ہم دنیا کے سامنے اعتماد ،اعتبار اور اختیار کے ساتھ سرا ٹھا کر اس وقت ہی کھڑے ہو سکتے ہیں جب ذہنی، جسمانی، سماجی اور روحانی طور پر صحت مند ہوں گے، جس طرح روٹی کپڑا اور مکان انسان کی بنیادی ضروریات ہیں اسی طرح تعلیم اور صحت انسان کا بنیادی حق ہے۔ وطن عزیز میں صحت عامہ کبھی بھی ارباب ِ اختیار کی پہلی ترجیح نہیں رہی۔
ریاست تو ماں جیسی ہوتی ہے مگر آج یہ ماں غربت جہالت اور بیماری کے مثلث میں قید نظر آتی ہے۔ سال 2023ء پر نظر ڈالیں تو صحت کے حوالے سے اعدادوشمار انتہائی پریشان کن ہیں۔ پاکستان ادارہ شماریات کے مطابق 2023ء کی مردم شماری کے تحت پاکستان کی آبادی سالانہ 55.2فی صد اضافے کے ساتھ 24 کروڑ14لاکھ 90ہزار ہو گئی ہے۔ غیر مستحکم مخلوط حکومت کے بجٹ 2023-2022 میں صحت کے لئے صرف 24 ارب روپے رکھے گئے۔
بات بچوں کی صحت کے حوالے سے شروع کریں تو اکتوبر 2023ء میں یونیسیف کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر ایک ہزار بچوں میں 65بچے 5سال سے کم عمر میں ہی فوت ہو جاتے ہیں۔ یہ تعداد دنیا میں 5سال سے قبل مرنے والے بچوں کی اوسط شرح 26 اموات فی ہزار بچہ سے دوگنا سے بھی زیادہ ہے۔ پاکستان میں نوزائیدہ بچوں کی اموات کی شرح ایک ہزار میں 53بچہ ہے بچوں کی اموات کا زیادہ تر سبب غذائی قلت آلودہ پانی، صفائی کی کمی اور آلودگی ہے۔
گزشتہ تین ماہ میں صرف تھرپارکر میں غذائی قلت اور اس سے متعلق بیماریوں کی وجہ سے 673بچے فوت ہو ئے۔ ہزار میں سے 74بچے دست اور اسہال کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار گئے۔ آلودہ پانی کی وجہ سے بچے اور بڑے ٹائیفائیڈ، ڈائریا، پیٹ کے کیڑوں اور ہیپاٹائٹس کا شکار ہو گئے۔ فضائی آلودگی کی وجہ سے بچوں میں سانس کے امراض اور نمونیہ بہت زیادہ ہوا۔ نمونیہ سے موت کا شکار ہونے والوں میں 80000بچے شامل ہیں۔ جب کہ نمونیہ سے بچائو کی ویکسین EPIپروگرام میں شامل ہیں۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ EPIپروگرام کے تحت بچوں کو لگائے جانے والے حفاظتی ٹیکوں کے ذریعے جو 5مہلک امراض بظاہر ختم ہو گئے تھے، ان میں بعض بیماریاں دوبارہ سراٹھارہی ہیں۔ جن میں خسرہ، خناق اور تشنج شامل ہیں۔
2023ء میں 6ماہ سے لیکر 66سال تک کی عمر کے 328افراد خناق سے متاثر ہوئے ، ساتھ ہی خسرہ پھیلنے سےبچّوں کی اموات ہوئی۔ کاش والدین اپنے بچوں سے پیار کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے حفاظتی ٹیکوں کے معاملے میں بھی دلچسپی لیں۔ کیسی بات ہے کہ بیماریوں کے خلاف مزاحمت کے بجائے حفاظتی ٹیکوں کے معاملے میں مزاحمتی رویہ اختیار کرتے ہیں۔ یونیسیف کے مطابق پاکستان میں تقریباً46 لاکھ بچے اب بھی سیلاب کے پانی کے قریب زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو ئے۔علاج معالجے تک رسائی کے سلسلے میں ہم دنیا کے 195ممالک میں 154ویں درجے پر ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں علاج معالجے کی سہولتیں غیر تسلی بخش اور ناکافی ہیں۔
پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ، ہیومن ریسورس ڈیوپلمنٹ دہی صحت کے مراکز، بنیادی صحت کے مراکز، پاپولیشن کنٹرول ڈپارٹمنٹ کے باوجود نہ تو صحت کا نظام بہتر ہو سکا اور نہ ہی بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کیا جا سکا۔ شاید اس میں حکومت کے اداروں سے زیادہ عوام کے غیر سنجیدہ رویے کا زیادہ حصہ ہے۔
ہم اب تک پولیو کو شکست نہیں دے سکے۔ جب کہ اس مرض کا دنیا بھر میں خاتمہ ہو چکا ہے،مگر پاکستان اب بھی ان تین ممالک میں شامل ہے، جہاں پولیو ختم نہیں ہوا۔ یہ مرض آلودہ پانی یا خوراک کے ذریعے جسم میں داخل ہوتا ہے۔ اس سے بچائو کا واحد ذریعہ پولیو کے قطرے اور صفائی ستھرائی ہے۔ جون 2023ء میں سندھ میں پولیو کے کئی کیس رپورٹ ہوئے۔8نومبر کو ڈھائی سال بعد ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے، ساتھ ہی پشاور کے ماحولیاتی نمونے میں ایک بارپھر پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔
نگران وفاقی وزیرکا کہنا ہے کہ پولیو کے 90فیصد کیسز افغانستان سے آئے ہیں۔ سوچنے کا مقام تو یہ بھی ہے کہ ہم کون ہیں جو زندگی بانٹنے کیلئے آنے والے فرشتوں پر حملہ آور ہوتے ہیں ان سے بدسلوکی بھی کرتے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ بنوں میں پولیو مہم کے دوران ایک اہلکار شہید ہو گیا۔ مقام شرم ہے کہ ٹانک میں انسداد پولیو مانیٹرنگ ٹیم کے لیڈی ورکر سمیت چار ارکان کو اغواء کر لیاگیا۔ اور بہت ہی غیرت کا مقام ہے کہ کیماڑی کے علاقے میں ڈیوٹی کے دوران خاتون پولیو ورکر قطرے پلانے پہنچی تو ملزم نے اسے زبردستی گھرکے اندر پکڑ لیا اور دست درازی کی۔
محکمہ صحت سندھ کے مطابق 2023ء میں نیگلیریا نے 12 افراد کی جان لے لی ہے۔بلوچستان میں کانگو وائرس سے سنگین صورتحال اختیار کرلی ہے۔ صوبے بھر میں 15افراد فوت ہو گئے، صرف کوئٹہ میں 60 افراد متاثر ہوئے جن میں سے 15کا تعلق شعبۂ صحت سے تھا جن میں10 ڈاکٹرز تھے ان میں سے ڈاکٹرشاکر اللہ فوت ہو گئے۔
پاکستان اس وقت پاگل کتے کے کاٹنے سے ہونے والی بیماری ریبیز میں دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے ملک بھر میں سگ گزیدگی کے واقعات میں خطرناک اضافہ ہو گیا ہے یومیہ درجنوں بچے اور بڑے کتوں کے کاٹنے سے زخمی ہو جاتے ہیں۔
سرکاری اسپتالوں میں کتے کے کاٹنے کی ویکسین کی قلت ہی رہتی ہے اور متعلقہ اداروں کی لاپرواہی کے باعث واقعات میں اضافہ ہو رہاہے۔آوارہ کتوں کی شکایت کی ہیلپ لائن بھی غیرفعال ہے حیدرآباد میں بلدیہ اور غیر سرکاری تنظیم نے کتوں کو بانجھ بنانے کیلئے منصوبہ بنایا تھا، مگر تاحال یہ مہم شروع نہیں ہو سکی۔ ہم اپنے شہریوں کو تو کتوں کےکاٹنے سے مروا سکتے ہیں۔ مگر کتوں کو نہیں مروا سکتے کیونکہ جانوروں کے حقوق کی تنظیمیں متحرک ہو جاتی ہیں۔
سال 2023ء میں ملک میں تھیلیسیمیا کا مرض بھی شدت اختیار کیا ہے۔ یہ موروثی مرض ہے عدم آگہی کی وجہ سے اس کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سے بچائو کا واحد حل آگہی اور شادی سے پہلے خون کا ٹیسٹ ہے۔ جس کے لئے ہمارے لوگ راضی ہی نہیں۔
