’’سات اکتوبر کو حماس نے اسرائیل پر حملہ کر کے کیا حاصل کیا ؟ خونی درندے کو چّھڑی سے زخمی کر کے کیا ملا ؟ دو چار میزائل داغ دینے سے جنگیں نہیں جیتی جاتیں۔ طاقت حاصل کیے بغیر جنگی چھیڑ خانی خودکشی کے مترادف ہے ۔ سمجھ نہیں آتی اس مرتبہ حماس کو کیا سوجھی جو بیل کو خود دعوت دے دی کہ آ مجھے مار۔اچھی بھلی دنیا امن کی طرف بڑھ رہی تھی۔ عرب اسرائیل قرابت داری میں روز افزوں اضافہ ہو رہا تھا خطے کے لوگ اور ہمسایہ ممالک جیو اور جینے دو کی پالیسی پر گامزن تھے مگر حماس نے چھیڑ خانی کر کے پھر سے علاقے کو بارود اور شعلوں کی نذر کر دیا ہے۔‘‘ قارئین کرام حالیہ حماس اسرائیل تصادم کے حوالے سے اوپر درج کیے گئے جملے ایک طرز فکر کی نمائندگی کرتے ہیں جس کا اظہار کچھ احباب آجکل نجی محفلوں میں کرتے سنائی دیتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حماس نے 11/9 طرز کا یہ حملہ کسی تیسرے فریق کی ایما پر کیا ہے تاکہ عرب اسرائیل بھائی چارے کو قدرے مؤخر کر کے پہلے غزہ کو ہڑپ کر لیا جائے باقی کام پھر چلتا رہے گا یا پھر کسی ایسے فریق کی کارستانی بھی ہو سکتی ہے جو سعودی عرب اسرائیل بڑھتی ہوئی قربت کی ڈورکاٹ دینا چاہتا ہو۔سوچ کا دوسرا رخ یہ ہے کہ مسجد الاقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اس کی حفاظت کیلئے جہاد فرض ہے۔ہم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں ، اسرائیل معصوم فلسطینیوں کا قتل عام بند کرے، وحشیانہ بمباری ، ہسپتالوں اور مسجدوں کا نشانہ ، اناج پانی بند بجلی بند ، زخمی بے یار و مددگار، مسلم امہ کو اُٹھ جانا چاہیے ،اب بھی نہ اٹھی تو کب اٹھےگی ؟ تیسری عالمی جنگ کی گھنٹی بج چکی ہے اور اب عظیم تباہی انسانیت کے سر پر کھڑی ہے وغیرہ وغیرہ۔
محترم قارئین یہ دونوں طرز ہائے فکر آج کل اہل دانش کا موضوع بحث ہیں۔یوں تو ہر پاکستانی ، ہر مسلمان اسرائیل کو ایک فتنہ سمجھتا ہے اور جلد از جلد اس کا خاتمہ بھی چاہتا ہے مگر محض چاہنے اور خواہش سے ہی کام سرانجام نہیں پاتے اس کیلئے منصوبہ بندی اور جدوجہد کرنا پڑتی ہے ۔ اور مسلم ممالک کی جدوجہد آپ سب جانتے ہی ہیں ۔ سانپ کو پھونکوں سے نہیں مارا جا سکتا۔ خونی درندے کو چھڑی سے ڈرایا نہیں جا سکتا ۔ ظالم کا ہاتھ روکنا پڑتا ہے۔محض بد دعاؤں سے ظالم کی ہلاکت محال ہے۔ عالمی جنگ ہو نہ ہو ۔ اگلے دس، بیس، پچاس سال میں مسئلہ فلسطین کس حال میں ہو؟ خدا معلوم۔ سوال یہ ہے کہ ہم انفرادی طور پر اور امت مجموعی طور پر اپنے’’العصر‘‘ میں کیا اعمال سر انجام دیتی ہے؟ ہمیں صرف اپنے زمانے کا جواب دینا ہے ۔ آئیے قارئین اب اوپر بیان کیے گئے دونوں طرز ہائے استدلال کے عملی اطلاق کو فرض کرکے دیکھتے ہیں کہ کیا نتیجہ نکلتا ہے ؟ ایک یہ ہے کہ تنگ آمد بجنگ آمد ۔روز روز کی مارا ماری سے بہتر ہے کہ ایک ہی ہلے میں مر جائیں یا مار دیں۔ امت مسلمہ ایک ہو کر اسرائیل پر پل پڑے۔ جنگ مشرق وسطی ٰتک محدود رہے یا دیگر اسلامی ممالک بھی سر دھڑ کی بازی لگا کر مسجد الاقصیٰ ، جو مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اور سرزمین فلسطین جو سرزمین انبیاء ہے ، کی آزادی اور حصول کیلئے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیں ۔ یہی ایمان اور وقت کا تقاضا ہے۔ فلسطینیوں کے ساتھ اگر تمام اسلامی ممالک بشمول 40 اسلامی ممالک کی افواج بھی شریک ہو جائے تو دشمن کے چھکے چھڑائے جا سکتے ہیں۔ مقابلتاً اسرائیل کے اتحادی ممالک جن میں یورپ اور امریکہ شامل ہیں وہ بھی میدان میں اتر آئیں گے۔ یقیناً گھمسان کی جنگ ہوگی اور نقصان دونوں اطراف کا ہوگا۔ یاد رہے پہلی اور دوسری عالمی جنگیں گولی بندوق تک محدود تھیں مگر اب بات بہت آگے نکل چکی ہے ۔ دنیا سکڑ کر گلوبل ویلیج بن چکی ہے اور میزائلوں کی مار ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک ہے۔ لہٰذا تیسری عالمی جنگ قیامت سے پہلے قیامت ہو سکتی ہے۔یوں سرزمین فلسطین پر قبضے کا رولا ختم شد۔دوسری ممکن صورتحال یہ ہے کہ عالم اسلام یا چیدہ چیدہ اسلامی ممالک ثالثی کا کردار ادا کریں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فلسطینیوں کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ پچھلے 75 برس سے اپنے ہی علاقے میں دربدر ہو رہے ہیں۔ سرزمین فلسطین پر یہودی آباد کاری بھی برطانوی سامراج کی مکاری کا نتیجہ ہے۔ ہولوکاسٹ کے بعد یہودی توپوں کا رخ نہایت چالاکی سے مسلمانوں کی طرف موڑ دیا گیا ۔ اگرچہ دو کیمپ ڈیوڈ معاہدوں کے نتیجے میں فلسطینی اتھارٹی قائم تو ہوئی مگر اس کی کوئی خاص آزادانہ حیثیت نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی دو ریاستی حل پیش کرتی ہیں جس میں بیت المقدس کو ایک بین الاقوامی شہر کی حیثیت دی گئی ہے وجہ یہ ہے کہ یروشلم یعنی بیت المقدس عیسا ئی، یہودی اور مسلمان ،تینوں مذاہب کیلئے مقدس شہر ہے۔ اور تنازع یہ بھی ہے کہ فلسطین اور اسرائیل دونوں اسے اپنا اپنا دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ فلسطینی نہتے ، غریب اور پسماندہ ہیں جبکہ اسرائیل عالمی فوجی اور اقتصادی طاقت کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔ وہ منظم ، متحد اور بڑی عالمی طاقتوں کا اتحادی بن کر اپنے توسیع پسندانہ مذموم مقاصد میں دیوانہ ہوا جا رہا ہے ۔ فلسطینی خود دو دھڑوں حماس اور الفتح میں منقسم ہیں اور ایک دوسرے کے مخالف پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں ۔ ہمسایہ عرب ممالک کا جو حال اب تک ہو چکا ہے اس سے بھی ہم سب واقف ہیں۔ ان حالات میں فلسطینیوں کو پہلے تو اپنی دھڑے بندیاں ختم کرنا ہونگی پھر ظالم، مکار اور طاقتور دشمن کے ساتھ دانشمندانہ مذاکرات کریں اور صلح حدیبیہ کی طرز پر نیا معاہدہ ۔ یہ مت سوچیں کہ وقتی طور پر کون جیتا کون ہارا ؟ بس اپنے لوگوں کی جان و مال کو بچائیں۔ اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو علاقہ ، خواہ اپنا ہی کیوں نہ ہو، جس میں جان و مال کا تحفظ ممکن نہ رہے اس کو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق چھوڑ دینا ہی افضل عمل ہے۔ ہجرت مدینہ کی طرز پر ہجرت کریں اور اپنے بال بچوں کو محفوظ مقام پر منتقل کریں اور پھر سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی نمونہ بناتے ہوئے قوت و طاقت حاصل کریں اور پھر فتح مکہ کی طرح اپنے علاقے میں فاتح بن کر داخل ہوں۔ آخری جملہ.... جنگل اور دنیا میں زندہ رہنے کا ایک ہی فارمولا ہے.... طاقت طاقت اور بس طاقت۔