سپریم کورٹ آف پاکستان نے سائفر کیس میں بانیٔ پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت منظور کر لی۔
عدالتِ عظمیٰ نے بانیٔ پی ٹی آئی اور شاہ محمود کی 10-10 لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کی ہے۔
اس سے قبل سماعت کے دوران قائم مقام چیف جسٹس پاکستان سردار طارق مسعود نے ریمارکس میں کہا ہے کہ وزیرِ خارجہ نے بانیٔ پی ٹی آئی کو پھنسا دیا، شاہ محمود خود بچ گئے اور بانیٔ پی ٹی آئی کو کہا کہ سائفر پڑھ دو۔
قائم مقام چیف جسٹس پاکستان سردار طارق مسعود کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔
جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللّٰہ بینچ کا حصہ ہیں۔
بانیٔ پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سائفر کیس میں وزارتِ داخلہ کے سیکریٹری شکایت کنندہ ہیں، لاہور ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں طلبی پر 7 ماہ حکمِ امتناع دیے رکھا، 7 ماہ ایف آئی اے خاموش رہا، توشہ خانہ کیس میں ضمانت ہوتے ہی گرفتار کر لیا، بانیٔ پی ٹی آئی کو اسلام آباد میں گرفتار کرنے کی 40 مرتبہ کوشش کی گئی، ملک بھر کے دیگر مقدمات اسلام آباد کے 40 کیسز سے الگ ہیں۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ آڈیو لیک کے بعد وفاقی حکومت کی ہدایت پر ایف آئی اے نے انکوائری شروع کی تھی۔
بانیٔ پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الزام لگایا گیا کہ 28 مارچ 2022ء کو بنی گالہ میں ہوئے اجلاس میں سائفر کے غلط استعمال کی سازش ہوئی، سابق وزیرِ اعظم پر سائفر کی کاپی تحویل میں لے کر واپس نہ کرنے کا بھی الزام ہے، ایک الزام پورے سائفر سسٹم کی سیکیورٹی رسک پر ڈالنے کا بھی ہے، اسد عمر اور اعظم خان کے کردار کا تعین تفتیش میں ہونا تھا، ایف آئی آر میں 4 ملزمان نامزد ہیں لیکن ٹرائل صرف 2 کا ہو رہا ہے، اعظم خان پر میٹنگ منٹس اور اس کے مندرجات توڑ مروڑ کر تحریر کرنے کا الزام ہے، ایف آئی اے کے مطابق تحقیقات کے بعد مقدمہ درج کیا گیا ہے، ایف آئی آر میں کردار کے تعین کے باوجود اعظم خان کو گرفتار کیا گیا نہ اسد عمر کو، اعظم خان ملزم کے بجائے سائفر کیس کے مقدمے کے اندراج کے اگلے دن گواہ بن گئے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ ایف آئی اے کو کیسے معلوم ہوا کہ بنی گالہ میں میٹنگ ہوئی تھی؟
بانیٔ پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے جواب دیا کہ یہ ایف آئی اے ہی بتا سکتی ہے کیونکہ اب تک پراسیکیوشن نے ذرائع نہیں بتائے، سائفر وزارتِ خارجہ سے آیا، پراسیکیوشن کے مطابق سیکیورٹی سسٹم رسک پر ڈالا گیا، وزارتِ خارجہ نے سائفر سے متعلق کوئی شکایت نہیں کی، سابق وزیرِ اعظم کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، رانا ثناء اللّٰہ نے بطور وزیرِ داخلہ ایف آئی اے کو تحقیقات کرنے کا کہا، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا دائرہ وسیع کر کے سابق وزیرِاعظم پر لاگو کیا گیا، آفیشل سیکریٹ ایکٹ افواجِ پاکستان سےمتعلق ہے جو ملکی دفاع سے جڑا ہے، ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سائفر کا مقدمہ بنا ہے، سائفر کے خفیہ کوڈز کبھی سابق وزیرِ اعظم کے پاس تھے ہی نہیں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ وزارتِ خارجہ سائفرکا حکومت کو بتاتی ہے تاکہ خارجہ پالیسی میں مدد مل سکے۔
جسٹس منصور نے کہا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا مقصد ہی یہی ہے کہ حساس معلومات باہر کسی کو نہ جا سکیں، ڈپلومیٹک معلومات بھی حساس ہوتی ہیں لیکن ان کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔
وکیل نے کہا کہ امریکا میں پاکستانی سفیر اسد مجید نے سائفر حساس ترین دستاویز کے طور پر بھیجا تھا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اس بات پر تو آپ متفق ہیں کہ حساس معلومات شیئر نہیں ہو سکتیں۔
بانیٔ پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ دیکھنا یہی ہے کہ حساس معلومات شیئر ہوئی بھی ہیں یا نہیں، سابق وزیرِ اعظم کے خلاف سزائے موت یا عمر قید کی دفعات عائد ہی نہیں ہوتیں۔
قائم مقام چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سائفر کسی سے شیئر نہیں کیا لیکن اسے آن ایئر تو کیا ہی گیا ہے۔
