباً 10000) مرکوز ہوتی ہیں جو مغربی بحرالکاہل کا علاقہ ہے۔ بحری چوٹی سے جو چٹانی نمونے حاصل کئے گئے ہیں وہ بسالٹ آتش مادّہ پر مشتمل پایا گیا ہے، اسی وجہ سے اس اَمر کی تصدیق ہوتی ہے کہ اکثر بحری چوٹی غیرسرگرم آتش فشاں ہیں۔ ان میں سے چند ہی سرگرم ہوتے ہیں اور یہ زیادہ تر ’’مِڈ رج‘‘ کے کرسٹ میں تخلیق پاتے ہیں البتہ ان علاقوں کے اطراف دو آتش فشاں سرگرم نظر آتے ہیں لیکن وہ جزیرہ ہوائی پر واقع ہے اور رج سے منسلک نہیں ہوتی ہیں۔
بعض بحری چوٹی زیرِ سمندر کٹائو کے عمل سے بھی گزرتی ہیں، جس کی وجہ سے اس کا بالائی حصہ جو مخروطی ہوتا ہے تسرقی (Erosion) عمل کی وجہ سے سپاٹ ہو کر (لہروں کی زَد میں آ کر) زیرِ آب چلی جاتی ہیں، اسے گیہوٹ (Guyots) کہتے ہیں۔ یہ سپاٹ چھت والے گیہوٹ سمندر کی سطح سے کئی سو میٹر نیچے چلے گئے ہیں،جس کی وجہ ’’سبسائیڈنس‘‘ (Subsidence) ہوتی ہے۔ اس کی چوٹی سے مردہ کورل (Coral) کے نمونے حاصل ہونے کے بعد یہ شواہد حاصل ہوتے ہیں کہ یہ کورل ریف صرف اتھلے پانی میں افزائش پاتے ہیں۔ موجودہ پوزیشن کی گہرائی میں اس وقت پائے جا سکتے ہیں جب زیر غرق ہو جائیں۔ بہت سارے سمندری مائونٹ اور گائی اوٹ سمندری فرش پر سیریز کی صورت میں پائے جاتے ہیں۔
یہ آتشی سیریز اور دوسری رج سے سمندری فرش پر مل کر ایک ایسی رج کی تشکیل کرتے ہیں جو زیرِ آب ہوتی ہیں لیکن زلزلوں سے منسلک نہیں ہوتے۔ تمام آتشی کارکردگی جزیروں سے منسلک علاقوں میں ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے بعض مقامات پر گہری ضرب لگی ہوئی نظر آتی ہے، جس کی وجہ سے گہری کھائی (Trenches) پیدا ہوگئی ہیں جو ان فالٹ کے نتیجے میں تشکیل پاتی ہیں جن کے گرد آتشی کارکردگی ہو رہی ہے۔ سب سے بڑی کھائی بحرالکاہل میں دریافت ہوئی ہے جسے میری آنا کھائی (Mariana Trench) کہتے ہیں۔
یہ سمندر سے تقریباً 7 میل نیچے کی طرف اچانک موڑ لیتا ہوا (Plunged) نظر آتا ہے۔ دُوسری گہری کھائی ساحل جاپان، فلپائن، جاوا، مغربی میکسیکو ساحل پیرو اور چلی میں بھی موجودگی کی نشاندہی ہوئی ہے۔ یہ تمام کھائیاں تقریباً 6 میل گہری اور 2000 میل لمبی معلوم کی گئی ہیں۔ ان کھائیوں کے اردگرد چھوٹے چھوٹے متحرک آتشی فشاں موجود ہیں جس سے گراں قدر معادن اور دھاتیں بھی خارج ہو رہی ہیں۔ یہ آتش فشاں جو عموماً چمنیوں کی مانند نظر آتی ہیں، ان مقامات پر تشکیل پاتی ہیں جو ’’ رج‘‘ کی کھائیوں کا مکمل احاطہ کرتی ہیں۔ یہ ’’بلیک اسموکر‘‘ (Black Smoker) ہوتے ہیں۔