صاحب زادہ سید محمد فرحان نظامی
سلطان المشائخ محبوب الہٰی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کی ولادت شہر بدایوں میں 27 صفر 636 ہجری میں ہوئی۔ آپ کا اسم مبارک حضور نبی کریم ﷺکے اسم مبارک کی مناسبت سے " محمد " رکھا گیا ،مگر دنیا میں آپ نے اپنے القابات سے شہرت پائی۔حضرت نظام الدین اولیاء محبوبِ الٰہیؒ کے القابات :-نظام الدین اولیاء۔محبوبِ الٰہی۔ سلطان المشائخ ۔سلطان الاولیاء۔تاج المقربین ۔بدرالملت والدین۔ملکِ الفقراء والمساکین ۔سلطان العارفین۔سلطان جی محبوبِ الٰہی وغیرہ ہیں۔
آپ ؒ نجیب الطرفین سادات میں سے ہیں۔ سلسلہ نسب پندرہ واسطوں سے حضرت علی ؓاور خاتون جنت حضرت بی بی فاطمۃ الزہرہؓ سے جا ملتا ہے۔حضرت نظام الدین اولیاء ؒ کے دادا سید علی بخاری اور ان کے چچا زاد بھائی حضرت سید عرب ۔آپ کے نانا دونوں بزرگ اپنے اپنے اہل وعیال کے ہمراہ بخارا سے ہجرت کر کے بدایوں میں آباد ہوئے تھے۔ آپ کے نانا سید عرب کی صاحبزادی سیدہ زلیخا آپ کی والدہ ماجدہ جو زہد و تقویٰ میں کمال درجہ رکھتی تھیں۔ عبادت گزار اور شب بیدار تھیں۔ اپنے وقت کی ولیہ کاملہ تھیں۔ انہیں اپنے وقت کی "رابعہ بصری" کہا جاتا تھا۔
آپ کے دادا سید علی بخاری ؒاور آپ کے ناناسید عرب بخاری ؒ دونوں بزرگ اللہ کے برگزیدہ بندے تھے۔ دونوں بزرگوں نے باہمی مشورے سے اپنے خاندانی رشتے کو مضبوط کرتے ہوئے سید احمد علی کی شادی حضرت سیدہ زلیخا سے کردی۔ابھی حضرت نظام الدین اولیاء محبوبِ الٰہی ؒ بمشکل پانچ برس کے ہوئے کہ والد کا انتقال ہوگیا، لیکن آپ کی نیک دل، پاک سیرت اور بلند ہمت والدہ حضرت بی بی زلیخا نے سوت کات کات کر اپنے یتیم بچے کی عمدہ پرورش کی۔حضرت نظام الدین اولیاء کی مادر گرامی بی بی زلیخا ایک امیر و کبیر بزرگ خواجہ عرب ؒ کی صاحبزادی تھیں، لیکن آپ نے اپنے والد کی دولت کے ذخائر کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔
انتہا یہ ہے کہ بیوگی کا لباس پہننے کے بعد اس دروازے کے جانب نگاہ نہ کی، جہاں آپ کا پورا بچپن اور جوانی کے ابتدائی چند سال گزرے تھے۔ آپ دن رات سوت کاتتیں اور پھر اسے ملازمہ کے ہاتھ بازار میں فروخت کرادیتیں۔اس طرح جو کچھ رقم حاصل ہوتی اس سے گزر اوقات کرتیں۔ یہ آمدنی اتنی قلیل ہوتی کہ معمولی غذا کے سوا کچھ ہاتھ نہ آتا۔ تنگ دستی کا یہ حال تھا کہ شدید محنت کے باوجود ہفتے میں ایک فاقہ ضرور ہوجاتا۔
