نیکسٹ جنریشن سیکو ینسنگ (این جی ایس ) ، جسے اور ناموں سے بھی بلایا جاتا ہے جیسا کہ ہائی تھروپٹ سیکوینسنگ ، ایک انقلابی ٹیکنالوجی ہے، جس نے جینیات یا جینو مکس اور سالمیاتی حیاتیات کے شعبے کو تبدیل کر دیا ہے۔ اس سے مراد ڈی این اے یا آر این اے مالیکیولز کا ایک مجموعہ ہے جو روایتی سیکو ینسنگ کے طریقے کے مقابلے میں تیزی سے اور بہت بڑے پیمانے پر ڈی این اے یا آر این اے مالیکیو لز کی ترتیب کا تعین کرنے کے لیے استعمال کی جانے والی تیکنیکوں اور ٹیکنالوجیز کا ایک مجموعہ ہے جو روایتی سیکو ینسنگ کے طریقے کے مقابلے میں تیزی سے اور بہت بڑے پیمانے پر ڈی این اے یا آر این اے کی سیکو ینسنگ کر سکتی ہے۔
این جی ایس نے محققین اور سائنس دانوں کو پورے جینوم یعنی تمام تر جین یا جینیاتی مواد جو کہ کسی بھی ایک جاندار میں موجود ہوتا ہے اور ٹرانسکرپٹو یعنی تمام ترایم آر این اے جو کسی بھی ایک جاندار میں ایک وقت میں موجود ہو اور اس کے علاوہ دیگر نیو کلک ایسڈ ز کو کم لاگت اور موثر انداز میں تمام تر سیکوینسنگ کر دینے کے قابل بنایا ہے۔ اس کی وجہ سے مختلف سائنسی شعبوں میں نمایاں پیش رفت ہو ئی ہے جن میں جینیات ، شخصی طب، ارتقائی حیاتیات اور بہت کچھ شامل ہے ۔
کسی بھی جاندار کے خلیے میں موجود مرکز اپنے اندر ڈی این اے رکھتا ہے جو کہ اس جاندار کے ہر ظاہری خدو خال اور اس کے اندر ہونے والے تمام تر کیمیائی عوامل کی مکمل معلومات رکھتا ہے ۔ ڈی این اے مر کز کے اندر ایک الجھی ہوئی دھاگے کی گیند کی طرح سے بھرا ہوا ہوتا ہے اور اس پورے دھاگے میں سے مخصوص حصے جن کو ’’جین ‘‘کہا جاتا ہے اپنی معلومات آر این اے بنا کر مر کزے سے باہر خلیے میں موجود پانی جس کو ’’سائیٹو پلازم‘‘ کہا جاتا ہے، اس میں بھیج دیتے ہیں جہاں آر این اے سے پروٹین بنایا جاتا ہے اور پھر یہ پروٹین جاندار کے اندر تمام تر عملیات کے ہونے یا نہ ہونے کا سبب بنتا ہے ۔ ڈی این اے اور آر این اے کو نیو کلک ایسڈز بھی کہا جاتا ہے، کیوںکہ ان دونوں سالموں کی ساخت تیزابی کیمیائی بناوٹ رکھتی ہے ۔ چناں چہ اگر ہم ان نیو کلک ایسڈز کی ترتیب جان لیں تو ہمیں وہ معلومات مل سکتی ہے جو کہ کسی بھی جاندار کے اندر بنائے جانے والے تمام تر پروٹین اور غیر پروٹین سالموں کے بارے میں موجود ہوتی ہے۔
1980ء کی دھائی میں پی سی آر یعنی پولیمریز چین ری ایکشن تیکنیک سامنے آئی، جس میں کسی جاندار میں موجود کسی بھی جین کی لاکھوں سے اربوں کاپیاں تیار کی جاسکتی ہیں ، جس جین کی کاپی بنانی ہوتی ہے ،اس کا ایک چھوٹا سا حصہ جسے پرائمر کہتے ہیں کو استعمال کرتے ہوئے پوری جین کو کاپی کر لیا جاتا ہے۔ اس طرح ایک سے دو اور دو سے چار کرتے ہوئے لاکھوں کروڑوں کاپیاں تیار ہو جاتی ہیں۔
پی سی آر اسی طرح ایک یا ایک سے زائد جین کی اربوں کاپیاں بنا سکتا ہے، مگر تمام تر جین یا پورے کے پورے ڈی این اے کی کاپی نہیں بنا سکتا۔ بعدازاںیہاں پرآتی ہے این جی ایس تیکنیک جو کہ مکمل کیمیائی عمل اپناتے ہوئے پورے کے پورے جینوم یا پورے ڈی این اے کو کاپی کر سکتی ہے اور پھر کمپیوٹر پروگرام کے استعمال سے پورے ڈی این اے کی ترتیب پتہ چل سکتی ہے۔
