• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عورتیں پاکستان کی آبادی کا تقریباََ نصف (۴۹ فیصد) حصہ ہیں لیکن اعلی عہدوں انتظامی اور قانونی امور میں آج بھی ان کا حصہ بہت کم ہے۔ہر دس پاکستانی عورتوں میں سے صرف دو عورتیں لیبر فورس میں ہیں۔خواہ الیکشن میں حصہ لینا ہو یا ووٹ ڈالنا ہو یا کسی سیاسی پارٹی کا رکن بننا ہو، عورتوں کی تعداد ہمیشہ مردوں سے کم رہی ہے۔ پاکستان کے آئین میں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں عورتوں کے لئے سترہ فی صد مخصوص نشستیں رکھی گئی ہیں۔پاکستان کے سماجی اور سیاسی نظام میںمذہبی اور ثقافتی پدر سری کی جڑیں بہت گہری ہیں۔

اسی لئے باہر نکلنے والی خواتین خاص طور پر سیاست داں خواتین کے لباس اور وضع قطع پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جاتا۔اور ان کے کام کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی لیکن اس کے باوجود پاکستانی عورتوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ 

مثال کے طور پر 2023 میں ٹائم میگزین نے پاکستان کی شیری رحمٰن کو دنیا کی سو با اثر ترین خواتین میں شامل کیا۔گذشتہ نومبر میں مصر میں ہونے والی اقوام متحدہ کی کلائمٹ کانفرنس میں شیری رحمن اور ان کے ساتھیوں کی کوششوں کے نتیجے میں 2023میں ترقی یافتہ ممالک کے رہنمائوں نے یہ بات تسلیم کر لی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہو نے والے پاکستان جیسے ممالک کی مالی مدد کی جائے گی۔ لیکن خواتین سیاست دان کچھ بھی کر لیں، لوگ ابھی بھی اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ عورت سیاست کو اپنا کل وقتی کیرئیر بنا سکتی ہے۔اُن کی نقل و حرکت اور ان کے تحفظ کے مسائل اور پدرسری عورتوں کے لئے مواقع محدود کر دیتے ہیں۔امسال بہت سی سیاسی کارکن خواتین پولیس تشدد کا نشانہ بھی بنیںاور انہوں نے جیل کی ہوا بھی کھائی۔

ورلڈ اکنامک فورم کی عالمی جینڈر گیپ رپورٹ 2023کے مطابق 146ممالک میں سے پاکستان کا نمبر 142ہے۔صنفی برابری کے لئے اس میں چار پہلوئوں کو مد نظر رکھا گیا:اقتصادی شراکت اور مواقع،تعلیمی قابلیت، صحت و بقا اور سیاسی با اختیاری۔ دیگر ممالک کے مقابلے میں ہم بہت پیچھے ہیں اور صرف چار ملکوں ایران، الجیریا، چھڈ اور افغانستان سے آگے ہیں۔ اقتصادی سرگرمیوں میں شرکت اور مواقع کے حوالے سے بھی پاکستانی عورتوں کی صورت حال پانچ اعشاریہ ایک فی صد بہتر ہوئی ہے۔

پاکستانی عورتیں ٹیکنیکل کاموں میں زیادہ حصہ لینے لگی ہیں اور ایک جیسے کام کے لئے انہیں مردوں کے مساوی معاوضہ ملتا ہے۔۔تعلیم کے حصول کے لحاظ سے پاکستان 138 نمبر پر اور عورتوں کی سیاسی شراکت کے لحاظ سے 95نمبر پر رہا۔ خواندگی اور ثانوی اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلے کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔

دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کو بھی 2030تک پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کرنا ہیں لیکن 2023تک دنیا میں کہیں بھی صنفی مساوات نظر نہیں آئی۔اگر موجودہ صورت حال برقرار رہی تو 2030میں بھی 340 ملین سے زیادہ عورتیں اور بچیاں انتہائی غربت کے عالم میں زندگی گزار رہی ہوں گی۔ انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں سے مزید مسائل پیدا ہوں گے۔

