اسلام آباد (فخر درانی) عمران خان نے برسوں تک اپنے حق میں عوامی سروے خاص طور پر گیلپ سروے کا حوالہ دیتے ہوئے فخر کیا اور خود کو ملک کا مقبول ترین لیڈر بنا کر پیش کیا۔ تاہم پی ٹی آئی کے سربراہ صرف ان سروے کو قبول کرتے ہیں جو ان کے حق میں ہیں۔ حالیہ سروے جن میں مسلم لیگ ن، یا پی پی پی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کو پی ٹی آئی سے آگے دکھایا گیا تھا، انہیں سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی جماعت نے جعلی قرار دیا۔ یہاں تک کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر کیے گئے عوامی سروے کو بھی خان نے قابل اعتبار قرار دیا جب اس کے مثبت نتائج سامنے آئے۔ نمونے کا سائز، سروے میں پوچھے گئے سوالات، آبادیاتی ساخت، صنفی تناسب وہ اہم اجزاء ہیں جو سروے کے نتائج کی درستگی کا تعین کرتے ہیں۔ لیکن پی ٹی آئی اور اس کے لیڈروں کے لیے ان اجزاء سے اس وقت تک کوئی فرق نہیں پڑتا جب تک وہ عمران خان کو ایک مقبول لیڈر کے طور پر ظاہر کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی صرف ان سروے کی ساکھ پر سوال اٹھاتی ہے جو دیگر جماعتوں کو اس سے آگے دکھاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹنے کے فوراً بعد عمران خان نے ایک سروے چارٹ دکھایا جس میں خان کو ملک کے مقبول ترین لیڈر کے طور پر دکھایا گیا تھا۔ یہ سروے ایک نجی تھنک ٹینک دی ریپبلک پالیسی نے کیا تھا۔ اس ایجنسی کو ایک ریٹائرڈ پولیس افسر چلاتا ہے۔ سیاسی پنڈتوں کے مطابق ریپبلک پالیسی کا سروے کسی مضبوط حلقے کی بنیاد پر رائے شماری کے بجائے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے سروے پر مبنی تھا۔ بہر حال، عمران خان نے خود کو ملک کے مقبول ترین لیڈر کے طور پر پیش کرنے کے لیے اس سروے کا حوالہ دیا۔ یہاں یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ عوامی انتخابی ایجنسیاں آزادانہ طور پر اور سرکاری محکموں اور سیاسی جماعتوں کے مطالبے پر بھی سروے کرتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنی مقبولیت کا اندازہ لگانے کے لیے انتخابات سے پہلے ان ایجنسیوں کو مصروف رکھتی ہیں۔