پاکستان میں ایڈزکےمریضوں کی مجموعی تعداد 2لاکھ بیس ہزار ہے۔2023ء میں ایڈز کے 25 ہزار نئے کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ سب سے زیادہ تشویشناک صورتحال لاڑکانہ، رتو ڈیرو کی ہے۔ پنجاب میں چنیوٹ، جھنگ اور ننکانہ صاحب میں مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ بلوچستان میں کوئٹہ سے 6اضلاع کو ایڈز کے حوالے سے ہائی رسک قرار دیا گیا ہے جبکہ کے پی کے میں 7 ہزار سے زیادہ ایڈزکے مریض ہیں۔ شعورِو آگہی ضبط نفس اور علاج سے ہی اس مرض پر قابو پایا جا سکتاہے۔ مجموعی طور پر ملک میں ذیابیطس، بلند فشار خون اور ہیپاٹائٹس کے مرض میں اضافہ ہوا ہے۔
اس وقت ملک میں ہیپاٹائٹس کی شرح 5 فیصد ہے۔ دو کروڑ افراد ہیپاٹائٹس کا شکار ہیں۔ ہر سال ڈیڑھ لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ پاکستان میں Hepatitis-C کے مریضوں کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ یعنی 98 لاکھ ہے۔ پاکستان گزشتہ سالوں سے موسمیاتی اور ماحولیاتی تغیرات سے گزر رہا ہے۔ جس کی وجہ سے بارشوں، سیلابوں اور خشک سال کی صورت میں فضائی، زمینی اور آبی آلودگی انسانی صحت کو تباہ کر رہی ہیں۔
اسی وجہ سے جگر، معدہ ،سانس اور پھیپھڑوں کے امراض میں 24 فی صد اضافہ ہو گیا ہے۔ ملک کے بڑے شہر لاہور اور کراچی ایئرکوالٹی انڈیکس کے مطابق دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں پہلے یا دوسرے نمبر پر آرہے ہیں۔ گزرتے سال پنجاب میں اسموگ کی وجہ سے شاہراہیں بند کی گئیں۔ اسکول اور دفاتر بند کئے گئے۔ لیکن کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ اسکول اور ٹریفک بند کرنے کی بجائے فصلوں کی باقیات جلانے دھواں پھیلانے والی فیکٹریوں اور گاڑیوں کو بند کیا جاتا۔ درخت کاٹنے کو جرم قرار دیا جائے تو شاید تدارک ممکن ہوتا۔
2023ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ڈھائی کروڑ افراد سگریٹ نوشی کرتے ہیں ملک میں ہر سال 3 لاکھ افراد تمباکو نوشی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ 80لاکھ افراد منشیات کی لعنت میں مبتلا ہیں۔ نوجوان طبقہ سگریٹ نوشی اور منشیات کی طرف تیزی سے راغب ہو رہا ہے۔ منشیات فروشوں کا ٹارگٹ، تعلیمی ادارے اور طلبہ رہے ہیں، چرس، بھنگ، افیون اور ہیروئن تو پرانی اور غریبوں کی منشیات ہو چکی ہیں اب تو آئس، کرسٹل اور کوکین کا زمانہ ہے جو با آسانی دستیاب ہیں۔ منشیات کی سپلائی کیلئے سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ بائیک رائیڈرز کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ پنجاب میں ڈرون کے ذریعے منشیات سپلائی کرنے والے گروہ کو گرفتار کیا گیا ہے۔ نئی ٹیکنالوجی کا کیا خوب استعمال ہے۔
اعداد وشمار کے مطابق سال 2023ء میں پاکستان میں 3کروڑ سے زائد افراد نفسیاتی امراض میں مبتلا جس میں ڈپریشن پہلے نمبر پر ہے کل آبادی کا 35فیصد ڈپریشن اور انگزائٹی کا مریض بن گیا ہے ہر چار میں سے ایک شخص کو کسی نا کسی طرح نفسیاتی مدد کی ضرورت ہے۔
