• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عورتیں شروع سے پاکستان کی پارلیمانی سیاست کا حصہ رہی ہیں۔ تعدادمیں کم ہونے کے باوجود انہوں نے ہمیشہ شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ گو کہ عورتوں کو مردوں کی طرح عام نشستوں پر انتخاب لڑنے کا حق حاصل ہے لیکن انتخابی عمل اتنا مہنگا ہے کہ عورتوں کو تو چھوڑئیے، متوسط طبقے کے مرد بھی انتخابات میں حصہ لینے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے اسی لئے عورتیں زیادہ تر مخصوص نشستوں پر ہی اسمبلیوں میں پہنچتی ہیں۔

اس بارے میں دو رائے ہو سکتی ہیں کہ انہیں وہ اہمیت نہیں ملتی جو عام نشستوں پر کامیاب ہونے والے امیدواروں کو ملتی ہے۔ مگر خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کا شروع سے یہ موقف رہا ہے کہ عورتوں کا اسمبلیوں اور مقامی حکومتوں میں نظر آنا ہی ان کی خود مختاری کی جانب ایک بڑا قدم ہے۔ اور پھر تجربے نے ثابت کیا کہ ان عورتوں نے اسمبلیوں کی کارروائی میں مردوں کے مقابلے میں زیادہ موثر طریقے سے حصہ لیا اور اپنی اہمیت منوائی۔

’’تحریک پاکستان کے دوران ہی برطانوی راج میں عورتوں نے اپنے حقوق اور نمائندگی کے لئے آواز اٹھانا شروع کر دی تھی۔1930کے عشرے میں ہونے والی گول میز کانفرنسوں میں عورتوں نے اسمبلیوں میں دس فی صد کوٹے کا مطالبہ کیا تھا۔1954میں پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی کے فائنل اجلاس میں عورتوں کے لئے صرف تین فی صد کوٹہ مختص کیا گیا۔‘‘

پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں عورتیں وزیراعظم، وفاقی وزیر ، قومی اسمبلی کی اسپیکر،اور صوبائی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بھی رہ چکی ہیں۔ محترمہ فاطمہ جناح نے ایوب خان کے خلاف صدارتی انتخاب لڑا ۔انہیں اس وقت کی حزب اختلاف کی ساری پارٹیوں نے مشترکہ طور پر اپن امیدوار نامزد کیا تھا۔ عوام میں بے پناہ مقبولیت کے باوجود سرکاری ہتھکنڈوں کی بنا پر وہ الیکشن ہار گئیں مگرجنوری 1960سے لے کر 9 جولائی 1967تک حزب اختلاف کی رہنمائی کرتی رہیں۔

بے نظیر بھٹو 1988میں پاکستان کی اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔ آئین ساز اداروں میں عورتوں کی نمائندگی میں اضافہ کے لئے مختلف حکومتوں نے مختلف اقدامات کئے ۔1956کے آئین میں یک ایوانی پارلیمان میں عورتوں کے لئے دونوں صوبوں یعنی مشرقی اور مغربی پاکستان میں پانچ پانچ نشستیں مخصوص کی گئی تھیں ۔ 1962کے آئین میں قومی اسمبلی میں عورتوں کے لئے 6 نشستیں ،مشرقی اور مغربی پاکستان کی صوبائی اسمبلیوں میں تین تین نشستیں رکھی گئی تھیں ۔ 1973کے آئین میں عورتوں کے لئے دس سال تک کے لئے دس نشستیں مخصوص کی گئی تھیں۔ دس سال بعد یہ کوٹہ ختم ہو گیا۔ اس وقت تک بھٹو کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر ضیا ا لحق کی فوجی آمریت آ چکی تھی۔ عورتوں کے حقوق کی تنظیموں نے مخصوص نشستوں کی بحالی کے لئے مہم چلائی جس کے نتیجے میں اُن کے لئے مخصوص نشستوں کی تعداد دس سے بڑھا کر بیس کر دی گئی۔2002 میں پرویز مشرف کے دور میں مخصوص نشستوں کی تعداد بڑھا کر ساٹھ کر دی گئی۔

