اسلام آباد (انصار عباسی) عمران خان کو سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ سے سرپرائز مل سکتا ہے۔ سائفر کیس میں ہونے والی گزشتہ سماعت کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ ’’میں کیس میں جنرل باجوہ اور امریکی سفارت خانے کے حکام کو بطور گواہ شامل کروں گا۔‘‘
اس معاملے پر سابق آرمی چیف سے بات چیت کرنے والے ایک ذریعے نے بتایا کہ باجوہ شاید عمران خان کو مایوس نہ کریں۔ ذریعے نے دعویٰ کیا کہ ریٹائرڈ جرنیل سائفر کیس میں بطور گواہ پیش ہونے کیلئے تیار ہیں۔ تاہم، انہیں فوجی حکام سے اجازت کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔
عمران خان نے الزام عائد کیا تھا کہ جنرل باجوہ نے سب کچھ ڈونلڈ لوُ کی ہدایت پر کیا۔ عمران خان کے الزامات تمام پراسیکوشن گواہان بشمول سابق سیکریٹری خارجہ امور اور امریکا میں تعینات پاکستانی سفیر کے بیانات سے مطابقت نہیں رکھتے۔
پاکستانی سفیر کی ڈونلڈ لو کے ساتھ ہونے والی بات چیت کے بعد ہی سفیر نے وزارت خارجہ کو سائفر بھیجا اور ایسے معاملات میں یہ کام معمول کا حصہ ہے۔ یہ سائفر اگرچہ جارحانہ معلوم ہوا اور اسی وجہ سے پاکستانی سفیر نے نہ صرف واشنگٹن کو ڈی مارش جاری کرنے کی سفارش کی بلکہ قومی سلامتی کمیٹی نے بھی یہ اقدام دو مرتبہ کیا۔
ان میں سے ایک مرتبہ عمران خان حکومت اور اس کے بعد شہباز شریف حکومت کے دوران ڈی مارش کیا گیا۔ تاہم، دونوں مرتبہ کسی سازش کا پتہ نہیں چلا۔ تاہم، عمران خان کا اصرار ہے کہ یہ حکومت کی تبدیلی کی سازش تھی۔
پہلے تو انہوں نے امریکا پر اپنی حکومت کے خاتمے کا الزام عائد کیا اور بعد میں کہا کہ یہ سازش اصل میں پاکستان سے برآمد کی گئی تھی۔ انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ جنرل باجوہ نے اس کام کیلئے سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کی خدمات حاصل کیں۔
رواں سال کے آغاز میں ایک بیان میں عمران خان کا کہنا تھا، ’’ہمیں اس پیشرفت کا علم ہوا تھا کہ حقانی کو میرے خلاف مہم چلانے کا کام دیا گیا۔ سی آئی اے کا ایک کارندہ حقانی کی ٹیم کا حصہ تھا، اور عہدے پر موجود پاکستانی وزیراعظم کیخلاف لابنگ کی گئی۔‘‘
عمران خان کے نقطہ نظر کے برخلاف، سائفر کیس میں استغاثہ کے بڑے گواہوں کے بیانات تین نکات کی بنیاد پر عمران خان کے جرم کی سنگینی میں اضافہ کرتے ہیں: اول) اپنے سیاسی فائدے کیلئے خفیہ مواصلات کا استعمال؛ دوم) امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو نقصان پہنچانا، سوم) دستاویز کو گم کر دینا یا واپس نہ کرنا۔
ایف آئی اے کی جانب سے گواہان سے قلم بند کیے گئے بیانات کی روشنی میں عمران خان کا یہ موقف یکسر مسترد ہوجاتا ہے کہ یہ ان کی حکومت کو تبدیل کرنے کی سازش تھی۔ بیانات سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے سائفر کے متن کو اپنے سیاسی فائدے کیلئے من پسند انداز سے استعمال کیا اور اپنی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کوناکام بنانے کی کوشش کی۔
سابق وزیر اعظم کے اس وقت کے سیکرٹری اعظم خان نے اپنے بیان میں کہا کہ عمران خان نے سائفر کا مواد پڑھ کر اسے امریکی اہلکار کی غلطی قرار دیا اور زور دیا کہ اسے اپوزیشن جماعتوں اور ریاستی ادارے کیخلاف بیانیہ پیدا کرنے کیلئے موثر انداز سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اعظم خان کے مطابق، سابق وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کرنے کیخلاف سائفر ٹیلی گرام کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔اعظم خان نے کہا کہ عمران خان نے ایک سیاسی بیانیہ بنانے کی بات کی کہ اپوزیشن جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی ملی بھگت اور امریکا کے ساتھ مل کر ان کی حکومت گرانے کی سازش کر رہے ہیں۔
اعظم خان نے کہا کہ وزیر اعظم نے ان سے سائفر کی ایک کاپی حاصل کی اور پھر واپس نہ کی۔ جب انہوں نے عمران خان سے اس کا پوچھا تو انہیں جواب ملا کہ وہ ان سے کھو گیا ہے، وہ اسے ڈھونڈیں گے۔ اعظم خان نے کہا کہ انہوں نے وزیر اعظم کو بتایا کہ سائفر ایک ڈی کوڈ شدہ خفیہ دستاویز ہے اور اس کے مواد کو عوام میں افشاء یا زیر بحث نہیں لایا جا سکتا۔
اس وقت کے سیکریٹری خارجہ سہیل محمود نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو ذاتی اور سیاسی فائدے کیلئے جلسہ عام میں سائفر کا حوالہ دیتا دیکھ حیران رہ گئے، دونوں نے یہ تک نہ سوچا کہ ان کے اس اقدام سے ملک کے پورے سائفر سیکورٹی نظام کو کس حد تک نقصان پہنچا ہے۔
امریکا میں پاکستان کے سفیر اسد مجید خان نے اپنے بیان میں ڈونلڈ لو سے اپنی ملاقات اور اس کے بعد اسلام آباد میں وزارت خارجہ کو بھیجے گئے رابطے کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے صرف اس بات کی اطلاع دی کہ ان کے اور ڈونلڈ لو کے درمیان کیا بات ہوئی ہے اور اسلام آباد کو بھیجی گئی ان کی بات چیت میں لفظ ’’خطرہ‘‘ یا ’’سازش‘‘ کا کوئی ذکر نہیں تھا۔
اسد مجید نے کہا کہ انہوں نے تجویز دی ہے کہ اسلام آباد اور واشنگٹن دونوں میں امریکا کو ڈی مارش جاری کیا جائے۔ انہوں نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاسوں کا بھی حوالہ دیا، جس میں سائفر کیس پر تبادلہ خیال کیا گیا، اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کیلئے کوئی غیر ملکی سازش نہیں ہوئی۔