• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالیہ شمیم

آج کی دنیا بہت تیز رفتار ہے۔ جدید ٹیکنالوجی سے نئی نسل کی اُنسیت نے اس کے اندر بہت سی صلاحیتیں پیدا کردی ہیں، جس کے نتیجے میں اس کی رسائی معلومات کے مآخذ تک ہے۔ حالات سے اس کی واقفیت ہر وقت تازہ ترین ہوتی ہیں، اس کے باوجود آج کے نوجوان بہت جلد ہمت و حوصلہ ہارجاتے ہیں۔ ذرا سی ناکامی انہیں برداشت نہیں ہوتی، پھربہت سے نوجوان اپنی صلاحیتوں سے ناواقف ہوتے ہیں۔ وہ صرف شارٹ کٹ کی تلاش میں سرگرداں اور زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کی فکر میں رہتے ہیں۔ 

جو والدین اولاد کی سوچوں اور جذبوں تک نہیں پہنچتے، ان کی باتوں کو درخوئے اعتنا نہیںجانتے،ان کی معمولی کوتاہیوں، غلطیوں پر سختی برتتے ہیں۔ ان کی ناکامی پر انہیں نظروں سے گرادیتے ہیں، جس کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب پانی سر سے اونچا ہو جاتا ہے۔ کچھ حدود متعین کریں، جن کی وہ پابندی کریں ۔اور بچوں کوان حدود کی اچھی طرح سے پہچان کرانا بھی بہت ضروری ہے، تاکہ ان پر عمل درآمد کے لئے وہ ذہنی طور پر تیار ہوں۔کامیاب و با اخلاق گھرانہ کامیاب اولاد کا ضامن ہوتا ہے۔

جوانی زندگی کا بہترین دور ہے، جس میں علم و عمل کی بنیادیں مضبوط رکھی جائیں تو وقت کی آندھیاں بھی اسے ہلا نہیں سکتیں۔،نسل نو اپنے عزائم کو توانا رکھتے ہوئے درخشاں ستارہ بنیں اور مایوسی و پژمردگی سے بچیں ۔یہ جان لیں زندگی صرف کامیابی کا مجموعہ نہیں بل کہ ناکامی بھی اپنی جگہ مسلم ہے لیکن ہر ناکامی کے بعد کامیابی ملتی ہے۔ ہر مشکل کے بعد آسانی بھی ہوتی ہے ، سلگتے مسائل ہی قدموں کو تیز دوڑاتے ہیں۔ گلے شکوہ سے بچیں کیوں جوکچھ کر نہیں سکتا وہ ہی گلہ کرتا ہے زندگی کو پر سکوں و دل کش بنانے کے لیے ضروری ہے کہ نا پسندیدہ امور سے دور رہیں ۔ مقابلہ کریں اوراپنی امید کو توانا رکھیں۔

سائنس و ٹیکنالوجی کے اس تجدیدی دور میں نوجوانوں کو اپنی سنہری تاریخ کو دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ بجائے اُن غیر مسلم سائنسدانوں سے متاثر ہوا جائے اور اُن کی تقلید کی جائے، جنہوں نے مسلم اسکالرز کی تحقیقات کی بنیاد پر اپنے علوم کی عمارت کھڑی کی۔اپنی کھوئی ہوئی قدر و منزلت کو دوبارہ حاصل کرنے کی جدو جہد کریں۔ اپنے اندر اسلام کی حقیقی روح کو اجاگر کریں ۔اسلامی اصولوںکے مطابق بامعنی زندگی گزاریں۔ استقامت سے وقتی ناکامی پر قابو پائیں ، اپنا وقت صرف گزاریں نہیں بل کہ ہر گذرتے وقت سے کچھ پانے کی کوشش کریں۔

ہار سے نہ گھبرائیں ہارجیت تو زندگی کا حصہ ہے۔اپنی تمنا کو روشن رکھتے ہوئے میدان عمل میں بے خوف اتر جائیں ۔بروقت محنت بے وقت کی حسرت و پریشانی سے بچاتی ہے۔فراغت وتن آسانی سے بچیں۔خوبصورت الفاظ سے مزین گفتگو کریں ۔ والدین کو بھی عمل پر ابھارنے اور ہمت بندھانے والے الفاظ استعمال کرنے چاہیں۔ کم ہمتی کےالفاظ نہ صرف جذبوں کو ٹھنڈا کر دیتے ہیں بلکہ نقصان اور اذیت پہنچانے میں بھی بھر پور کردار ادا کرتے ہیں۔ چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے طاقت اور مضبوط ارادےکی ضرورت ہوتی ہے۔

طاقت اور مضبوط ارادے نظم و ضبط سے وجود میں آتے ہیں ،جس میں خواہشات، خیالات، جذبات اور افعال سبھی شامل ہیں اور یاد رکھیں کہ نظم و ضبط میں استقامت اُن خرافات سے بچنے کے بعد ہی حاصل ہوگی جن میں ہم آج پھنسے ہوئے ہیں جیسے سوشل میڈیا، دنیاوی تفریحات اور اس کی رونقیں، لہذا اس کے بجائے اپنی جسمانی و ذہنی اور روحانی نشوونما پر توجہ دیں۔ علم و ذہانت، اخلا ق اور اہلیت ان تین مقاصد کی طرف اگر آپ سنجیدگی کے ساتھ متوجہ ہو جائیں تومستبقل تابناک ہو سکتا ہے۔