اقتدار اور قیادت کی سطح پر پائے جانے والا صنفی تفاوت 2023 میں بھی برقرار رہا۔ ایک اندازے کے مطابق عورتوں کی اگلی نسل کو بھی مردوں کے مقابلے میں بلا معاوضہ دیکھ بھال اور گھریلو کاموں پر اوسطاََ یومیہ 2.3 گھنٹے زیادہ صرف کرنا پڑیں گے۔پاکستان سمیت کوئی بھی ملک ابھی تک گھریلو تشدد کے خاتمے میں کامیاب نہیں ہوا۔

یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے لیکن ہماری خواتین کو آج بھی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تک رسائی کے حوالے سے بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صرف چھبیس فی صد عورتوں کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے۔ دیہی علاقوں میں یہ تعداد اور بھی کم ہے۔مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تک کم رسائی ان کی مالیاتی خود مختاری ، نئی مہارتیں سیکھنے اور ملازمت کے مواقع تک رسائی کو محدود کرتی ہے۔ 

عورتوں کی اقتصادی خود مختاری کا ایک اہم حصہ مالیاتی امور میں ان کی شمولیت ہے اور اس کے لئے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اہم کردار ادا کر سکتی ہے مگر پاکستان میں صرف سات فی صد عورتوں کا کسی رسمی مالیاتی ادارے یا بینک میں اکائونٹ ہے۔ثقافتی اور سماجی رسوم و رواج اور معلومات تک رسائی نہ ہونے کے باعث عورتوں کے لئے مالیاتی خدمات یا فنانشل سروسز تک رسائی مشکل ہو جاتی ہے۔

دوسری طرف ٹیکنالوجی کی مدد سے ہونے والے صنفی تشدد نے عورتوں کے مسائل میں اضافہ بھی کیا ہے۔پاکستان کی72 فی صد عورتوں نے کسی نہ کسی قسم کی آن لائن ہراسمنٹ یا تشدد کی شکایت کی ہے۔اس میں سائبر اسٹالکنگ، انتقام کے طور پر فحش تصاویر بھیجنا اور آن لائن ہراساں کرنا شامل ہے۔اس طرح کے تشدد کے نتیجے میں بھی عورتیں ڈیجیٹل پلیٹ فارمز سے الگ ہو جاتی ہیں، یوں ڈیجیٹل تقسیم اور گہری ہو جاتی ہے۔ان چیلنجز کے باوجود حکومت پاکستان نے عورتوں کو با اختیار بنانے کے لئے ڈیجیٹل ابلاغ کے حوالے سے مثبت اقدامات کئے ہیں۔

ڈیجیٹل رائٹس فائونڈیشن کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں چالیس فی صد عورتوں کو آن لائن ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ان مسائل کے باوجود پاکستان کی کاروباری خواتین نے آن لائن کاروبار میں کامیابی کی داستانیں رقم کی ہیں۔ ان میں ایک نام صبا گل کا بھی ہے جو ایک کاروباری منتظم ہیں۔وہ ’’پوپنجے‘‘ آن لائن پلیٹ فارم کی بانی بھی ہیں جو پاکستان کی باصلاحیت ہنر مند خواتین کو بین ا لاقوامی منڈیوں سے منسلک کرتا ہے۔انہوں نے ایم آئی ٹی سے کمپیوٹر سائنس اور انجینیئرنگ کی ڈگری حاصل کی اورسماجی کاروباری منتظم بننے سے پہلے وہ مائیکرو سوفٹ اور اوریکل جیسی بڑی کمپنیوں میں کام کر چکی ہیں۔

اقتصادی فرنٹ پر عورتیں پاکستان کی لیبر فورس کا صرف 22.63فی صد جب کہ مرد 84.79فی صد ہیں۔ایک پاکستانی عورت کی اوسطاََ آمدنی مرد کے مقابلے میں صرف 16.3فی صد ہے۔غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والے 5.26ملین افراد میں سے اکیاسی 81فی صد عورتیں ہیں۔

