اسلام آباد (مہتاب حیدر) بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان پر بڑھتے ہوئے قرضوں کے بوجھ کے بارے میں اندازہ لگایا ہے کہ 30 جون 2024 کو ختم ہونے والے جاری مالی سال کے اختتام تک یہ 820 کھرب روپے کے قریب پہنچ سکتا ہے۔ آئی ایم ایف کے عملے نے یہ بھی اندازہ لگایا کہ کل سرکاری قرضوں اور واجبات کے جمع ہونے کی رفتار برقرار رہے گی جو اگلے مالی سال 2024-25 میں 922.4 کھرب روپے تک جا سکتی ہے۔ پاکستان اور آئی ایم ایف نے 3 ارب ڈالرز اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ (ایس بی اے) پروگرام کے تحت 700 ملین ڈالر کی قسط جاری کرنے کے لیے فنڈ کے ایگزیکٹو بورڈ کے سامنے پیش کرنے کے لیے میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فنانشل پالیسیز پر اتفاق رائے پیدا کرتے ہوئے اسٹاف لیول معاہدہ کیا ہے۔ آئی ایم ایف اور پاکستانی فریق کے درمیان طے پانے والے مالیاتی فریم ورک سے ظاہر ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف سمیت عام حکومت اور حکومت کا ضمانتی قرضہ جون 2024 کے آخر تک 818.36 ارب روپے تک بڑھنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے جو ستمبر 2023 کے آخر میں 779 کھرب روپے رہا۔ گزشتہ مالی سال 2022-23 میں کل سرکاری قرضے اور واجبات 680 کھرب روپے تھے۔ عوامی قرضوں اور واجبات سے متعلق یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ رواں مالی سال میں اس میں 118 کھرب روپے کا اضافہ ہوگا۔ بڑھتے ہوئے مالیاتی خسارے کی وجہ سے کل سرکاری قرضے اور واجبات کئی گنا بڑھ جائیں گے اور فنڈ نے تخمینہ لگایا کہ مالیاتی خسارہ رواں مالی سال کے لئے 82.27 کھرب روپے تک بڑھے گا، جو جی ڈی پی کے 7.8 فیصد کے برابر ہے۔ حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کو کم قرض ادائیگی کے لیے راضی کرنے کی بھرپور کوششوں کے باوجود آئی ایم ایف نے حکومت کے موقف کو قبول نہیں کیا اور رواں مالی سال کے لیے ملکی اور بیرونی قرضوں پر قرض ادائیگی 86.27 کھرب روپے رہنے کا تخمینہ لگایا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ حکومت کو 75 کھرب روپے کی بجٹ فنانسنگ کا انتظام گھریلو راستوں سے کرنا پڑے گا اور صرف10 کھرب روپے ہی غیر ملکی راستوں سے بجٹ سپورٹ کے طور پر دستیاب ہوں گے۔ آئی ایم ایف نے یہ بھی اندازہ لگایا کہ اگلے مالی سال کے لیے قرض ادائیگی 96.21 کھرب روپے تک بڑھ سکتی ہے۔ رواں مالی سال کے لیے سبسڈی کی رقم کو 13.9 کھرب روپے پر برقرار رکھا گیا حالانکہ حکومت نے رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران اب تک صرف ڈھائی ارب روپے جاری کیے ہیں۔