جس دن فاقہ ہوتا اور نظام الدین اولیاء ؒ مادر گرامی سے کھانا مانگتے تو بی بی زلیخا ؒ بڑے خوشگوار انداز میں فرماتیں بابا نظام! آج ہم سب اللہ کے مہمان ہیں ، بی بی زلیخاؒ کا بیان ہے کہ میں جس روز "سید محمد" سے یہ کہتی کہ آج ہم لوگ اللہ کے مہمان ہیں تو وہ بہت خوش ہوتے۔ سارا دن فاقے کی حالت میں گزر جاتا مگر وہ ایک بار بھی کھانے کی کوی چیز طلب نہ کرتے اور اس طرح مطمئن رہتے کہ اللہ کی مہمانی کا سن کر انہیں دنیا کی ہر نعمت میسر آگئی ہو۔ پھر جب دوسرے روز کھانے کا انتظام ہوجاتا تو نظام الدین اولیاء اپنی محترم والدہ کے حضور عرض کرتے، مادر گرامی اب ہم کس روز اللہ کے مہمان بنیں گے؟ والدہ محترمہ جواب دیتیں، بابا نظام! یہ تو اللہ کی مرضی پر منحصر ہے۔ وہ کسی کا محتاج نہیں۔
دنیا کی ہر شے اس کی دست نگر ہے۔ وہ جب بھی چاہے گا تمہیں اپنا مہمان بنا لے گا۔ آپ مادر گرامی کی زبان سے یہ وضاحت سن کر چند لمحوں کے لیے خاموش ہوجاتے اور پھر نہایت سرشاری کے عالم میں یہ دعا مانگتے :اے اللہ! تو اپنے بندوں کو روزانہ اپنا مہمان بنا۔اللہ کی مہمانی کا واضح مطلب یہی تھا کہ اس روز فاقہ کشی کی حالت سے دو چار ہونا پڑے گا۔
پانچ سال کی عمر میں یہ دعا یہ خواہش اور یہ آرزو! اہلِ دنیا کو یہ بات بڑی عجیب معلوم ہوگی ،مگر وہ جنہیں اس کائنات کا حقیقی شعور بخشا گیا اور جن کے دل و دماغ کو کشادہ کردیا گیا۔ وہ اس راز سے باخبر ہیں کیا ایسا کیوں ہوتا تھااور حضرت نظام الدین اولیاءؒ انتہائی کم سنی کے عالم میں اللہ کےمہمان بننے کی آرزو کیوں کیا کرتے تھے۔
آپ پر اللہ کا فضل و کرم تھا، اس لیے آپ نے بہت جلد قرآن حفظ کرلیا ۔اس کے بعد آپ نے مولانا علاءالدین اصولی ؒ کے درس میں شرکت فرمائی۔آپ کے استاد محترم نے آپ کے ذوق کو دیکھتے ہوئے آپ پر خصوصی توجہ دی۔ابتدائی دینی تعلیم کے بعد فقی حنفی کی مشہور کتاب "قدوری" ختم کی۔
حضرت بی بی زلیخا ؒ اپنے فرزند کی یہ بات سن کر بڑی خوش ہوئیں۔ پھر حضرت نظام الدین اولیاءؒ کی زندگی کا وہ یادگار دن بھی آیا جب آپ نے فقہ حنفی کی اس عظیم کتاب کو ختم کرلیا۔اس کے بعد حضرت بی بی زلیخا ؒنے کھانا تیار کرایا اور بدایوں کے جلیل القدر علما کو دعوت دی۔ جب بدایوں کے ممتاز جلیل القدر علما جمع ہو چکے تو مولانا علاءالدین اصولی ؒنے اپنے شاگرد کے سر پر دستارِ فضیلت باندھی۔ حاضرین نے اس مجلسِ روحانی میں بڑا جاں فزا منظر دیکھا زبانِ حال کا عالم مستقبل کے عالم کو اپنے علم کی امانت منتقل کر رہا تھا۔
دستار بندی کے بعد مولانا علاءالدین اصولی ؒنے حضرت خواجہ علی علیہ الرحمہ سے دعا کی درخواست کی۔ حضرت خواجہ علی ؒنے ایک نظر نظام الدین اولیاء ؒ کو دیکھا اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے۔ حضرت خواجہ علی علیہ الرحمہ کی دعاؤں کا سلسلہ ختم ہوا اور دستار بندی کی رسم ادا ہو چکی تو حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ اپنی نشست سے اٹھے۔ سب سے پہلے آپ نے حضرت خواجہ علی علیہ الرحمہ کی دست بوسی کی کہ اس وقت بدایوں میں وہی ولایت کے اعلیٰ منصب پر فائز تھے۔