WHO کی رپورٹ کے مطابق پاکستان خودکشی کے اعتبار سے دنیا میں سولہویں نمبر پر ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق بڑھتی ہوئی معاشی ناآسودگی اور سماجی مشکلات نے صورتحال کی سنگینی کو بڑھا دیا ہے۔ عام بنیادی مسائل پر قابو پانے میں حکومت کی ناکامی نے لوگوں کو مایوسی اور ڈپریشن میں مبتلا کردیا ہے۔ خودکشی کرنے والوں میں عام لوگوں کے ساتھ سیاستدان، کھلاڑی، نوجوان طالب علم حتیٰ کہ بچے بھی شامل ہیں۔
جنوری2023ء سے اکتوبر تک صوبہ سندھ میں 3لاکھ 500کیسز رپورٹ ہوئے۔ جبکہ ستمبر اکتوبر کے درمیان 40 روز میں 44ہزار سےزائد ملیریا کے نئے کیس رپورٹ ہوئے محکمہ صحت کی نااہلی کی وجہ اس برس ڈینگی اور ملیریا مچھر ماراسپرے نہیں کروایا گیا۔ ادھر عمر کوٹ میں دماغی ملیریا تیزی سے پھیل رہا ہے پنجاب کے 36 اضلاع میں ڈینگی کے 6 ہزار 814 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ عالمی بینک کے مطابق ریاست پاکستان اپنے ہر شہری کی صحت کے لئے سالانہ صرف 37 ڈالرکے برابر خرچ کرتی ہے۔
صنفی عدم مساوات کی وجہ سے صحت کی سہولیات تک رسائی کا حق بہت کم خواتین کو حاصل ہوا۔خواتین کی اکثریت خون کی کمی کے ساتھ غذا کی کمی کا بھی شکار ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ایشیائی ممالک میں پاکستان میں زچگی کے دوران ہلاکت کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ یہاں میٹرنل مورٹیلٹی ریشوMMR 186ہے۔MMRبلوچستان میں بہت زیادہ ہے۔ایک لاکھ میں 298مائیں زچگی کے دوران فوت ہو جاتی ہیں۔
دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں چھاتی کے سرطان کی شرح سب سے زیادہ ہے جن میں مرد اور عورتیں شامل ہیں۔ قریباً245 عورتیں ہر روز چھاتی کے کیسز کا شکار ہو رہی ہیں۔83 ہزار کیس سالانہ رپورٹ ہورہے ہیں۔ چھاتی کا کیسز پاکستانی خواتین میں موت کی دوسری بڑی وجہ بن گیا ہے۔ اس وقت پاکستان میں ہر نویں عورت کو بریسٹ کینسر کا خدشہ ہے۔
حکومتی سطح پر بھرپور آگہی مہم کے ساتھ ساتھ ’’پنک ربن‘‘ پاکستان بھی خواتین کو آگہی دینے میں پیش پیش ہے۔ اس وقت ملک میں مردوں میں سب سے زیادہ پایا جانے والا منہ کا سرطان ہے اور وجوہات کے ساتھ پان چھالیہ اور گٹکا اس کی بڑی وجہ ہیں جنہیں نہ تو ہم نشہ سمجھتے ہیں اور نہ ہی مضر صحت جبکہ یہ انتہائی خطرناک اور ہر گلی کوچے میں دستیاب بھی ہیں۔
صحت کے مسائل کے ساتھ ساتھ نہ صرف آلودہ پانی اور کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ کا تناسب روزبروز بڑھ رہا ہے جو مزید بیماریوں کا سبب ہیں، مگر شاید ہم نے ملاوٹ کو ذہنی طور پر تسلیم کرلیا ہے دوسری جانب ملک بھر جعلی ادویات کا کاروبار بہت پھیل گیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے غیر معیاری ادویہ سازی کے ضمن میں جن 13ممالک پر سرخ لکیر لگائی ہے، ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔
جعلی ادویہ کی ہولناکی کا واقعہ 26ستمبر 2023ء کو پیش آیا جس میں پنجاب کے مختلف شہروں میں آنکھوں میں غیر معیاری انجکشن لگنے سے 70افراد کی بینائی جزوی یا مکمل طور پر چلی گئی۔ کون لے گا ذمہ داری۔ ادھر KPK کے لیڈی ریڈنگ اسپتال میں غیرمعیاری انجکشن لگنے سے کئی اموات ہو ئیں ہیں۔ یہ تو بڑے کیسز ہیں جو میڈیا میں آگئے ورنہ نجانے کتنے ہی لوگ جعلی ادویہ کی وجہ سےزندگی بچانے کے بجائے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔مہنگائی کی وجہ سے ملک میں جان بچانے والی ادویات نایا ب ہو گئیں ۔ شوگر، بلڈ پریشر اور امراض قلب کی کئی دوائیں ڈالر کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے مارکیٹ سے غائب جب کہ بلیک میں مہنگے داموں ملیں۔
سرکاری اور تعلقہ اسپتالوں میں دوائیاں ناپید تھیں۔مریض مفت ادویات اور لیبارٹری ٹسٹوں کی سہولت سے محروم رہے ہیں۔ وہ سرنج، پٹی اور دوائیں خود خرید کر لانے پر مجبور تھے۔ حیدر آبادمیں آنکھوں کے اسپتال میں مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے تھیڑ بند ہو گئے۔ جہاں ہر ماہ قریباً800 سے 900 آپریشن مفت کئے جارہے تھے۔ ان مسائل سے ہٹ کر ایک خبر یہ کہ KPKکی حکومت نے کوروناوائرس کی وباء کے دنوں میں دورانِ ڈیوٹی جاں بحق ہو جانے والے طبی عملے کے 31افراد کو جن میں ڈاکٹرز، پیرامیڈیک اور نرسز شامل ہیں کیلئے قومی اعزاز کی سفارش کی ہے۔
یہ بہت اچھی بات ہے صرف KPKہی نہیں پورے ملک میں جہاں بھی ڈاکٹرز یا طبی عملے نے انسانی جان بچاتے ہوئے اپنی جان نثار کر دی سب کے لئے اعزاز ہونا چاہئے۔ اعزاز تو ملک کی رفعت زرتاج کیلئے بھی ہونا چاہئے کہ جس نے اپنے اعضاء عطیہ کر دیئے،وہ خود اس دنیا میں موجود نہیں مگر ان کی وجہ سے تین انسانوں کی زندگی کے بجھتے چراغ روشن ہو گئے ہیں۔ متوفیہ رفعت زرتاج کا جگر عمرخیام کو اور گردے احسن جمیل اور میجر رخسانہ کو نئی زندگی دے چکے ہیں۔ ان ڈاکٹرز کو بھی جنہوں نے بروقت کامیاب آپریشن کئے۔
سکھر ہی میں NICHکے تحت 200بستروں پر مشتمل چلڈرن اسپتال کا افتتاح جب کہ اپریل 2023ء میں گمبٹ میں پھیپھڑوں کی پیوند کاری کے یونٹ کاافتتاح ہوا جو پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا یونٹ ہے۔ کراچی میں سندھ انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانس اینڈ واسکوپی اینڈگیسٹرو انٹرولوجی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جہاں نظام ہاضمہ، معدہ، جگر اور لبلبہ کی بیماریوں کا بہترین علاج نئی مشینوں کے ذریعے ممکن ہو گیا ہے۔جدید ترین آلات سے لاکھوں روپے لاگت کے پیچیدہ علاج بالکل مفت کئے جارہے ہیں۔
JPMCمیں سائبر نائف اور ٹوموتھراپی یونٹ سے پورے پاکستان اور بیرون ملک سے آنے والے مریضوں کا علاج کیا جارہا ہے۔
NICVDاب کراچی لاڑکانہ اور حیدرآباد کے علاوہ ٹنڈو محمد خان، سیہون، مٹھی اور خیرپور میں دل کے امراض کا علاج جدید خطوط پر کر رہا ہے۔
سندھ بھر میں چیسٹ پین کے 24یونٹ قائم کئے گئے ہیں جو بہترین سروس دے رہے ہیں۔