1973کے آئین کے تحت صنفی تفاوت ختم کرنا حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔آئین کے آرٹیکل 17(2)کے تحت ہر شہری کو سیاسی پارٹی بنانے یا اس کا رکن بنانے کا حق حاصل ہے۔آئین کا آرٹیکل 34قومی زندگی اور ریاست میں عورتوں کی بھر پور شمولیت پر زور دیتا ہے۔’’قومی زندگی میں عورتوں کی بھر پور شمولیت کے لئے اقدامات کئے جائیں گے‘‘۔ آئینی ترامیم اور اقدامات کے علاوہ عورتوں کی سیاسی عمل میں شراکت میں اضافے کے لئے انتخابی قوانین بھی بنائے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر آرٹیکل 51کے تحت قومی اسمبلی میں عورتوں کے لئے 60 مخصوص نشستیں رکھی گئی ہیں، جب کہ آرٹیکل 59کے تحت سینیٹ میں میں عورتوں کے لئے 17 نشستیں مخصوص کی گئی ہیں۔

آئندہ انتخابات میں مخصوص نشستوں پر آنے والی خواتین کے لئے جو بات باعث تشویش ہے وہ یہ کہ اس مرتبہ سیاسی پارٹیاں مخصوص نشستوں کے لئے عورتوں کے ناموں کی فہرست پہلے سے الیکشن کمیشن کو نہیں بھجوائیں گی بلکہ جنرل الیکشن کے بعد عورتوں کے ناموں کی فہرست الیکشن کمیشن کو بھیجی جائے گی۔ان خواتین کو خدشہ ہے کہ جیتنے والے مرد اپنی رشتہ دار یا جاننے والی خواتین کا نام اس فہرست میں شامل کروائیں گے اور محنت کش سیاسی خواتین جو اپنی کارکردگی کی بنا پر پارٹی کی طرف سے مخصوص نشستوں پر شامل کی جاتی تھیں، اب جیتنے والے با اثر مردوں کے پارٹی پر دبائو کے نتیجے میں مخصوص نشستیں حاصل نہیں کر پائیں گی۔

2013کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں پر مختلف سیاسی پارٹیوں کے ٹکٹ پر 36 جب کہ 2008میں 34خواتین امیدوار تھیں۔ اس محدود تعداد کے باوجود مجموعی طور پر سیاسی عمل میں عورتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔، خواہ ووٹرز کی شکل میں ہوا ہو یا آزاد امیدواروں کی شکل میں۔ 2008 کی قومی اسمبلی کو صرف یہی امتیاز حاصل نہیں کہ اس نے پانچ سال کی مدت پوری کی بلکہ اس میں خواتین پارلیمینٹیرینز نے غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ بھی کیا۔ 53پرائیویٹ ممبرز بلز میں سے بیس بل خواتین نے پیش کئے۔ لیکن اس شاندار پرفارمنس کے باوجود سیاسی پارٹیوں نے عورتوں کو اتنے ٹکٹ نہیں دئیے (فافن 2012()۔ پاکستان کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں عورتوں کے لئے مخصوص نشستیں ہیں لیکن ان پر منتخب ہونے والی خواتین کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جو جنرل سیٹس پر جیت کر منتخب ہوجاتی ہیں، حالانکہ ان خواتین کی کارکردگی بدرجہا بہتر رہی ہے۔

مختلف سماجی، سیاسی اور اقتصادی عوامل کی بنا پر انتخابات میں رجسٹرڈ رائے دہندگان مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی تعداد ہمیشہ کم رہی ہے۔1950میں یہ فرق 20%،1970 میں 12% اور 1993-1997کے درمیان 10 فی صد تھا۔ سابق فاٹا اور خیبر پختونخواہ کے دور دراز کے علاقوں میں صورتحال مزیدخراب رہی ہے۔ ان علاقوں میں مرد اور عورت رائے دہندگان کے درمیان 25 تا 75فی صد کا فرق رہا ہے جب کہ باقی ملک میں یہ فرق 45تا 55 فی صد ہے۔

عورت کے رائے دہی کے حق پر اثر انداز ہونے والے دیگر عوامل میں پولنگ اسٹیشنز کا دور دراز کے علاقوں میں بنایا جانا، کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈز بنوانے میں دشواری اور پولنگ اسٹیشنز پر خواتین پری سائیڈنگ اور ریٹرننگ آفیسرز کا نہ ہونا ہے۔ پدر سری رسوم و رواج اور سماجی ادارے بھی عورت کو سیاسی عمل سے دور رکھنے کی کو شش کرتے ہیں۔ اب جب کہ انتخابات سر پر کھڑے ہیں ،رائے دہندگان خاص طور پر عورتوں کی تعداد میں اضافے کے لئے فوری اقدامات ضروری ہیں۔

