لندن (پی اے) لاک ڈائون کے دوران گھروں سے کام کے دوران لوگوں نے سگریٹ نوشی ترک کرنا چھوڑ دی۔ یونیورسٹی کالج لندن کے ماہرین کے فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق کورونا کی وبا کے دوران ترک نوشی کی شرح منجمد ہو گئی تھی اور پہلے سے زیادہ تعداد میں نوجوانوں نے تمباکو نوشی شروع کر دی تھی۔ ڈیٹا کے مطابق کورونا سے قبل ترک سگریٹ نوشی کی شرح 5.2 فی صد لیکن اس میں 0.3 فی صد سالانہ شرح سے کم ہوتی گئی۔ ریسرچرز کا کہنا ہے کہ کم وسیلہ لوگوں نے وبا کے دوران سگریٹ نوشی ترک کرنے کی فوری ضرورت کو محسوس کیا لیکن متمول اور منیجریل عہدوں پر کام کرنے والوں نے کام کے دبائو کے سبب سگریٹ نوشی بڑھا دی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کورونا کی وبا کے دوران کم وسیلہ کا کم تنخواہ والے لوگوں نے زیادہ مالی دبائو محسوس کیا جس کی وجہ سے سگریٹ نوشی جاری رکھنا ان کیلئے مشکل ہوگیا تھا۔ وبا کے دوران معمول کے مطابق کام کرنے والے زیادہ متاثر نہیں ہوئے اور انہوں نے گھروں سے کام شروع کر دیا جس کی وجہ سے وہ تنہائی محسوس کرنے لگے اور ان کی ذہنی صحت بھی متاثر ہوئی اس کی وجہ سے انہوں نے سگریٹ نوشی ترک کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اسٹدی میں حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ ترک سگریٹ نوشی کی مہم دوبارہ شدت کے ساتھ چلائے تاکہ معاشرے کا متعمول طبقہ بھی سگریٹ نوشی ترک کرنے کی جانب مائل ہوسکے۔ یونیورسٹی کالج لندن کی سارہ جیکسن کا کہنا ہے کہ انگلینڈ کے نوجوانوں میں سگریٹ نوشی میں اضافے کی شرح گزشتہ 20سال کے مقابلے میں سب سے زیادہ رہی۔ ریسرچرز کے مطابق جون 2017 میں انگلینڈ میں تمباکو نوشوں کی شرح 16.2 فی صد تھی اور وبا شروع ہونے سے قبل یہ شرح کم ہو کر 15.1 فی صد رہ گئی تھی اور اگست 2022 تک اس میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ پروفیسر جیمی برائون کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے 2008 کے بعد پیدا ہونے والوں کو سگریٹ فروخت کرنے کو جرم قرار دینے کی تجویز پر عمل سے 2030 تک ہم سگریٹ نوشی ختم کرنے کے قریب تر پہنچ جائیں گے۔