حضرت خواجہ علی علیہ الرحمہ کی دست بوسی کے بعد حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ اپنے استاد گرامی کی طرف بڑھے اور مولانا علاءالدین اصولی علیہ الرحمہ کی دست بوسی سے شرف یاب ہوئے۔ مولانا اصولی علیہ الرحمہ نے بھی اپنے محبوب شاگرد کو اس طرح دعائیں دیں کہ شدت جذبات سے اہل مجلس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ پھر عام رسم دعا ادا کی گئی اور اس طرح تمام علمائے بدایوں کی دعاؤں کے سائے میں حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ کے علم کے نئے سفر کا آغاز ہوا۔
دہلی میں حضرت نظام الدین اولیا ؒء کے قرب میں ہی حضرت بابا فرید الدین گنج شکر ؒکے بھائی حضرت شیخ نجیب الدین متوکل ؒکی رہائش گاہ تھی۔ آپ اکثر حضرت شیخ نجیب الدین متوکل ؒ سے ملاقات فرماتے تھے۔حضرت شیخ نجیب الدین متوکلؒ کی زبانی حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒکی فضیلت و مرتبہ کے بارے میں پتا چلتا رہتا تھا۔
حضرت نظام الدین اولیاءؒ غائبانہ طور پر شیخ شیوخ العالم حضرت بابا فرید الدین گنج شکر ؒ کے معتقد ہو گئے اورآپ کے دل میں یہ خواہش غلبہ پانے لگی کہ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر ؒ سے ملاقات کی جائے۔چنانچہ حضرت نظام الدین اولیا ءاپنے دل کی خواہش سے مغلوب ہو کر پاک پتن شریف روانہ ہو گئے جب حضرت بابا فرید الدین گنج شکر ؒ کی خدمت میں پہنچے تو آپ کو دیکھ کر حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ نے یہ شعر پڑھا:
اے آتش فراغت دل با کباب کردہ
سیلاب اشتیاقت جانھا خراب کردہ
ترجمہ: تیری فرقت کی آگ نے قلوب کو کباب کر دیا اور تیرے شوق کے سیلاب نے جانوں کو برباد کر دیا۔
حضرت نظام الدین اولیاؒءنے حضرت بابا فرید الدین گنج شکر ؒ کے دست مبارک پر بیعت کی اور حضرت بابا فرید الدین گنج شکر ؒکے حلقۂ ارادت میں شامل ہو گئے ۔آپ نے شیخ فرید الدین مسعود ؒ کی بارگاہ سے علمی و روحانی فیض حاصل کیا۔ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر ؒنے آپ کو گاہے بگا ہے ظاہری و باطنی علوم سے نوازا اور خصوصی شفقت فرمائی ۔ مرشد حضرت بابا فرید الدین گنج شکر ؒ کے زیر سایہ حضرت نظام الدین اولیاءؒنے قرآن پاک کے چھ پارے تجوید و قرأت کے ساتھ پڑھے۔
ایک مدت کے بعد شیخ نظام الدین اولیاءؒ خدمت گزاری اور اطاعت شعاری سے مرتبہ کمال کو پہنچے تو بابا فرید الدین گنج شکر ؒ نے آپ کو خلق خدا کی ہدایت و تکمیل کی اجازت دے کر 659 ہجری کو دہلی روانہ فرمایا۔ پیر و مرشد کے حکم پر ہی دہلی آکر محلہ غیاث پورہ میں مستقل سکونت اختیار کی۔ سلوک و معرفت کی تمام منزلیں حاصل کرنے کے باوجود آپ نے تیس سال تک نہایت ہی سخت مجاہدہ کیا۔ آپ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں محبوب اور مقرب تھے۔