2008, 2013, 2018 کے انتخابات میں ووٹرز ٹرن آئوٹ بالترتیب 45%, ,54%, 50% رہا۔ اگر 342 ارکان پر مشتمل قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر آنے والی خواتین کو نہ گنا جائے تو خواتین کی نمائندگی صرف تین فی صد رہ جاتی ہے۔ عورتوں کی کم تعداد مردانہ تسلط والی سیاسی ثقافت کا شاخسانہ ہے۔بہرحال 2017کے الیکشن ایکٹ کے تحت عورتوں کو الیکشن میں حصہ لینے سے روکنے کی کوئی بھی کوشش جرم قرار پائے گی۔اس ایکٹ کے پاس ہونے کے ایک سال بعد قومی اسمبلی کے الیکشن میں خواتین امیدواروں کی ریکارڈ توڑ تعداد سامنے آئی۔ یہ اور بات کہ 83امیدواروں میں سے صرف آٹھ خواتین جیت پائیں۔ اسی سال یعنی 2018میں ساری بڑی سیاسی پارٹیوں نے کوشش کی عورتوں کے لئے مخصوص پانچ فی صد کوٹہ کسی حد تک پورا کریں۔

بین الاقوامی پارلیمانوں کی عالمی تنظیم ’انٹر پارلیمنٹری یونین‘ کے اعدادوشمار کے مطابق 1947سے پارلیمنٹ میں عورتوں کی نمائندگی میں تبدیلی آتی رہی ہے لیکن 2002کے بعد سے کوئی آئینی ترمیم یا ساختیاتی اصلاحات ایسی نہیں ہوئیں جن سے عورتوں کی نمائندگی میں نمایاں اضافہ ہوا ہو۔

تلخ و شیریں ترقی

پارلیمنٹ میں جس طرح کا بھی صنفی تناسب رہا ہو ، عورتوں نے سیاست کے میدان میں مرد حریفوں کی بالا دستی کے باوجود اپنے آپ کو منوایا ہے۔لیکن ان علاقوں میں جب عورت الیکشن جیتتی ہے تو اس کی جیت کے پیچھے بہت سے پیچیدہ سماجی اور خاندانی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ شاذیہ محبوب تنولی کی 2022 کی تحقیق کے مطابق لوکل گوورنمنٹ کے خیبر پختونخواہ کے انتخابات میں جہاں سیاست کے میدان میں عورتوں کی ترقی نظر آئی، وہاں یہ بات بھی شدت سے محسوس کی گئی کہ پاکستان میں پارلیمنٹ میں عورتوں کی مساوی نمائندگی کے لئے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

لوکل گورنمنٹ الیکشن خیبر پختونخواہ کے سترہ اضلاع میں ہوئے۔ یہ انتخابات تاریخی اہمیت کے حامل تھے کیونکہ عورتوں نے انتہائی دقیانوسی حلقوں سے انتخاب لڑا اور مخصوص نشستوں کے علاوہ عام نشستوں پر بھی کامیاب ہوئیں۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق دسمبر 2021 میں عورتوں نے ریکارڈ تعداد میں خیبر پختونخواہ کے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا۔ تحصیل، گاؤں اور محلہ کمیٹیوں میں 35,700 امیدواروں نے انتخابات میں حصہ لیا جن میں سے 3,900خواتین تھیں۔ الیکشن کے پہلے مرحلے میں 4,214 خواتین امیدوار 2,383 نشستوں پر کھڑی ہوئی تھیںتین قبائلی اضلاع میں خواتین امیدواروں کی تعداد 591 تھی۔ لیکن یہ خواتین عوام میں جا کے اپنی انتخابی مہم نہیں چلا سکتی تھیں۔

مردان کے پلودھر گائوں کونسل 1میں زینب بی بی نے مخصوص نشست پر اور کلثوم بی بی نے جنرل سیٹ پر الیکشن لڑا ، دونوں کامیاب ہوئیں لیکن ان کی انتخابی مہم ان کے شوہر نے چلائی، دونوں سوکنیں تھیں۔انتخابی بینرز اور پمفلٹس پر بھی ان کی بجائے ان کے شوہر کے کوائف درج تھے۔یہ مثالیں پاکستان کی پدر سری ذہنیت کی عکاسی کرتی ہیں۔ آئینی تقاضے پورے کرنے کے لئے عورت کو آگے تو کر دیا جاتا ہے لیکن فیصلہ سازی کا اختیار مردوں کے پاس ہی رہتا ہے۔دنیا بھر کی پارلیمانوں میں عورتوں کی فی صد موجودگی کے لحاظ سے پاکستان کا نمبر 112ہے۔

