• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آسیہ پری وش

’’کتنی دفعہ تمہیں اس موبائل اور کمپیوٹر کے زیادہ استعمال سے منع کیا ہے لیکن مجال ہے جو تم پہ کوئی اثر بھی ہو‘‘۔ وہ جو اپنے تئیں سب سے چھپ کر کمرے کے کونے میں د بکا موبائل گیم میں گم تھا ۔ابو کے اس اچانک چھاپے پہ بوکھلا کر کھڑا ہوگیا۔ موبائل کو چھپانے کا بھی اسے موقع نہ مل سکا ۔ ابو نے اُس سے موبائل چھین لیا۔’’ وہ ابو‘‘۔۔۔، یوں اچانک چوری پکڑے جانے پہ بوکھلاہٹ میں اس سے جملہ بھی پورا ادا نہ ہوسکا۔ حالانکہ ایسی چوریاں پکڑے جانا تو اس کا روز کا معمول بن گیا تھا۔ ’’کیا وہ ابو؟ موبائل اور کمپیوٹر کے زیادہ استعمال کی وجہ سے ہی تو اتنی چھوٹی عمر میں ہی یہ اتنا موٹا چشمہ اپنی آنکھوں پہ سجا چکے ہو پھر بھی ان چیزوں کا پیچھا نہیں چھوڑ رہے۔‘‘ابوکی ڈانٹ پہ حارث نے سر جھکالیا۔

شروع میں ہی جب اس نے موبائل اور کمپیوٹر کا استعمال زیادہ کرنا شروع کیا تو اس کے ماں باپ نے اسے پیار، ڈانٹ اور مار سے بہت سمجھانے کی کوشش کی لیکن اس نے تو کسی بات کا اثر ہی نہیں لیا ،مگر کمپیوٹر اور موبائل کی مہلک شعاعوں نے اپنا اثر دکھانا شروع کردیا۔ پہلے پہل جب حارث کو بلیک بورڈ پہ ٹیچر کی لکھائی دھندلی اور پڑھنے میں مشکل ہونے لگی تو اس نے اس بات کو زیادہ اہمیت نہیں دی لیکن جب اس مشکل کے ساتھ ساتھ اس کی آنکھیں دکھنا اور آنکھوں سے پانی آنے کی تکلیف بھی ہونے لگی توامی ابو کی ڈانٹ اور مار کے ڈر سے وہ خاموش رہا اور موبائل سے دور رہنے کی کوشش کرنے لگا لیکن حد سے بڑھی عادتیں کب اتنی جلدی پیچھا چھوڑتی ہیں سو اپنی ناکام کوششوں کے باوجود جب اس کے سر میں بھی درد ہونے لگا تو اس نے اپنی ممکنہ ڈانٹ کے خوف سے ڈرتے اور روتے ہوئے اپنی کیفیت اپنی امی کو بتادی ،جس پر اسے سخت ڈانٹ کے ساتھ ساتھ کالے موٹے فریم کے چشمے کے تحفے کے ساتھ چشماٹو حارث کے لقب بھی مل گیا۔ نظر کا چشمہ لگ جانے کے بعد جب اسے اپنی آنکھوں، لکھنے پڑھنے اور سر کے درد کی طرف سے اطمینان ہوا تو وہ اپنی پرانی روش پہ دوبارہ سے چل پڑا۔

حارث کو موبائل اور کمپیوٹر کے علاوہ کرکٹ کا بھی جنون کی حد تک شوق تھا۔ وہ اپنے محلے کی ٹیم کا بہترین کھلاڑی تھا۔ اتوار والے دن ان کی ٹیم اور محلے کی ہی دوسری ٹیم نے آپس میں مقابلے کا پروگرام بنایا ، جس کے لیے وہ سب کھلاڑی بہت جوش سے تیاری میں مگن تھے کہ میچ سے ایک دن پہلے پریکٹس کرتے اچانک حارث کا چشمہ گر کر ٹوٹ گیا۔ زمین پہ گرے ٹوٹے چشمے کو دیکھ کر اسے صدمہ تو بہت ہوا لیکن چونکہ اب کچھ نہیں ہوسکتا تھا سو بغیر چشمے کے تھوڑی دیر اور پریکٹس کرنے کے بعد وہ گھر آگیا۔ 

دوسرے دن میچ کے وقت سے تھوڑا پہلے جب وہ بغیر چشمے کے میدان کی طرف جانے کے لیے گھر سے نکلا تو گھر سے نکلتے ہی اسے اپنے سامنے اور اردگرد کی دنیا اوپر نیچے ہوتی نظر آئی۔ اس کی کمزور بینائی بغیر چشمے کے دھوپ اور تیز روشنیوں کا سامنا نہیں کرسکتی۔ پھر بھی وہ اپنی آنکھوں کو دھوپ سے بچاتا گراونڈ پہنچ گیا لیکن جب اس کی نظر سامنے گراو نڈ پر پڑی تو اس کے چودہ طبق روشن ہوگئے کیونکہ سورج کی شعاعوں نے پورے گراو نڈ کو اپنی لپیٹ میں لے کر رکھا تھا۔ 

اپنی ممکنہ ناکامی اور اپنے بیچ میں گھومتی دنیا کو محسوس کرکے اب حارث کو صحیح معنوں میں احساس ہورہا تھا کہ ضرورت سے زیادہ موبائل اور کمپیوٹر کے استعمال سے اس کی بینائی کمزور ہوگئی ۔ اس نے اپنی بےوقوفی کے ہاتھوں خود اپنا نقصان کر لیا لیکن اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