انتخابات 2024 کی گہما گہمی شروع ہوگئی ہے۔ اس بار کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) ہاٹ فیورٹ قرار دی جا رہی ہے جبکہ گزشتہ انتخابات 2018 میں حکومت بنانے والی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) مشکلات کا شکار ہے۔
ایسے میں آئیے ایک نظر الیکشن سال 1997 پر ڈال لیتے ہیں کہ جب ن لیگ کے قائد نواز شریف اور بانی پی ٹی آئی لاہور کے حلقے این اے 95 سے مد مقابل آئے۔
فروری 1997 کے انتخابات ملکی تاریخ میں اس لیے بھی اہم تھے کیونکہ اس سے قبل بار بار مارشل لاء کا سامنا رہا اور 1997 انتخابات کے بعد ملک 21ویں صدی میں قدم رکھنے جا رہا تھا، ایسے میں یہ ضروری تھا کہ جو بھی حکومت اقتدار میں آئے وہ مضبوط اور مستحکم ہو۔
اس وقت کے انتخابات سے قبل ایک جانب مرتضیٰ بھٹو کے قتل اور اس وقت کی نگران حکومت کے احتساب کے باعث پی پی پی عوام میں اپنی مقبولت کھوتی جارہی تھی جبکہ جماعت اسلامی پہلے ہی انتخابات کا بائیکاٹ کرچکی تھی، ایسے میں مسلم لیگ ن کے لیے سیاسی میدان صاف تھا۔
ایسے میں 1996 میں عمران خان نے اپنی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھ کر 97 کے انتخابات میں میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا، صرف یہ ہی نہیں بلکہ لاہور کے حلقہ این اے 95 سے نواز شریف کے مد مقابل کھڑے ہوئے۔
این اے 95 کی سیاسی اہمیت
الیکشن سال 1997 میں لاہور سے قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 95 وہی حلقہ ہے جہاں سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف 1985 سے جیتتے آرہے تھے۔
1990 کے انتخابات میں میاں نواز شریف نے اسی حلقے سے پاکستان ڈیموکریٹک الائنس کے امیدوار ایئر مارشل (ر) اصغر خان کو 59944 ووٹوں کے مقابلے 39585 ووٹ حاصل کرکے شکست دی تھی۔ یہ اس حلقے میں کسی بھی حریف کو ملنے والے سب سے زیادہ ووٹ تھے۔
1993 کے انتخابات میں نواز شریف نے اس حلقے سے 57959 ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے مدمقابل کھڑے ہونے والے پی پی پی کے ضیا بخت بٹ صرف 33142 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔
1997 کے انتخابات میں جماعت اسلامی کے بائیکاٹ کے بعد جب عمران خان نے اسی حلقے سے کھڑے ہونے کا اعلان کیا تو اس کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوگیا اور ہر ایک کی نظریں اسی حلقے پر جم گئیں اور امیدیں کی جانے لگیں کہ اس بار دونوں امید واروں کے درمیان کڑا مقابلہ ہوگا۔
1997 انتخابات اور عمران خان کی مقبولیت
92 کے کرکٹ ورلڈ کپ میں شاندار کامیابی کے سبب عمران خان کی مقبولیت اس وقت بھی نوجوانوں میں عام تھی، اس لیے ابتداً نواز شریف نے ایک جانب حلقے 92 سے میاں محمد اظہر کو پارٹی ٹکٹ دیا اور دوسری جانب انہوں نے کوشش کی کہ عمران خان کو سیاسی حریف بنانے کے بجائے ساتھی بنالیں اور 97 کے انتخابات میں بطور اتحادی حصہ لیں اور انتخابات جیتنے پر پی ٹی آئی کو 20 نشیستوں سے نواز دیں لیکن عمران خان نے یہ آفر ٹھکرا دی جس کے بعد ان دونوں سیاسی رہنماؤں کے درمیان تلخیاں بڑھ گئیں۔
یہ ہی وہ وقت تھا جب ان دونوں جماعتوں کے قائدین ایک دوسرے کے حریف بن گئے تھے۔
بعدازاں ن لیگی رہنما اور پارٹی کے میڈیا مینیجر پرویز رشید نے عمران خان کے خلاف برطانوی جریدے میں شائع ہونے والے تنازع، ملکی و بیرون ملک اثاثے چھپانے اور ٹیکس ادا نہ کرنے پر عمران خان کے کاغذات نامزدگی پر اعتراضات پیش کئے۔ تاہم ریٹرننگ آفیسر نے عمران خان کے کاغذات نامزدگی منظور کرلیے۔
حلقے این اے 95 سے عمران خان کی جانب سے الیکشن میں حصہ لینے پر اس وقت سیاسی گہما گہمی عروج پر رہی، تاہم ان انتخابات میں مسلم لیگ ن نے 50592 ووٹ لے کر واضح اکثریت سے حکومت قائم کی جبکہ پی پی پی 9623 کے ساتھ دوسرے اور پی ٹی آئی 5365 ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی۔
1992 میں ایک روزہ کرکٹ ورلڈ کپ کا تاج پاکستان کے سر سجانے والے عمران خان نے اپنی والدہ کی یاد میں 1994 میں شوکت خاتم کینسر اسپتال کی بنیاد رکھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ورلڈ کپ میں بہترین کاکردگی کا مظاہرہ پیش کرنے پر عمران خان کو نواز شریف نے ہی پلاٹ بطور انعام دیا تھا، جسے عمران خان نے شوکت خاتم کینسر اہستال بنانے کے لیے وقف کردیا۔
1997 کے انتخابات سے قبل نواز شریف اور عمران خان کے تعلقات اتنے اچھے تھے کہ ن لیگ کے قائد نے کھلاڑی کو سیاست میں آنے اور اپنی پارٹی جوائن کرنے کی دعوت بھی دی تھی۔
(نوٹ: تمام حقائق اور اعداد و شمار جنگ آرکایئو اور الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ سے لئے گئے ہیں)