008 2 کے انتخابات میں 34عورتوں نے پارٹی ٹکٹس پر قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا تھا اور ان میں سے صرف چھ کامیاب ہوئی تھیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے 2008میں پندرہ خواتین کو اور 2013کے انتخابات میں گیارہ خواتین کو 219 نشستوں میں سے قومی اسمبلی کی جنرل سیٹس پر ٹکٹ دیا تھا۔ اسی طرح ان دو انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم نے اپنی اکتالیس نشستوں میں سے پہلی مرتبہ آٹھ۔ خواتین کو اور دوسری مرتبہ چار خواتین کو ٹکٹ دیا تھا۔متحدہ قومی موومنٹ نے اپنی اکیاسی نشستوں میں سے 2013کے انتخابات میں سات خواتین کو جنرل سیٹس پر ٹکٹ دیا تھا(2008میں دو خواتین کو ٹکٹ دیا)۔

مقامی حکومت کے حوالے سے مشرف دور میں عورتوں کی تعداد میں قابل رشک اضافہ ہوا۔ پرویز مشرف بارہ اکتوبر 1999کو نواز شریف کی سویلین حکومت کو برطرف کر کے بر سر اقتدار آئےتو سپریم کورٹ نے انہیں جمہوریت کی بحالی کے لئے تین سال کا وقت دیا تھا۔ پہلے قدم پر 31دسمبر 2000 سے اگست 2001تک پانچ مرحلوں میں مقامی حکومتوں کے انتخابات مکمل کئے گئے۔اگست 2000 میں مشرف حکومت نے اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے منصوبے کا اعلان کیا تھا۔اس منصوبے کے مطابق عورتوں کے لئے بلدیاتی اداروں میں 33فی صد نشستیں مخصوص کی گئی تھیں۔

اپریل 2001میں ایک قومی ریفرنڈم کے ذریعے مشرف کو پانچ سال تک صدر رہنے کا حق مل گیا۔ مشرف حکومت نے اکتوبر 2002 میں قومی انتخابات کرائے۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں جلا وطن تھے۔ پیپلز پارٹی نے امین فہیم کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹر ین بنا کے انتخاب لڑا جس کے نتیجے میں پارٹی کو 7616033ووٹ ملے اور قومی اسمبلی میں پارٹی کی خواتین کو 14 نشستیں ملیں۔

پاکستان میں عورتیں شروع سے سیاست کے میدان میں اپنے حقوق اور نمائندگی کے لئے جدوجہد کرتی رہی ہیں۔ گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس نے 2016 میں پاکستان کو سب سے نچلے درجے پر دوسرے نمبر پر رکھا تھا۔عورتوں کی سیاسی عمل میں شراکت صنفی مساوات کا لازمی حصہ ہے۔پاکستان میں اس معاملے میں بھی کافی صنفی تفاوت پایا جاتا ہے۔ سیاسی عمل میں صنفی مساوات قائم کرنا ضروری ہے۔علی چیمہ اور ان کے ساتھیوں کے سروے کے مطابق پاکستان کے بڑے شہروں میں پبلک پالیسی کے دائرے میں عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کو حل کرنے کے لئے انتخابی عمل صنفی مساوات پیدا کرنا ضروری ہے۔ 

 پاکستان میں 2018 کے انتخابات میں مردوں کے مقابلے میں خواتین رائے دہندگان کی تعداد کم تھی یعنی 9 اعشاریہ 1فی صد کا فرق تھا۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ خواتین دیہات میں برادری کے رسم و رواج کی وجہ سے ووٹ ڈالنے کے لئے کم نکلتی ہیں، جب کہ شہری علاقوں میں مقامی اشرافیہ اور سیاسی رہنما عورتوں کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روکتے لیکن USIP تنظیم کی ریسرچ کے مطابق دیہی علاقوں کے مقابلے میں بڑے شہروں میں مرد اور عورت رائے دہندگان کی تعداد میں زیادہ فرق پایا جاتا ہے۔اگر 2018 کے انتخابی اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو ہرصوبے کے بڑے شہروں میں دیہات کے مقابلے میں یہ فرق زیادہ نظر آتا ہے۔

