تحریر:…حسن نورعین قونصل جنرل ایران(کراچی) ایران میں ایک مقبول کہاوت ہے کہ ’’ اچھے ہمسائے اس خاندان سے بہتر ہوتے ہیں جو دوردراز ہوں۔ ایران اور پاکستان دو برادر اسلامی ملک ہیں جن کے چیلنج بھی ایک سے ہیں اور مواقع بھی ایک سے ہیں۔دونوں ہی دہشتگردی سے متاثر ہیں اور اس کے نتیجے میں گزشتہ دہائیوں کے دوران بہت سے شہریوں اور فوجی عملے کے ارکان کو سرحد کے دونوں جانب ہدف بنایا گیا ہے۔1979 میں اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد سے اب تک 17 ہزار ایرانی بشمول سابق صدر رجائی وزیراعظم باہونار، چیف جسٹس بہشتی، 72 ارکان پارلیمان ، مذہبی اسکالرز ، سائنسدان اور فوجی کمانڈروں کو شہید کیاگیا ہے اور اب ایران دنیا بھر میں دہشت گردی کا شکار بننے والا بڑاملک تصور کیاجاتا ہے۔ایران کے جنوب مشرق، بلوچستان کے علاقے میں ہونے والے حالیہ واقعات میں ایران کے سرحد ی محافظوں کو ایک دہشت گردگروپ نے ہدف بنایا جسے جیش العدل کے نام سے جانا جاتا ہے۔اب یہ گروہ ایک اور آپریشن کی تیاری کررہا تھا جس میں ایرانی شہریوں اور سرحدی محافظوں کو قتل کیاجانا تھا۔ یہ گروپ جو ایرانی علاقے میں گھسنے کی کوشش کر رہا تھا تاکہ ایک ہولناک حملہ کر سکے مگر ایرانی سرحد ی ٹاسک فورس نے اسے روک دیا۔ایرانی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں واضح کیا کہ یہ ( ایرانی اقدام) محض اس حملے سے بچائو کےلیے تھا اور اس کا مقصود ہرگز پاکستان کی خود مختاری کو بے توقیر کرنا نہیں تھا۔دونوں برادر ممالک کیلیے یہ وجہ مکمل طور پرقابل فہم ہے اور انہوں نے اس معاملے کو مذاکرات اور سفارتی چینلز کے ذریعے فوری طور پر مینیج بھی کیا۔خوش قسمتی سے دونوں ممالک کے سفرا اپنے اپنے منصب پر لوٹ آئے ہیں اور ایرانی وزیرخارجہ 29 جنوری کو اپنے پاکستانی ہم منصب کی دعوت پر پاکستان آنے والے ہیں۔اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ دونوں ممالک معقولیت اور حکمت پر مبنی آوازوں کو استعمال کرنے کیلیے کوشاں ہین تاکہ اپنے مشترکہ چیلنجوں سے نمٹ سکیں اوریہ کہ وہ برادارانہ باہمی شکایات کو بدخواہوں کے ہاتھوں استعمال ہونے سے گریز کرسکیں۔دونوں ممالک کے تعلقات کی تاریخ کا ایک مختصر جائزہ لیاجائے تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ایران وہ پہلا ملک تھا جس نے 1947میں پاکستان کی آزادی و خودمختاری کو تسلیم کیا اور اس کے محض40دن کے اندر کراچی میں اپنے سفارتخانے کا افتتاح کیا جو اس وقت پاکستان کا دارلحکومت ہوا کر تا تھا۔دونوں ممالک ایک دوسرے کی مشکل گھڑیوں میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہے اور تمام علاقائی اور بین الاقوامی سطح کے فورمز پر ایک دوسرے کی حمایت کرتے رہے۔اس صورتحال کے فہم کا ایک طاقتور شعور ( دونوں اطراف ) میں موجود ہے اور توق ہے کہ دونوں ممالک مل کر دہشت گردی اور علیحدگی پسند گروہوں کے خلاف لڑیں گے۔ آج کل کی صورتحال میں اسلامی دنیا کا سب سے بڑے خدشات فلسطین کے معاملے سے متعلق ہیں اور کوئی چیز ایسی نہیں جو ہماری توجہات کو اس اہم موضوع سے ہٹا سکے۔( توقع کی جاتی ہے کہ ) دونوں ہمسایہ اسلامی جمہوریتیں اپنے قابل فخر امکانات ( پوٹینشلز) کے ذریعے باہمی علاقائی اور بین الاقوامی معاملات کے حل کےلیے اپنا اہم کردار ادا کرنے کےلیے مشترکہ کوششیں کریں گی۔اب عمائدین، تھنک ٹینکس، پالیسی سازوں، سفارتکاروں، محققین، معروف صحافیوں، قائدانہ کردار ادا کرنے والی این جی اوز کی باری ہے کہ وہ ایران پاکستان تعلقات کو مضبوط بنانے اور انہیں برقرار رکھنے کیلیے مثبت کوششیں کریں۔