این جی ایس تیکنیک جو کہ 1993ء سے 1995ءکے درمیان اُبھر کر سامنے آئی اور2005 ءمیں کمرشل طور پر دستیاب ہوئی بہت ساری کلیدی خصوصیات کی حامل ہے ،جس سے بڑی مقدار میں جینیاتی معلومات کا تیزی سے تجزیہ کیا جا سکتا ہے ۔ یہ تیکنیک محقیقین کو نسبتاً مختصر مدت میں بہت زیادہ ڈیٹا تیار کرنے کی اجازت دیتی ہے، اس پر آنے والی لاگت بھی فی نیکلو ٹا ئیڈ بہت کم ہے، جس سے بڑے پیمانے پر ڈی این اے سیکو ینسنگ کے منصوبوں کو مختلف بجٹ والے محققین کے لیے زیادہ قابل رسائی بنایا ہے۔
اس تیکنیک کے ذریعے صرف مکمل جینوم کو سیکوینس نہیں کیا جا سکتا بلکہ خاص ایگزوم (پروٹین کو ڈنگ والے ڈی این اے کے سارے سیکوینس )اور جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا کہ آر این اے سیکوینسنگ بھی ممکن ہے۔ جینیاتی تغیرات، جین کے ظاہر ہونے یا نہ ہونے ایپی جینیٹک تبدیلیوں اور دیگر مالیکیولر خصوصیات کی ایک جامع انداز میں شناخت کو پیش کرتے ہوئے انتہائی گہری معلومات فراہم کرتا ہے۔
اس تیکنیک نے جو بہت بڑا اور حیران کن کام کیا ہے وہ بیماریوں سے منسلک جینیاتی تبدیلیوں کی شناخت کو فعال کرکے طبی تشخیص اور ذاتی ادویات میں انقلاب برپا کردیا ہے، کیوںکہ اسی طرح سے ڈاکٹر ز کوانفرادی مریضوں کے جینیاتی پروفائلز کے مطابق علاج کرنے میں مدد ملی ہے، جس سے ارتقائی عمل کے بارے میں انسانی سمجھ میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ علاوہ ازیں اس تیکنیک کا اطلاق کینسر، پھیلنے والے امراض کی نگرانی ، زراعت، فرانزک ، قدیم ڈی این اے کی جانچ، زچگی کے دوران فیٹل ڈی این اے کا تجربہ ، فارما کو جینو مکس اور دیگر سائنسی شعبہ جات میں کیا جارہا ہے چاہے وہ نئے جاندار کی نسل کا پتہ لگانا ہو یا قدیم زمانے میں بسنے والے جانداروں سے متعلق معلومات کا حصول ہو۔ سب کچھ ممکن ہوتا جارہا ہے۔
زراعت کے شعبے میں بہت سے نئے تجربات کے ذریعے پودے اور فصلیں بہت زیادہ مقدار میں اناج فراہم کررہی ہیں ،اسی طرح پھلوں کے درختوں کے جینوم کی جانچ کر کے ایک ہی وقت میں ایک ہی موسم میں کئی گناہ زیادہ پیداوار ممکن ہے۔ اسی طرح پھل دار درختوں اور فصلوں کو اس قابل بنایا جاسکتا ہے کہ وہ بذات خود کیڑوں اور دیگر بیماریوں سے ایک خود کار نظام کے ذریعے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکیں، کیوںکہ ان کا جینومک مادہ اور اس کا سیکوینس حاصل کر کے یہ معلوم کیا جاچکا ہے کہ کون سی جین ان تمام کاموں کو انجام دے سکتی ہے اور کیسے اس جین کے ذریعے یہ کام کیا جاسکتا ہے ۔ این جی ایس تیکنیک بھی اب انتہائی جدید ہوتی جارہی ہے اور حیاتیاتی سائنس میں آگے بڑھ رہی ہے۔
مثال کے طور پر صرف ایک خلیہ لے کر اس کی جینوم اور آر این اے کا سیکوینس کہ جس کے ذریعے خلیاتی سطح پر جین کا اظہار اور ایک خلیے کا دوسرے خلیے سے تعامل کے بارے میں معلومات کا حاصل کرنا، اس جدید دور میں مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ کے ذریعے سے ڈیٹا کو بنانا، نینولیول پر حقیقی وقت میں سیکوینسنگ کرنے کی صلاحیت، مائع بایوسپی میں ڈی این اے کو نکال کر سیکوینسنگ کرنا یا خون میں موجود بہت چھوٹے ڈی این اے کے مالیکیول کو سیکوینس کرنا ، ماحول سے حاصل شدہ نمونے جیسا کہ مٹی، پانی وغیرہ سے حاصل شدہ ڈی این اے کو ترتیب دے کر نتیجہ اخذ کرنا وغیرہ شامل ہے۔