پاکستان میں بہت سی عورتیں کامیابی کے ساتھ چھو ٹے موٹے یا درمیانے درجے کے کاروبار چلا رہی ہیں۔ 2023میں سامنے آنے والے ناموں میں ایک نام شاہین اعجاز کا بھی ہے۔چند سال قبل انہیں ایک جلدی مرض ہو گیا تھا۔ اس کی وجہ سے وہ اپنے چہرے پر پڑنے والے دھبوں اور داغوں سے پریشان رہتی تھیںچنانچہ انہوں نے جڑی بوٹیوں کے ذریعے علاج کے بارے میں تحقیق شروع کی اور پھر دیگر خواتین کو اپنی تحقیق کے نتیجے میں بنائی جانے والی پروڈکٹس سے متعارف کرانے کے لئے کوئٹہ میں ایم این ایم پروڈکٹس کے نام سے ایک چھوٹی سی کمپنی بنائی۔

یہ کمپنی جڑی بوٹیوں سے اسکن کئیر پروڈکٹس تیار کرتی اور اس کے ساتھ ساتھ عورتوں کے لئے روزگار کے مواقع فراہم کرتی ہے۔شروع میں انہیں مارکیٹنگ کے حوالے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن پھر انہیں یورپی یونین کی مالی اعانت سے چلنے والے ایک پراجیکٹ میں ای۔کامرس کی ٹریننگ حاصل کرنے کا موقع ملا، یوں انہیں آن لائن کاروباری دنیا میں قدم رکھنے کا موقع ملا اور ان کی تیار کردہ پروڈکٹس کی فروخت میں اضافہ ہوا۔2023میں وہ ایک کامیاب بزنس ویمن کے طور پر سامنے آئیں۔

2023 میںچھٹی ویمن ڈلیور کانفرنس WDCروانڈا میں ہوئی اور پہلی مرتبہ اس کی CEOایک پاکستانی خاتون ملیحہ خان تھیں۔ان کے علاوہ بھی بہت سی پاکستانی خواتین اس کانفرنس میں شریک ہوئیں جن میں ملالہ یوسف زئی بھی تھیں جن کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔صنفی مساوات کے لئے کام کرنے کا ڈاکٹر ملیحہ کا تجربہ تین عشروں پر محیط ہے۔آج کل وہ امریکا میں رہ کر پاکستان کا نام روشن کررہی ہیں ،مگر تحریک نسواں سے ان کی وابستگی ، عورتوں اور لڑکیوں کی اقتصادی خود مختاری کے لئے کام کرنے کا سلسلہ پاکستان میں ہی شروع ہو گیا تھا۔

ابتدائی برسوں میں انہوں نے ترقی کے مردانہ منصوبوں میں عورتوں اور لڑکیوں کو شامل کرانے کی کوشش کی۔اس تجربے نے انہیں بہت کچھ سکھایا۔انہوں نے پاکستان میں کام کرنے والی بین ا لاقوامی تنظیموں اور اداروں کے لئے صنفی بنیادوں پر پراجیکٹس بنائے اور ان کی نگرانی کی۔اس سے پہلے کافی عرصہ تک انہو ںنےاعلیٰ تعلیمی اداروں میں جینڈر اسٹڈیز کی تدریس کے فرائض انجام دئیے۔ان کی رائے میں پاکستان کی ترقی کے لئے نوآبادیاتی اور نسل پرست وراثت سے نجات پانا ضروری ہے۔ان کو یقین ہے کہ اسٹرکچرز اور سسٹمز کو چیلنج کر۔ کے ہی حقیقی تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔

ٹرانس جینڈر ایکٹوسٹ سارو عمران جو 2023میں اپنے کام کے حوالے سے صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کے حوالے سے بھی سامنے آئی ہیں۔وہ اپنی برادری کے لئے ’پنک سنٹر‘کے نام سے ایک مرکز چلاتی ہیں اور شہریوں کو صحت کی سہولتوں کی فراہمی پر زور دیتی ہیں۔وہ دائیں بازو کے انتہاپسند گروہوں کے حوالے سے نوجوانوں کے ذہنی دبائو اور تنائو کے بارے میں پبلک پلیٹ فارمز پر گفتگو میں بھی حصہ لیتی ہیں۔سارو عمران کی عمر اس وقت صرف پندرہ سال تھی جب ٹرانس جینڈر ہونے کی بنا پر ان پر حملہ کیا گیا۔ 