بانیٔ پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ وزارتِ خارجہ سے سائفر اعظم خان کو بطور پرنسپل سیکریٹری موصول ہوا تھا، جس میٹنگ میں سائفر سازش کی منصوبہ بندی کا الزام ہے وہ 28 مارچ 2022ء کو ہوئی، چالان کے مطابق جس جلسے میں سائفر لہرانے کا الزام ہے وہ 27 مارچ 2022ء کو ہوا تھا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ اصل سائفر تو وزارتِ خارجہ میں ہے، وہ باہر گیا ہے تو یہ دفترِ خارجہ کا جرم ہے، سائفر کو عوام میں زیرِ بحث نہیں لایا جا سکتا۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ شاہ محمود قریشی نے تقریر میں کہا کہ وزیرِ اعظم کو سازش کا بتا دیا ہے، حلف کا پابند ہوں، اس بیان کے بعد شاہ محمود قریشی 125 دن سے جیل میں ہیں۔
اس کے ساتھ ہی بانیٔ پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے پریڈ گراؤنڈ میں ہوئے 27 مارچ 2022ء کے جلسے میں شاہ محمود قریشی کی تقریر پڑھ دی اور کہا کہ شاہ محمود نے تقریر میں کہا کہ بہت سے راز ہیں لیکن حلف کی وجہ سے سامنے نہیں رکھ سکتا۔
قائم مقام چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ وزیرِ خارجہ خود سمجھدار تھے، سمجھتے تھے کہ کیا بولنا ہے کیا نہیں، وزیرِ خارجہ نے کہا کہ بتا نہیں سکتا اور بانیٔ پی ٹی آئی کو پھنسا دیا، وزیرِ خارجہ نے بانیٔ پی ٹی آئی کو پھنسا دیا کہ آپ جانیں اور وہ جانیں، شاہ محمود خود بچ گئے اور بانیٔ پی ٹی آئی کو کہا کہ سائفر پڑھ دو۔
بانیٔ پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ بانیٔ پی ٹی آئی نے بھی پبلک سے کچھ شیئر نہیں کیا تھا، اگر سائفر پبلک ہو ہی چکا ہے تو پھر سائفر ٹرائل اِن کیمرا کیوں چاہیے پراسیکیوشن کو؟
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ کس بنیاد پر پراسیکیوشن سمجھتی ہے کہ ملزمان کو زیرِ حراست رکھنا ضروری ہے؟
بانیٔ پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ سابق وزیرِ اعظم نے جلسے میں کہا تھا کہ میرے پاس یہ خط سازش کا ثبوت ہے، جلسے میں کہیں نہیں کہا کہ سائفر میں کیا ہے اور کہاں سے آیا ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ سابق وزیرِ اعظم کو جیل میں رکھنے سے معاشرے کو کیا خطرہ ہو گا؟
قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود نے ہدایت کی کہ اعظم خان کا بیان پڑھ دیں۔
بانیٔ پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ دفعہ 164 کا بیان ملزم کا اعترافی بیان ہوتا ہے، اعظم خان کے اہلِ خانہ نے ان کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا، اعظم خان 2 ماہ لاپتہ رہے، یہ اغواء برائے بیان کا واقعہ ہے۔
قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ اغواء برائے تاوان تو سنا تھا، اغواء برائے بیان کیا ہوتا ہے؟
بانیٔ پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے جواب دیا کہ میرے لیے سب سے آسان الفاظ اغواء برائے بیان کے ہی تھے۔
قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ اغواء برائے بیان بھی اصطلاح ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے استفسار کیا کہ کیا تفتیشی افسر نے اعظم خان کی گمشدگی پر تحقیقات کیں؟
بانیٔ پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ اعظم خان کا بیان دباؤ کا نتیجہ ہے، تفتیشی افسر نے کوئی تحقیقات نہیں کیں، اعظم خان نے واپس آتے ہی سابق وزیرِ اعظم کے خلاف بیان دے دیا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ حساس معاملہ ہے اور ہم کوئی آبزرویشنز دینا نہیں چاہتے۔
قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ بہتر ہو گا کہ سیاسی دلائل نہ دیں، آپ کو معلوم ہی ہے کہ سیاسی دلائل پر کیسے فیصلے آیا کرتے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت میں مختصر وقفہ کر دیا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں سائفر کیس کی وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو بانیٔ پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدرنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سابق وزیرِ اعظم کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، سابق وزیرِ اعظم کی 40 مقدمات میں ضمانت قبل از گرفتاری منظور ہو چکی ہے، کسی بھی سیاسی لیڈر کے خلاف ایک شہر میں 40 مقدمات درج نہیں ہوئے، جس انداز میں مقدمات درج کیے جا رہے ہیں اسے رکنا چاہیے، سابق وزیرِ اعظم ریاستی دشمن نہیں بلکہ سیاسی دشمن ہیں، سابق وزیرِ اعظم نے خط کے مندرجات کسی سے شیئر نہیں کیے، یا تو امریکی سفیر کو بلا کر کیا گیا احتجاج غلط ہے یا پھر سائفر کا مقدمہ غلط ہے، شہباز شریف نے بھی سابق وزیرِ اعظم کی زیرِ صدارت قومی سلامتی کونسل کے نکات کی توثیق کی۔
