• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جیل میں اسیر خواتین اپنے بچوں کیلئے فکر مند، انتظامیہ کی خوشیاں بانٹنے کی کوشش



کراچی جیل کی اونچی اونچی دیواروں اور سلاخوں کے پیچھے قید خواتین اور ان کے معصوم بچے اپنی اسیری کے دن گزار رہے ہیں، ان کی مائیں بچوں کے حوالے سے ہر وقت فکر مند نظر آتی ہیں۔

اپنی ماؤں کے ساتھ رہتے یہ بچے جیل کے ماحول میں خوفزدہ نظر آتے ہیں، کوئی چھوٹی سی خوشی بھی ان کی زندگی کیلئے یادگار لمحہ بن جاتی ہے۔

فوٹو نمائندہ جنگ
فوٹو نمائندہ جنگ

جیل انتظامیہ کے ساتھ مل کر کراچی کی ایک سماجی تنظیم ان معصوم بچوں کے چہروں پر مسکراہٹ لانے کی وجہ بنی اور ان بچوں کو خوشی دینے کیلئے میلہ سجایا، جس میں ان ننھے منے بچوں نے خوب ہلہ گلہ اور موج مستیاں کیں۔

جیل میں قائم اسکول کا ایک منظر
جیل میں قائم اسکول کا ایک منظر

اس موقع پر ڈپٹی انسکپٹر جنرل (ڈی آئی جی) جیل شیبا شاہ اور انسپکٹر جنرل (آئی جی) جیل سندھ سید منور شاہ کی اہلیہ سکینہ منور نے ایونٹ میں شریک ہوکر اسیر ماؤں کے ساتھ جیل میں رہنے والے بچوں سے مل کر ان کی خوشیوں میں رنگ بھر دیے۔

ڈی آئی جی شیبا شاہ کا کہنا تھا کہ ہم نے ان بچوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کیلئے آج ایک زبردست پروگرام منعقد کیا، جو اپنی والدہ کے ساتھ یہاں رہتے ہیں، ہم اکثر اوقات ان بچوں کیلئے اسی طرح کی سرگرمیاں کرتے ہیں اور انہیں سیر و تفریح کیلئے باہر بھی لے کر جاتے ہیں، سال کے آغاز میں ہی انتظامیہ نے جیل کے اندر ہی ان کی تفریح کا انتظام کیا ہے۔

ڈی آئی جی شیبا شاہ: فوٹو جنگ
ڈی آئی جی شیبا شاہ: فوٹو جنگ

شیبا شاہ کا کہنا تھا کہ جیل میں 260 خواتین کی گنجائش ہے جبکہ 160 قیدی خواتین ہیں اور ان کے ساتھ بچوں کی تعداد 34 ہے، جن کی تعلیم و تربیت کیلئے جیل میں ایک اسکول بھی قائم ہے، جہاں صبح 9 بجے سے لیکر دوپہر 2 بجے تک بچے روزانہ کی بنیاد پر تعلیم حاصل کرتے ہیں، جبکہ شام میں ان کیلئے کھیلنے کا انتظام بھی موجود ہے۔

فوٹو نمائندہ جنگ
فوٹو نمائندہ جنگ

انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات سندھ سید منور شاہ کی اہلیہ سکینہ منور نے اس موقع پر کہا کہ یہ بچے جب جیل میں آتے ہیں تو انہیں احساس ہوتا ہے کہ پنجرہ چاہے سونے کا ہی کیوں نہ ہو پنچرہ ہی کہلاتا ہے، انہیں خوش دیکھ کر مجھے بھی آج بہت اچھا لگ رہا ہے۔

جیل میں موجود ایک قیدی خاتون نے بتایا کہ 2 سال سے اپنی بیٹی کے ساتھ اسیری کے دن کاٹ رہی ہوں، میری بیٹی جیل میں میرے ساتھ جب آئی تھی تو اس وقت 1 سال کی تھی، تاہم جیل انتظامیہ کی جانب سے میری بیٹی کا بھی بہت خیال رکھا جاتا ہے، جب بھی اس کی طبعیت خراب ہوتی ہے تو انتظامیہ اس کے علاج کا مکمل خیال رکھتی ہے۔

قیدیوں کیلئے کھانے کا مینو
قیدیوں کیلئے کھانے کا مینو

خاتون نے بتایا کہ جیل میں ان کی اسیری کے دن بڑی مشکل سے کٹتے ہیں، میں دعا کرتی ہوں کہ خدا کسی کے سامنے بھی یہ دن نہیں لائے، میری بیٹی بھی جیل میں بہت زیادہ خوفزدہ رہتی ہے۔

خاص رپورٹ سے مزید