یہ 2008کا ذکر ہے۔انہیں اس حملے کے جسمانی، ذہنی اور جذباتی صدمے سے نکلنے میں دو سال لگے۔جب سے اب تک پاکستان میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔اب سارو ٹرانس جینڈر کے لئے انصاف اور ان کے حقوق کی ایک توانا آواز بن کر سامنے آئی ہیں۔وہ بین ا لاقوامی کانفرنسوں میں بھی شرکت کرتی ہیں جہاں وہ دنیا بھر کے صحافیوں کو بتاتی ہیں کہ ان جیسے ٹرانس جینڈر افراد کے لئے جنسی اور تولیدی صحت اور حقوق اور انصاف کا مطلب کیا ہے۔ان کا ایکٹوازم رنگ لایا اور اور 2018 میں حکومت پاکستان نے ٹرانس جینڈر افراد کے تحفظ کے لئے ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ بنا دیاتا کہ انہیں تعلیم،روزگار اور رائے دہی کا حق دلوایا جا سکے۔

یہ قانون ٹرانس جینڈر کی صنفی شناخت کے لئے اسپتالوں میں ان کی مرضی کے بغیر ان کے جسمانی معائنے کی بھی ممانعت کرتا ہے۔قانون بن جانے کے باوجود حقائق کچھ اور ہی بتاتے ہیں۔ ٹرانس جینڈر کے ساتھ ابھی بھی امتیازی سلوک، غیرت کے نام پر قتل، بلیک میلنگ، ہراسانی اور تواتر کے ساتھ حملے ہوتے ہیں۔حال ہی میں جب سارو ٹرانس جینڈر کے ایک پروگرام میں شرکت کے بعد واپس آ رہی تھیں تو دو موٹر سائیکل سواروں نے ان پر حملہ کر دیا اور انہیں اپنا کام بند کرنے کے لئے دھمکیاں دیں۔وہ چیخ رہے تھے ’’ اگر تم نے اپنا کام بند نہیں کیا تو تمہیں اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔‘‘

سارو سیدھی پولیس اسٹیشن گئیں اور اس واقعے کی رپورٹ درج کرائی مگر پولیس تا حال مجرموں کو گرفتار نہیں کر پائی۔اس کے ساتھ ساتھ سائبر ہراسمنٹ میں بھی اضافہ ہوا ہے جس کا نتیجہ، افسردگی، ذہنی تنائو اور دبائو کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ٹرانس جینڈر کے حقوق کا دفاع کرنے والے صف اول کے ایکٹوسٹس کو براہ راست نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سارو کو ذاتی طور پر ایسے بہت سے سائبر حملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس ہراسانی اور تشدد کے باوجود سارو سمجھتی ہیں کہ اگر ان کی برادری کے افراد اقتصادی طور پر خود مختار ہو جائیں تو محفوظ رہ سکتے ہیں کیونکہ اکثر وہ مالی طور پر ان ہی لوگوں کے محتاج ہوتے ہیں جو ان پر زیادتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔سارو اپنی برادری کے لوگوں کے لئے ڈیجیٹل انٹر پرینیور شپ اور چھوٹے کاروبار شروع کرنے کے بارے میں ورکشاپ کرواتی ہیں تا کہ انہیں معاشرے میں مساوی مقام مل سکے۔

پولیس کا محکمہ ایک ایسا محکمہ ہے جہاں شروع سے مردوں کی بالادستی رہی ہے۔پاکستانی حکومت کی سالوں سے کوشش رہی ہے کہ عورتوں کو زیادہ تعداد میں پولیس میں بھرتی کیا جائے۔لیکن آج بھی پولیس کو مردانہ پیشہ سمجھا جاتا ہے۔پاکستانی پولیس میں عورتوں کی تعداد صرف تین فی صد سے بھی کم ہے۔حالانکہ کوٹہ بھی رکھا گیا ہے۔ادارہ جاتی رکاوٹوں اور سماجی تعصبات کی وجہ سے عورتوں کے لئے اپنے کیرئیر کو آگے بڑھانا مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن سندھ میں سوہائی عزیز اور شہلا قریشی نے پولیس کے محکمے میں ان رکاوٹوں کا کامیابی سے مقابلہ کیا۔

