• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا اسرارالحق

علم معاشرے میں انسان کی شناخت اور تشخص کی بہتری کاہی سبب نہیں، بلکہ اس سے بڑھ کرعلم کے ذریعے انسان کی فکری تربیت اور ذہنی پرورش ہوتی ہے، جس کے نتائج وہ اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں بھی دیکھتاہے اور اپنے شب و روز کے اعمال و افعال میں بھی۔عام طور پر علم چاہے وہ دینی ہو یا آج کل کی اصطلاح میں عصری اور دنیوی ،اس کے بارے میں عام تصوریہ ہے کہ انسان چند نصابی کتابوں کو پڑھ لے اور پھر عملی دنیامیں مصروف ہو جائے۔

نوجوان اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اچھی ملازمت حاصل کرنے خواہش مند ہوتے ہیں، اس مقصد کے حصول کے لیے بعض اوقات اخلاقیات کی حد بھی پار کرجاتے ہیں۔ خود غرضی، مفاد پرستی اور لالچ کے جال میں پھنستے چلے جاتےہیں۔ حالاں کہ حقیقی تعلیم محض چند مضامین کی تدریس تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ تربیت اس کا ناگزیر حصہ ہے۔ ایسی تعلیم، جو بہترین تربیت کے ساتھ حاصل کی جائے، نہ صرف انسان کے دل کی آنکھیں کھول دیتی ہے، بلکہ انسانی شخصیت میں حقیقی نکھار بھی پیدا کرتی ہے۔ 

طبیعت کے سلجھاؤ،اس کے ارادوں،اس کے اندرمدلل اور مؤثر انداز گفتگو اور اس کے طرزِ فکر میں وسعت و گہرائی اور مثبت تبدیلی پیدا کرتی ہے۔نوجوان کی شخصیت میں سائنٹفک طرزفکر کا ارتقاء انسانی شخصیت کے مجموعی ارتقاء ہی کاایک حصہ ہے،جہاں ایک طرف اس کا گہراتعلق تعلیم وتربیت سے ہے ،وہیں دوسری طرف بہترسماجی ماحول،گھر اور پڑوس،گھریلواور خاندانی روایات،حلقۂ احباب وغیرہ سے بھی ہے جن سے اس کارات دن سابقہ پڑتا ہے۔ یہی چیزیں انسان کی سوچ میں مثبت اور غیر جانبدارانہ انداز پیدا کرتی ہیں۔

نئی نسل کی تعلیم و تربیت پر کس قدر توجہ دی جارہی ہے،ان کے سوچنے سمجھنے کی کس قسم کی صلاحیت پروان چڑھ رہی ہے، اس کا اگر انصاف پسندی کے ساتھ جائزہ لیاجائے تو یہ دیکھ کر افسوس ہی ہوتا ہے، اس کی مثال کچھ ایسی ہے کہ آپ کسی ایسی فرنچ فرائز کی دکان پر کھڑے ہوجائیں، جہاں اٹھارہ سال تک کی عمر کے بچے آتے ہوں اور ارد گرد رکھی کرسیوں پر بیٹھ کر کھاتے ہوں، اور آنے والے بچوں کی زبان ملاحظہ فرمالیں، بالخصوص وہ طلبہ جو آٹھویں سے بارہویں جماعت میں پڑھتے ہیں۔ یہی بچے جب اسکول اور کالج جاتے ہیں تو وہاں بھی اپنے ہم جماعتوں سے بدزبانی اور بدگوئی کرتے ہیں۔

گزشتہ پانچ سالوں میں اس قبیح عادت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ نئی نسل بتدریج تعلیم کے میدان میں آگے آرہی ہے اور نوجوانوں میں تعلیم کا گراف پہلے کے مقابلے میں بڑھ رہاہے، مگر اس تعلیم کا جو نتیجہ خود اس نسل پر اوراس معاشرے اور ملک پرمرتب ہونا چاہئے تھا وہ سامنے نہیں آرہا۔ہمارے نوجوانوں میں عام طور پر سوچنے اور سمجھنے کا وہ ا نداز نہیں پایاجاتا، جسے معقولیت پر مبنی ، مثبت یا سائنٹفک کہاجاسکتا ہو، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بعض دفعہ نہایت اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھی بعض ایسی حرکتیں کر بیٹھتے ہیں جن کی ان سے توقع نہیں کی جاتی۔

آج کے تعلیمی مراکز، خود والدین اور خاندان کے ذمے داران و سرپرستان اپنے بچوں کی تربیت پر ویسی توجہ نہیں دیتے جیسی دینی چاہئے،اس لئے بعض نوجوان بڑی سے بڑی ڈگری حاصل کرلینے اور اعلیٰ سے اعلیٰ سرکاری یا غیر سرکاری منصب پر پہنچ جانے کے باوجود ذہنی اور فکری اعتبار سے نہایت کورے اور نابالغ ہوتے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ پاکستانی نوجوانوں کی کل آبادی غیر منطقی اور غیر سائنٹفک طرزِ فکر کی شکار ہے، بے شمار ایسے نوجوان بھی ہیں جو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ نہایت بہتر دماغی و ذہنی صلاحیتوں سے بھی لیس ہیں، ان کی سوچ میں بے شمار خوبیاں پائی جاتی ہیں اور وہ اپنے اور اپنے ملک و قوم کی بہتری و ترقی کے لئے کچھ نہ کچھ کررہے ہیں، مگر عمومی طورپر ایسا نہیں ہے۔

ان کے اندر سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں ہونے کے باوجود وہ بعض نہایت بودے اور بیہودہ خارجی اثرات قبول کررہے ہیں اوراس کے نتیجے میں سماج اور معاشرے کو ناگفتہ بہ حالات کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔ ان کے طرزفکر میں کسی قسم کی پختگی اور حالات کو صحیح رخ پر سمجھنے کی قوت و صلاحیت نہیں ہے۔ اس کے مجرم یہ نوجوان نہیں، بلکہ وہ تعلیم گاہیں ہیں، جہاں انہوں نے تعلیم حاصل کی، والدین اور وہ لوگ ہیں، جنہوں نے ان کی تربیت اور نشوونما میں حصہ لیا۔

اگر نوجوانوں اور ملک و قوم کی تقدیر کو سنبھالنے والی نئی پیڑھی کی درست ذہنی و فکری تربیت پر دھیان نہیں دیا تو پھر آنے والے دنوں میں موجودہ حالات سے بھی زیادہ برے حالات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ سوچ میں معقولیت اور منطقی طرز فکرکی ضرورت زندگی اور عمل کے ہر شعبے میں ہے اور اس ضرورت کو محسوس کرنا ہوگا جو ہمارے لئے اور ہمارے گرد و پیش کے لئے خیر اور بھلائی کا باعث ہو۔