پنجاب میں لاہور میں باقی علاقوں کے مقابلے میں یہ فرق دگنا یعنی 12 اعشاریہ 5 فی صد ہے، جب کہ باقی پنجاب میں یہ جینڈر گیپ 6 اعشاریہ 3 فی صد ہے۔ 2018کے الیکشن سے پہلے الیکشن کمیشن نے بھی وزٹرز لسٹ میں عورتوں کے نام درج کرانے کی بہت کوشش کی تھی اور ان کے شناختی کارڈز بنوانے میں مدد کی تھی لیکن پھر بھی ووٹ ڈالنے والی خواتین کی تعداد کم ہی رہی۔متذکرہ بالا ریسرچ کے مطابق اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:

٭… پدر سری اصول اور قاعدے

ہمارے گھروں میں سیاسی عمل میں عورتوں کی شراکت کا فیصلہ مرد کرتے ہیں۔8 اعشاریہ 3فی صد مرد یہ سمجھتے ہیں کہ عورتوں کا ووٹ ڈالنے کے لئے گھر سے باہر نکلنا نا مناسب ہے۔ 55 فی صد مرد اس صورت میں عورتوں کو ووٹ ڈالنے سے روکنا صحیح سمجھتے ہیں ، اگر عورتیں ان کے مخالف یا نا پسندیدہ امیدوار کو ووٹ ڈالنے جا رہی ہوں۔ 43اعشاریہ 4 فی صد مرد یہ سمجھتے ہیں کہ اگر پولنگ بوتھ پر جھگڑے کا خطرہ ہو تو عورت کو گھر سے نہیں جانے دینا چاہئیے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے فارم XIV میں ایک کالم متعارف کروایا ہے۔ (یہ فارم ووٹنگ کا عمل مکمل ہو جانے کے بعد پریزائڈنگ افسر بھرتا ہے)۔

اس میں اسے خواتین وزٹرز کی تعداد درج کرنا ہو گی جس سے الیکشن کمیشن کو ملک بھر میں ووٹ ڈالنے والی خواتین کی تعداد کا اندازہ ہو جائے گااور الیکشن کمیشن عورتوں کے کم ووٹوں کی صورت میں قانونی کارروائی کر سکے گا۔ بہر حال ایک اچھی بات یہ ہے کہ آنے والے 2024 کے الیکشن کے لئے عورتوں کے ووٹوں میں 11 اعشاریہ 74 ملین عورتوں کا اندراج ہوا ہے۔یوں صنفی تفاوت کچھ کم ہوا ہے۔2018 کے جنرل الیکشن کے مقابلے میں اب ووٹرز کی مجموعی تعداد 127 ملین ہو گئی ہے۔

پچھلی مرتبہ یہ تعداد 106 ملین تھی۔ الیکشن کے حوالے سے کام کرنے والی پاکستان کی مشہور تنظیم ’’فافن‘‘ کے مطابق شہری زندگی کے مختلف پہلوؤں میں حصہ لینے کے لئے عورتیں گھر کے مردوں پر انحصار کرتی ہیں۔شناختی کارڈ کے حصول کے لئے بھی گھر کے مرد کی موجودگی ان کے لئے ضروری ہوتی ہے۔الیکشن میں ووٹ کسے ڈالنا ہے، اس کا فیصلہ بھی گھر کے سربراہ کی مرضی سے کیا جاتا ہے۔

ایسے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں کہ خواتین کے شناختی کارڈ گھر کے سربراہ کے قبضے میں ہوتے ہیں اور وہ ان کی طرف سے ووٹ ڈالنے کا حق استعمال کرتا ہے۔یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ عورتیں زیادہ تر گھریلو ملازماوءں کے طور پر یا فیکٹریوں میں کام کرتی ہیں اور انہیں ووٹ ڈالنے کے لئے وقت نکالنا مشکل لگتا ہے۔ اسٹڈی سے یہ بھی پتہ چلا کہ عورتوں کی اکثریت کو خاص طور پر دیہاتی علاقوں میں پولنگ کے عمل کی آگاہی نہیں ہوتی۔ لیکن پولنگ اسٹاف ان کی مدد کرنے کی بجائے ڈانٹ ڈپٹ سے کام لیتے ہیں۔ پولنگ اسٹیشنز پر گھنٹوں قطار میں لگے رہنے سے بھی عورتوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ پولنگ اسٹیشنز پر عورتوں کو ہراساں کئے جانے کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔انتخابی فہرستوں میں عورتوں کے ناموں کے غلط اندراج کی وجہ سے بھی عورتیں ووٹ کا حق استعمال نہیں کر پاتیں۔