شہلا آج کل سجاول ڈسٹرکٹ میں سینئیر سپرنٹینڈنٹ پولیس ہیں۔بہرحال مجموعی طور پر عورتوں کے لئے پولیس ایک غیر محفوظ پیشہ سمجھا جاتا ہے جو عورتوں کو سپورٹ کرنے کے لئے نہیں بنایا گیا ،مگر اس محکمے میں عورتوں کا نہ ہونا یا کم ہونا شہریوں کے لئے مشکلات کا سبب بنتا ہے۔2023 میں پنجاب کے مختلف تھانوں میں عورتوں کو ایس ایچ او مقرر کیا گیا جو صنفی انصاف کی طرف ایک اہم قدم تھا اور اس کا مقصد لوگوں کی نظر میں پولیس کا امیج بحال کرنا تھا۔پولیس کے اعلیٰ حکام کی کوشش تھی کہ پنجاب کے ہر ڈسٹرکٹ کے کم از کم ایک تھانے میں خاتون پولیس ایس ایچ او کو تعین کیا جائے۔پنجاب کے علاوہ باجوڑ میں بھی پولیس کے محکمے میں بھی عورتوں کو بھرتی کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن علاقے کے فرسودہ رسم و رواج اور رہائشی سہولتوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے عورتوں کے لئے پولیس کے محکمے میں آنا مشکل ہو رہا ہے۔

تنزیلہ خان معذوروں کے حقوق کے لئے مہم چلاتی ہیں ،اسکے علاوہ وہ ماہواری کے حوالے سے نو عمر لڑکیوں کی صحت کے لئے Girly things.Pk کے نام سے ایک پراجیکٹ چلاتی ہیں۔تنزیلہ ایک فلم فیسٹول کی جج بھی رہی ہیں۔وہ عورتوں کی خود مختاری کا ایمل کلونی ایوارڈ بھی حاصل کر چکی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ مروج ثقافت ان کی نمائندگی نہیں کرتی اس لئے انہیں اپنی جگہ خود بنانی پڑی ہے۔

تنزیلہ کو یہ بات پسند نہیں کہ لوگ ان پر ترس کھاتے رہیں۔ان کی رائے میں مسائل کے حوالے سے مثبت رویہ اپنانا ضروری ہے۔’’جب میں نے دنیا کی طرف دیکھا تو مجھے اپنے لئے کوئی جگہ نظر نہیں آئی، نہ ٹی وی سیریز میں اور نہ ہی ان کتابوں میں جو میں پڑھتی تھی ‘‘۔تنزیلہ خان پبلک اسپیکر بھی ہیں اوراب تک انیس ممالک میں کاروباری مسائل کے بارے میں سیشنز لے چکی ہیں۔انہوں نے سولہ سال کی عمر میں پہلی کتاب ’’میکسکو کی کہانی ‘‘کے عنوان سے لکھی تھی۔ دوسری کتاب ’’ دی پر فیکٹ سچوئیشن‘‘ تھی۔

وہ کتابوں سے حاصل ہونے والی آمدنی معذوری ، تعلیم، ماحولیات اور عورتوں کی خود مختاری سے متعلق پراجیکٹس پر خرچ کرتی ہیں۔پائیدار ترقیاتی مقاصد کے حصول کے لئے انہوں نے ایک کمپنی "I wish"کے نام سے بنائی ہے۔سویڈش انسیٹیوٹ نے انہیں’’مستقبل کی نوجوان رابطہ کار کی فیلو شپ بھی دی۔انہوں نے فلمسازی کے میدان میں بھی صلاحیتیں آزمائی ہیں اور ’’فروٹ چاٹ‘‘کے نام سے ایک مختصر فلم اور برین مسالہ کے نام سے ایک پوڈ کاسٹ بنایا ہے۔2023 میں انہوں نے روانڈا میں ہونے والی عورتوں کی بین ا لاقوامی کانفرنس میں بھی شرکت کی۔

بلوچستان سے تعلق رکھنے والی نور ا لصباح رخشانی کا تعلق صحت کے شعبے سے ہے۔ وہ تولیدی صحت اور مائوں کی صحت کے حوالے سے بین ا لاقوامی کانفرنسوں میں پاکستان کی نمائندگی کرتی رہی ہیں۔وہ ٹیکنیکل گلوبل ہیلتھ کی ڈائرکٹر ہیں۔نئے اسٹرکچرز بنا کر صحت کے نظام کو بہتر بنانے میں یقین رکھتی ہیں۔انہوں نے ویکسین انڈیکیٹر اور یاد دلانے والا بینڈ (چھلا)بھی بنایا ہے۔وہ یو نیسیف کی ٹیکنیکل مشیر بھی رہی ہیں۔ 