اس کے ساتھ ہی بانیٔ پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر کے دلائل مکمل ہو گئے۔
شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری نے دلائل دیتےہوئے کہا کہ شاہ محمود قریشی پر نہ سائفر رکھنے کا الزام ہے، نہ ہی کسی سے شیئر کرنے کا، شاہ محمود پر واحد الزام تقریر کا ہے جس کا جائزہ عدالت پہلے ہی لے چکی ہے، شاہ محمود قریشی 10 دن ریمانڈ پر رہے، ان سے کوئی برآمدگی نہیں ہوئی ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے استفسار کیا کہ کیا شاہ محمود قریشی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں؟
وکیل علی بخاری نے جواب دیاکہ شاہ محمود قریشی آج کاغذات جمع کرائیں گے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ انتخابات میں حصہ لینا ہی ضمانت کے لیے اچھی بنیاد ہے۔
اس کے ساتھ ہی پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے دلائل کا آغاز کر دیا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ سائفر کی ایک ہی اصل کاپی تھی جو دفترِ خارجہ میں تھی، سائفر دفترِ خارجہ کے پاس ہے تو باہر کیا نکلا ہے؟
پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے جواب دیا کہ حساس دستاویزات کو ہینڈل کرنے کے لیے رولز موجود ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ رولز کی کتاب کہاں ہے؟
پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے جواب دیا کہ رولز خفیہ ہیں اس لیے عدالت کی لائبریری میں نہیں ہوں گے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ رولز کیسے خفیہ ہو سکتے ہیں؟
پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے جواب دیا کہ یہ ہدایت نامہ ہے جو صرف سرکار کے پاس ہوتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ جس انداز میں سائفر ٹرائل ہو رہا ہے پراسیکیوشن خود رولزکی خلاف ورزی کر رہا ہے، ڈی کوڈ ہونے کے بعد بننے والا پیغام سائفر نہیں ہو سکتا۔
قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق نے سوال کیا کہ سائفر کا مطلب کیا ہے؟
جسٹس اطہرمن اللّٰہ نے جواب دیا کہ سائفر کا مطلب ہی کوڈڈ دستاویز ہے، ڈی کوڈ ہونے کے بعد وہ سائفر نہیں رہتا۔
قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق نے استفسارکیا کہ سائفر جب ڈی کوڈ ہو گیا تو سائفر نہیں رہا؟
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ سائفر سے متعلق قانون دکھائیں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے استفسارکیا کہ کیا سیکریٹری خارجہ نے وزیرِ اعظم کو بتایا تھا کہ یہ دستاویز پبلک نہیں کرنی؟
پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے کہا کہ سیکریٹری خارجہ نے میٹنگ میں یہ بات کہی تھی۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ سیکریٹری خارجہ نے تحریری طور پر کیوں آگاہ نہیں کیا؟
دورانِ سماعت قائم مقام چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے حکام کو طلب کر لیا۔
الیکشن کمیشن کے حکام کو پی ٹی آئی کی درخواست کی سماعت سے متعلق طلب کیا گیا۔
قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود نے اٹارنی جنرل کو پی ٹی آئی کی درخواست دیکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ درخواست دیکھ لیں اور الیکشن کمیشن کو بلا لیں، سائفر گم گیا تھا تو قومی سلامتی کے 2 اجلاسوں میں شہباز شریف نے کیوں نہیں بتایا؟
پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے کہا کہ سائفر کی ماسٹر کاپی تھی جو بانیٔ پی ٹی آئی نے گم کر دی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا تفتیشی افسر نے حساس دستاویزات پر مبنی ہدایت نامہ پڑھا ہے؟ تفتیشی رپورٹ میں کیا لکھا ہے کہ سائفر کب تک واپس کرنا لازمی ہے؟ نہ پراسیکیوٹر کو سمجھ آ رہی ہے، نہ تفتیشی افسر کو تو انکوائری میں کیا سامنے آیا؟
قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق نے استفسار کیا کہ کیا گواہان کے بیانات حلف پر ہیں؟
