اسلام آباد (انصار عباسی) اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی نے کہا ہے کہ اُن کے پاس ٹھوس ثبوت موجود ہے کہ جنرل (ر) فیض حمید نے ان کی رہائش گاہ پر 2018ء میں دو مرتبہ ملاقات کی تھی۔،
ثاقب نثار سے کمیشن بنانے کیلیے کہا تھا،خط میں لکھامیرے ادارے کی آزادی کو فوج کے افراد کی مداخلت سے نقصان ہوا ، نشاندہی پر ریفرنس کاسامنا کرنا پڑا.
دی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نہ صرف ان کے پاس گواہوں کی فہرست موجود ہے بلکہ اپنا الزام ثابت کرنے کیلئے ٹھوس ثبوت بھی موجود ہے کہ جس وقت وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر جج تھے تب اُس وقت کے ڈی جی (سی) آئی ایس آئی میجر جنرل فیض حمید دو مرتبہ اُن کے یہاں آئے تھے۔
شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ اگر ضرورت پیش آئی تو وہ سپریم کورٹ کے روبرو ثبوت پیش کر دیں گے۔ اس وقت سپریم کورٹ اکتوبر 2018ء میں سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے شوکت عزیز صدیقی کو عہدے سے ہٹائے جانے کیخلاف ان کی اپیل کی سماعت کر رہی ہے۔
جنرل (ر) فیض حمید اور دیگر کی جانب سے اس کیس میں جمع کرائے گئے جوابات کا حوالہ دیتے ہوئے شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ ان جوابات میں میرے عائد کردہ الزامات سے انکار کے نتیجے میں ایک بات ثابت ہوگئی ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے اس کیس میں تحقیقات کیے بغیر ہی انہیں عہدے سے ہٹا دیا تھا۔
صدیقی نے کہا کہ 22؍ جولائی کو راولپنڈی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کے ایک دن بعد انہوں نے باضابطہ طور پر اُس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار سے رابطہ کرکے درخواست کی تھی کہ خطاب میں انہوں نے جو الزامات عائد کیے تھے اُن کی کی سچائی اور درست ہونے کی تحقیقات کیلئے ایک کمیشن تشکیل دیا جائے۔
چیف جسٹس کو لکھے گئے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ، ’’اگر آزاد کمیشن یہ کہتا ہے کہ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی کے اجلاس میں پیش کیے گئے حقائق میں صداقت نہیں تو میں نتائج بھگتنے کیلئے تیار ہوں لیکن اگر میرے پیش کردہ حقائق درست ثابت ہوئے تو اُن لوگوں کا کیا ہوگا جو عدالتی نظام میں چھیڑ چھاڑ میں ملوث ہیں، پھر چاہے وہ حاضر سروس فوجی ہی کیوں نہ ہوں؟‘‘
انہوں نے ثاقب نثار سے یہ بھی درخواست کی کہ اس کمیشن کے ذریعے کھلی تحقیقات کیلئے ہدایات جاری کریں تاکہ میڈیا، سول سوسائٹی اور وکلاء برادری بھی کارروائی میں شرکت کر سکے۔
اسی خط میں شوکت عزیز صدیقی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ بات تشویشناک ہے کہ میرے ادارے کی آزادی کو فوج اور اس کی ایجنسیوں کے چند افراد کی مداخلت کی وجہ سے نقصان ہوا ہے۔ میں نے مختلف مواقع پر اس مداخلت کی نشاندہی کی جس کی وجہ سے مجھے اس ریفرنس کے ساتھ ایک اور من گھڑت ریفرنس کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
انہوں نے چیف جسٹس کو لکھا تھا کہ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کی ایگزیکٹو باڈی نے اپنے صدر کے توسط سے مجھے 21 جولائی 2018 کو بار سے خطاب کیلئے مدعو کیا اور میں نے اسی بار کا رکن ہونے کی حیثیت سے دعوت قبول کی۔
اپنے خطاب کے دوران، میں نے آئین کے نفاذ، قانون کی حکمرانی، بار اور بینچ کی آزادی اور انصاف کی فراہمی سے متعلق کچھ مروجہ حقائق پیش کیے، ایسا لگتا ہے کہ میرے پیش کردہ حقائق سے کچھ حلقوں کے لوگ ناراض ہوگئے
اس پر میرے خلاف سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر جھوٹی اور بدنیتی پر مبنی مہم چلائی گئی۔ مجھے سوشل میڈیا اور معزز سپریم کورٹ کی پریس ریلیز کے ذریعے معلوم ہوا کہ آپ جج صاحبان نے بھی میرے پیش کردہ حقائق کی تصدیق کیے بغیر ناراضی کا اظہار کیا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ آپ کی طرف سے میرے خلاف غصہ کوئی نئی اور غیر معمولی بات نہیں۔ بعد میں کوئی کمیشن تشکیل نہیں دیا گیا اور شوکت عزیز صدیقی کو سپریم جوڈیشل کونسل نے بغیر انکوائری برطرف کر دیا۔