پاکستان کی غریب کمیونٹیوں، پناہ گزینوں اور قیدیوں تک صحت کی سہولتیں پہنچانے کا عزم رکھتی ہیں۔ایک عالمی ماہر صحت کی حیثیت سے وہ پاکستان،نائجیریا اور شمالی کوریا میں تحقیقی کام کر چکی ہیں۔2023 میں بھی انہوں نے بین ا لاقومی کانفرنسوں میں شرکت کی اور پاکستان کا نام روشن کیا۔وطن عزیز میں ویکسین کے مسئلے کو حل کرنے سے نور رخشانی کو نہ تو سرکاری اداروں کا لال فیتہ روک سکا اور نہ ہی طالبان۔ان کی توجہ کا مرکز بچوں کے لئے حفاظتی ٹیکے ہیں۔

سمیرا لوکھنڈوالا ماہواری، صنف، نو بالغوں کی جنسی اور تولیدی صحت، تعلیم اور پریکٹس کی ماہر ہیں۔وہ سندھ اور گلگت بلتستان کی غریب اور پسماندہ بستیوں میں جا کے بچیوں کو بلوغت اور ماہواری کے حوالے سے صحت کے مسائل کے بارے میں بتاتی ہیں۔ منافع کے بغیر کام کرنے والی تنظیم HER کی بانی ہیں جو تولیدی صحت خاص طور پر ماہواری کے مسائل پر کام کرتی ہے۔

گذشتہ چند سالوں کی طرح 2023 میں بھی اپنی تحریروں کے ذریعے عورتوں کے تولیدی مسائل کے بارے میں آگاہی پھیلانے میں طاہرہ کاظمی سر فہرست رہیں۔تولیدی صحت کے مسائل کے بارے میں لکھنے کے لئے انہوں نے ہر ڈیجیٹل پلیٹ فارم استعمال کیا ہے۔ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اردو میں لکھتی ہیں، اس لئے ان کی باتیں عام لوگوں تک پہنچتی ہیں۔اب تو لوگ انہیں ’’گائنی فیمنزم‘‘کا بانی کہنے لگے ہیں۔ ان خواتین کی کوششوں کے باوجود صحت کے شعبے میں صنفی تفاوت واضح طور پر نظر آتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں عورتوں کی صحت اور غذائیت عدم توجہی کا شکار رہتی ہے۔صنفی بنیاد پر ہونے والا تشدد بھی ان کی صحت پر منفی اثر ڈالتا ہے۔تعلیم اور روزگار کے میدان میں بھی عورتوں کو صنفی امتیاز کا سامنا ہے۔

کمیشن برائے توقیر نسواں کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق تعلیم اور روزگار کے مواقع عورت کی خوشحالی ،فیصلہ سازی اوراختیارات میں اضافہ کرتے ہیں۔شیری رحمن کے بقول معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کے لئے عورت کا با اختیار ہونا ضروری ہے۔سابق وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اور ترقی کا بھی یہی کہنا ہے کہ کسی بھی قوم کی ترقی عورتوں کی با اختیار ی سے منسلک ہے۔کمیشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ترقیاتی ایجنڈے پر عورتوں کی ترقی کو سر فہرست رکھنا ضروری ہے۔

تعلیم کی صورت حال 2023میںکمیشن برائے توقیر نسواں کے سروے کے مطابق پاکستان میں پانچ سے سولہ سال کی عمر کے 22.8 ملین بچے اسکول نہیں جاتے،اور ان میں صنفی فرق بہت زیادہ ہے۔پندرہ سے چونسٹھ سال کی عمر کی 53% عورتوں نے اور اسی عمر کے 33% مردوں نے زندگی میں کبھی اسکول کی شکل نہیں دیکھی۔