جون 2023ء میں سندھ میں اور نومبر میں بلوچستان میں ہیلتھ کارڈ منصوبے کا اعلان کیا گیا۔ بلوچستان میں 10لاکھ تک کا علاج مفت کیا جانے لگا جبکہ سندھ میں 35 سے 40 ہزار تنخواہ والے افراد کیلئے صحت کارڈ کا اجراء کیاگیا۔ ایک اچھی خبر یہ بھی سننے میں آئی کہ نگران وزیر صحت مسجدوں میں شفاخانہ قائم کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ امید ہے کہ جلد عملدرآمد بھی ہو گا۔
سندھ میں حاملہ خواتین اور بچوں کی بہبود کیلئے 50 ارب روپے مالیت کے پروگرام کا آغاز ہوا۔ جس کی بنیادی معاونت عالمی بینک نے کی ہے۔
15اضلاع میں 750اسپتال پروگرام میں شامل کئے گئے ہیں۔ اس پروگرام کا مقصد 40فیصد حاملہ خواتین کو گھر کے بجائے اسپتال میں زچگی کروانے کی ترغیب دینا اور ان کی صحت بہتر بنانا ہے۔ یہ منصوبہ مدد اینڈ چائلڈ ویلفیئر پروگرام ہے۔ اس پروگرام کے تحت 13 لاکھ حاملہ خواتین کو 33ماہ کے دوران 30 ہزار روپے اقساط میں ادا کئے جائیں گے تاکہ وہ گھرکے بجائے اسپتال میں زچگی کوترجیح دیں۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ 2024ء میں ایک صحت مند پاکستان کے خواب کی تعبیر حاصل کرلیں تو ہمیں اپنا حصہ بھی ڈالنا ہو گا۔ بیماریوں سے بچائو کیلئے آگہی حاصل کرنا ہو گی اور دوسروں تک پہنچانا بھی ہو گی۔ ٭۔صاف پانی اور ملاوٹ سے پاک کھانے پینے کی اشیاء کیلئے کوشش کرنا ہو گی۔٭۔ بچوں کو حفاظتی ٹیکوں کا کورس کروانا ہو گا۔٭۔ اپنے مزاج میں تحمل لاکھ کر اشتعال کو ختم کرنا ہو گا۔٭۔ تمباکو ،مین پوری، گٹکا اور دوسری نشہ آور اشیاء سے اجتناب برتنا ہوگا۔٭۔ فیملی پلاننگ پر عمل درآمد بہت ضروری ہے تاکہ آبادی اور عورتوں اور بچوں کی اموات میں کمی لائی جاسکے۔٭۔ واک اور ورزش کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا ہو گا۔٭۔ فضائی آلودگی ختم کرنے کے لئے ہر فرد کو ایک درخت لگانا ہو گا۔ اسی طرح ایک صحت مند معاشرہ تشکیل پاسکتا ہے۔ صحت مند معاشرہ ہی مضبوط پاکستان کی بنیاد ہے۔ ایسا پاکستان جہاں ہر پاکستانی اعتماد، اعتبار اور اختیار کے ساتھ سر اٹھا کر کھڑا ہو۔
سب کچھ برا نہیں ہے۔ ملک میں آج بھی کئی ادارے آج بھی مریضوں کو بہترین سہولیات اور مفت علاج مہیا کررہے ہیں جن میں SIUT،انڈس اسپتال، LRBT،JPMCاور سندھ گمبٹ (GMS)اور پنجاب میں کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ ان اسپتال میں کاکلیئر امپلانٹ، روبوٹک سرجری بون میروٹرانسپلانٹ اور سائبر نائف کے ذریعے جگر، گرد، آنکھوں کے ساتھ کینسر کا جدید علاج مفت کیاجا رہاہے۔
گوادر میں پاک چین دوستی اسپتال کا افتتاح نگران وزیراعظم نے کیا، اس کے ساتھ ہی سمندری پانی کو قابل استعمال بنانے کے پلانٹ کا بھی افتتاح کیا گیا ہے جس سے شہریوں کو5 لاکھ گیلن صاف پانی میسر آئے گا۔ ٹراما سینٹر کوئٹہ میں مریضوں کو بہترین علاج فراہم کیا جارہا ہے جن میں پورٹیبل وینٹی لیٹر بھی شامل ہیں۔ سکھر میں گردوں کے امراض کے بڑے اسپتال SIUTمیڈیکل کمپلیکس کا افتتاح ہو گیا ہے۔ جہاں پہلے مرحلے میں 170 بستر ارو 70 جدید ترین ڈائیلائسز مشینیں موجود ہیں۔