تفتیشی افسر نے بتایا کہ گواہی حلف پر ہوتی ہے۔
قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق نےکہا کہ ریکارڈ کے مطابق گواہ اعظم خان کا بیان حلف پر نہیں ہے، کیا اعظم خان کی گمشدگی کی تحقیقات کی ہیں؟
تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ اعظم خان نے واپس آنے کے ایک ماہ بعد بیان دیا۔
قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود نے استفسار کیا کہ ایک ماہ اعظم خان خاموش کیوں رہے؟ کیا اعظم خان شمالی علاقہ جات گئے تھے؟
پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے بتایا کہ اعظم خان کے مطابق پی ٹی آئی کا ان پر دباؤ تھا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ عباسی صاحب ایسی بات نہ کریں جو ریکارڈ پر نہ ہو۔
قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ شہباز شریف نے کس دستاویز پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس کیا تھا؟
پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے بتایا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں سائفر پیش ہوا تھا۔
قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود نے سوال کیا کہ کیا اصل سائفر پیش ہوا تھا؟ یہ کیسے ممکن ہے؟
پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے جواب دیا کہ ڈی کوڈ کرنے کے بعد والی کاپی قومی سلامتی کمیٹی میں پیش ہوئی تھی۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ سائفر کیس میں سزائے موت کی دفعات بظاہر مفروضے پر مبنی ہیں، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا بنیادی مقصد ملکی سیکیورٹی کا تحفظ ہے، سائفر ڈسکلوز بھی ہوا تو کسی غیر ملکی قوت کو کیسے فائدہ پہنچا؟
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ جو دستاویزات آپ دکھا رہے ہیں ان کے مطابق تو غیر ملکی طاقت کا نقصان ہوا ہے، انتخابات 8 فروری کو ہیں، جو جیل میں ہے وہ ایک بڑی جماعت کی نمائندگی کرتا ہے، کیا حکومت 1970ء اور 1977ء والے حالات چاہتی ہے؟ نگراں حکومت نے آپ کو ضمانت کی مخالفت کرنے کی ہدایت کی ہے؟ ہر دور میں سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے؟
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ سابق وزیرِ اعظم کے جیل سے باہر آنے سے کیا نقصان ہوگا؟ اس وقت سوال عام انتخابات کا ہے، اس وقت بانیٔ پی ٹی آئی نہیں عوام کے حقوق کا معاملہ ہے، عدالت بنیادی حقوق کی محافظ ہے، سابق وزیرِ اعظم پر جرم ثابت نہیں ہوا، وہ معصوم ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ پاک امریکا تعلقات خراب ہونے سے کسی اور ملک کا فائدہ ہوا، اس کی تفتیش کیسے ہوئی؟ تعلقات خراب کرنے کا تو ایف آئی آر میں ذکر ہی نہیں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ کیا وزرائے اعظم کو وقت سے پہلے باہر نکالنے سے ملک کی جگ ہنسائی نہیں ہوتی؟ کیا وزرائے اعظم کو وقت سے پہلے ہٹانے پر بھی آفیشل سیکرٹ ایکٹ لگے گا؟
پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے کہا کہ سائفر سے بھارت سمیت دنیا میں جگ ہنسائی ہوئی، عدالت آرٹیکل 184/3 کے تحت فوجداری کے مقدمے کو نہیں دیکھ سکتی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سپریم کورٹ ضابطۂ فوجداری کی بنیاد پر بنیادی حقوق نہ دیکھ سکے؟
وکیل شاہ خاور نے کہا کہ عدالت کا اختیار ہے کہ بنیادی حقوق دیکھے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اسد مجید کے بیان میں کہیں نہیں لکھا کہ کسی دوسرے ملک کو فائدہ پہنچا ہے، عدالت سائفر پبلک کرنے کو درست قرار نہیں دے رہی لیکن بات قانون کی ہے، سزائے موت کی دفعات عائد کرنے کی بنیاد کیا ہے وہ واضح کریں؟ ابھی تک کسی گواہ کے بیان سے ثابت نہیں ہو رہا کہ کسی غیر ملکی طاقت کو فائدہ ہوا ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ ایک طرف آپ کہتے ہیں کہ مقدمہ اِن کیمرا چلے گا لیکن گواہان کے بیان پڑھنا شروع ہو گئے ہیں۔
پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے کہا کہ بھارت میں سائفر لہرانے پر بہت واویلا ہوا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ کل بلوچ فیملیز کے ساتھ جو ہوا اس پر کیا کچھ واویلا نہیں ہوا ہو گا؟
پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے کہا کہ دو طرفہ تعلقات متاثر ہونے سے دشمن کو فائدہ ہو گا۔