ان تمام تر جدت کی وجہ سے یہ تیکنیک آنے والے وقتوں میں انتہائی درست اور مزید کم لاگت ہوجائے گی۔ اس کے اثرات جلد پوری دنیا کی آبادی پر محسوس ہونے لگے گی۔ جہاں اس تیکنیک سے حاصل ہونے والے فائدے اپنی جگہ نہایت اہمیت رکھتے ہیں وہیں بعض معاشرتی عوامل پر اثر انداز ہونے کا خدشہ بھی موجود ہے جو کہ مغربی معاشرے میں ظاہر ہونے شروع ہوگئے ہیں۔
مثال کے طور پر اس تیکنیک کے ذریعے سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آل اولاد میں ددھیال یا ننھیال سے یا ماں اور باپ سے ڈی این اے میں سے کون کونسے جین موجود یا غیر موجود ہیں۔ اس طرح بچوں کے ماں باپ کی جانچ ممکن ہے اور صحیح والدین کی نشاندہی کے لیے استعمال ہوسکتی ہے اور مغربی دنیا میں ہو بھی رہی ہے۔ پاکستان میں بھی این جی ایس میں مختلف شعبوں کو نمایاں طور پر متاثر کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ مثال کے طور پر زراعت، انسانی جینیات ، حیاتیاتی اقسام، وبائی امراض ، کوئی نیا جینیاتی تغیر، بیماری کا طریقے کار اور ملک میں جینیاتی تنوع کے بارے میں قیمتی دریافت کا باعث بن سکتا ہے۔
اس کے علاوہ علاج کے لیے یہ تیکنیک ایک انقلابی حیثیت رکھتی ہے جیسا کہ پہلے ذکر کیا جاچکا کہ انفرادی حیثیت میں کسی بھی فرد کا علاج اس کے جینیاتی بناوٹ کے حساب سے کرنا ممکن ہے۔ زراعت کے شعبے میں کپاس، گندم وغیرہ اور پھلوں کی کاشت میں ان پودوں اور درختوں کا جینوم حاصل کر کے حاصل ہونے والی فصل اور پھلوں کی مقدار کئی گناہ بڑھائی جاسکتی ہے ۔ سیم و تھور والے علاقے کو بھی جنیوم سے حاصل ہونے والی معلومات کے ذریعے بیجوں کو جینوم کی سطح پر ترمیم کر کے اس قابل بنایا جاسکتا ہے کہ وہ بآسانی ایک نمکین مٹی میں پروان چڑھ سکیں۔
اسی طرح یہ تیکنیک مختلف جینیاتی امراض جو کہ پاکستان کی آبادی میں موجود ہیں جیسا کہ تھیلیسیمیا وغیرہ ، مختلف قسم کے نایاب جاندار اور دیگر حیاتیات جو پاکستان میں ہی پائی جاتی ہے ،اس کا بچائو ، نشوونما اور تعلیم کے شعبے میں افرادی قوت کو فروغ دینے میں انتہائی اہم ثابت ہوگی۔ پاکستان کے مختلف تعلیم و تدریس سے منسلک اداروں میں این جی ایس مشین موجود ہیں۔ تحقیقی ادارے قومی اور بین الاقوامی سطح پر مل کر کام کررہے ہیں ۔ این جی ایس تیکنیک کا پاکستان میں ایک تحقیقی درجہ بن چکا ہے اور اس سے متعلق کمپیوٹر پروگرامنگ کا بھی آغاز ہوچکا ہے۔
جو ڈیٹا این جی ایس مشین سے ڈی این اے کے متعلق حاصل ہوتا ہے وہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کی جانچ کے لیے پاور فل کمپیوٹر درکار ہوتا ہے، پھر جتنا بڑا ڈی این اے ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ ڈیٹا مشین سے حاصل ہوتا ہے۔ اس ڈیٹا کا تجربہ دراصل زیادہ اہم ہوتا ہے اور اپنے اندر معلومات کا خزانہ رکھتا ہے۔ یہ جانچ ہمیں تمام تر جینوم یا جنیاتی ڈی این کی معلومات سے آگاہ کرتی ہے۔
مصنوعی ذہانت کا کمپیوٹر کے ساتھ الحاق اس تیکنیک سے حاصل شدہ معلومات کے حصول کو بہت آسان اور کم وقت بنا دے گی یہ بھی ممکن ہے کہ وہ پوشیدہ اور نایاب راز جو کہ اس حیاتیاتی مولیکیول یعنی ڈی این اے میں ہے اور ابھی تک کمپیوٹر کے سافٹ وئیر جو کہ این جی ایس سے حاصل شدہ ڈیٹا کو پرکھ رہے ہوتے ہیں، اُس سے اوجھل ہیں وہ اس مصنوعی ذہانت کے پروگرام کی انضمام سے سامنے آجائیں اور ایک نیا رخ ارتقائی اور نسبتی مضمون میں کھل جائے۔ ابھی اس تیکنیک نے بہت آگے جانا ہے اور کمپیوٹر کی طاقت میں اضافہ اس کو چار چاند لگا سکتا ہے۔