اپنی گفتگو میں قرآن و حدیث، سیرت و تاریخ، فقہ و تصوف اور لغت و ادب کے حوالے دیا کرتے تھے۔ آپ اپنے مریدوں کو کثرت سے قرآن مجید کی تلاوت کرنے کی ہدایت فرماتے ۔آپ علوم القرآن پر دسترس رکھتے تھے۔ بعض اوقات کسی آیت مبارکہ کی تفسیر فرماتے اور اپنے سامعین کو قرآنی معارف سے آگاہ فرماتے۔ آپ کی برکات کے اثرات سے ہندوستان لبریز ہے۔ آپ جیسے اسرار طریقت و حقیقت میں اولیا ئےکامل و مکمل تھے ،ویسے ہی علوم فقہ و حدیث و تفسیر و صرف و نحو، منطق، معانی، ادب میں فاضل اجل عالم اکمل تھے۔
حضرت نظام الدین اولیاءؒ کو اللہ تعالیٰ نے بہت مقبولیت دی ۔ عام و خاص سب لوگ آپ کی طرف رجوع کرنے لگے۔ اس کے بعد دست غیب اور فتوحات کے دروازے آپ پر کھولے گئے اور ایک جہاں اللہ تعالیٰ کے احسان و انعام کی مدد سے آپ کے ذریعے فائدہ حاصل کرنے لگا۔ آپ کا اپنا حال یہ تھا کہ تمام اوقات ریاضت اور مجاہدہ میں گزارتے، ہمیشہ روزہ رکھتے اور افطار کے وقت تھوڑا سا پانی پی لیتے ، بوقت سحری عام طور پر کچھ نہ کھاتے۔ فیض باطنی کا یہ حال تھا کہ جو شخص صدق اعتقاد سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا نظر کیمیا اثر کی تاثیر سے فیض باطنی سے ولی کامل ہو جاتا۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو کمال جذب و فیض عطا فرمایا۔ اہلِ دہلی کو آپ کی بزرگی کا علم ہوا تو آپ کی زیارت اور فیض و برکت کے حصول کی خاطر گروہ در گروہ آنے لگے اور ان کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہونے لگا ۔وقت کے بادشاہ اور امرا بھی آپ سے عقیدت کا اظہار کرتے لیکن آپ ان کی طرف التفات نہ فرماتے۔حضرت نظام الدین اولیا ؒنے اپنی پوری زندگی طلب علم، عبادت و ریاضت، مجاہدہ اور لوگوں کی تربیت و اصلاح میں گزار دی، آپ نہایت متقی ، ایثار کرنے والے، دل جوئی کرنے والے، عفوو و درگزر سے کام لینے والے، حلیم و بردبار، حسن سلوک کے پیکر اور تارک دنیا تھے۔
وصال سے قبل 18 ربیع الثانی 725ھ کو بعد نماز ظہر حضرت محبوب الٰہیؒ نے " شیخ سید نصیر الدین روشن چراغ دہلوی ؒ کو طلب کیا اور خرقہ، عصا، مصلا، تسبیح کاسہ، چوبیں وغیرہ تبرکات جو حضرت شیخ فرید الدین مسعود گنج شکرؒ سے پہنچے تھے۔ انہیں عنایت فرمائے اور دہلی میں رہ کر رشدو ہدایت کرنے اور اہلیانِ دہلی کو فیض پہنچانے کی تلقین کی اور انہیں اپنا نائب اور جانشین مقرر کیا۔آپ کی تصانیف میں راحت القلوب، ملفوظات حضرت فریدالدین مسعود گنج شکرؒ،افضل الفوائد: مرتبہ: حضرت خواجہ امیر خسرو ؒ۔فوائد الفواد: مرتبہ : حضرت امیر حسن علا سجزی، سیر الاولیاء شامل ہیں۔
بہ عمر 94 برس 18 ربیع الثانی بروز بدھ 725ھ کو آفتاب غروب ہونے سے قبل ہی علم و عرفان، رشد و ہدایت اور شریعت و طریقت کا یہ نیر تاباں اپنی جلوہ سامانی بکھیر کر دہلی میں غروب ہوگیا۔ آپ کا مزار پُر انوار دہلی میں لاکھوں دلوں کو چین اور آنکھوں کو ٹھنڈک بخش رہا ہے۔