دیہی علاقوں میں پرائمری تعلیم حاصل کرنے والوں میں 56%لڑکیاںاور 67%لڑکے ہیں مگر اسکنڈری اسکولوں تک صرف 19فی صد لڑکیاں اور 25%لڑکے رہ جاتے ہیں۔ بہرحال نوجوانوں اور بچوں کے حوالے سے مثبت رحجان سامنے آیا ہے۔اور خواندگی کی شرح میں بھی گذشتہ دو عشروں میں اضافہ ہو ہے، مگر صنفی تفاوت برقرار رہا۔ تعلیم کے حوالے سے سب سے بڑا چیلنج وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا تعلیم کے لئے کم بجٹ مخصوص کرنا ہے۔2022-2023کے پاکستان کے سارے صوبوں کے میزانیوںمیں تعلیم کے لئے 13.3%سے 17.5%فی صد رقم مختص کی گئی تھی۔

عورتیں لیبر فورس میں

پاکستان میں لیبر فورس میں عورتوں کی شمولیت میںگو مستقل سست رفتاری سے اضافہ ہو رہا ہے۔لیکن یہ اضافہ غیر رسمی شعبے میں ہو رہا ہے، رسمی شعبے پر تو ایک عشرے سے انحطاط طاری ہے۔صنف سے متعلق کمزور اعشارئیے باعث تشویش ہیں ۔ اس کا مطلب ہے کہ ملک کی نصف آبادی کی صلاحیتوں کو ضائع کیا جا رہا ہے اور اسی لئے ہم دوسرے ممالک سے پیچھے رہ گئے ہیں۔پاکستان کی لیبر فورس میں عورتوں کی شراکت کی شرح 21% ہے یعنی ہم اوسط عالمی شرح 39%سے کافی پیچھے ہیں۔پاکستان میں 84% مردوں کے مقابلے میں صرف 26% عورتیں لیبر فورس میں شامل ہیں۔

جنوری 2023 میں ہی پاکستان کی پارلیمنٹ نے کام کی جگہ پر عورتوں کو تشدد اور ہراسانی سے بچانے کے لئے عورتوں کی حفاظت کو مضبوط بنانے کے لئے قانون منظور کیا۔اس میں کام کی جگہ کی تعریف کو وسیع کر کے رسمی اور غیر رسمی دونوں شعبوں کو شامل کیا گیا ہے جو عالمی ادارہ ء محنت کے C 190 کنونشن کی تعریف سے قریب تر ہے گو کہ پاکستان نے ابھی تک اس کنونشن کی تو ثیق نہیں کی ہے۔

پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے اور ہماری دو تہائی آبادی 30سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اس لئے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے مسائل پر توجہ دینا ضروری ہے۔اس وقت پاکستان کی آبادی دنیا کی دسویں بڑی لیبر فورس کی نمائندگی کرتی ہے مگر یہاں بے روزگاری عام ہے۔معیاری تعلیم اور اسکلز ڈیولپمنٹ تک رسائی محدود ہے۔ سماجی اور اقتصادی نا برابری مواقع اور وسائل تک رسائی محدود کردیتی ہے۔ گو کہ پاکستان اس وقت ڈیجیٹل تبدیلیوں کے عمل سے گزر رہا ہے لیکن سیاسی عدم استحکام اقتصادی اور سماجی عدم تحفظ میں اضافہ کر رہا ہے۔نوجوان خواتین کی بے روزگاری کی شرح نوجوان مردوں کے مقابلے میںسات گنا زیادہ ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق انتخابی فہرستوں میں 12.5ملین کا صنفی تفاوت پایا جاتا ہے۔یو این ویمن کے مطابق اگر ترقی کی یہی شرح رہی تو قانون ساز اداروں میں 2063 تک صنفی مساوات کا حصول ممکن نہیں ہو گا۔

قدرتی آفات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے دس ممالک میں سے ایک پاکستان ہے اور ان آفات سے عورتیں سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ان سارے چیلنجز کے باوجود پاکستان نے انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے ترقی پسندانہ اقدامات کئے ہیں ، بین الاقوامی کنونشنز پر دستخط کئے ہیں، عورتوں کے لئے قوانین بنائے ہیں بشمول قومی جینڈر پالیسی فریم ورک کے۔ عورتوں پر تشدد اور ریپ کے خلاف قوانین بن تو گئے ہیں مگر ان پر پورے طور پر عمل درامد نہیں ہو پایا۔