پاکستان میں 1988ء میں ہونے والے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے چھوٹی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کر کے ایک مخلوط حکومت قائم کی تھی اور بے نظیر بھٹو نے ملک کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم کا حلف اُٹھایا تھا، اس طرح 11 برس بعد پیپلز پارٹی ملک پر دوبارہ برسر اقتدار آئی تھی۔
اس الیکشن میں اور بھی دلچسپ چیزیں سامنے آئی تھیں، پیپلز پارٹی کی یہ حکومت 20 ماہ تک ہی اقتدار میں رہی اور اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے بد عنوانی اور لاقانونیت کے الزامات عائد کرتے ہوئے حکومت کو 6 اگست 1990ء میں بر طرف کر دیا تھا۔
1988ء میں این اے 28 قبائلی علاقہ کے انتخابی نتائج کی ایک خوبی یہ تھی کہ اس حلقے سے چار امیدوار نہ تو دستبردار ہوئے اور نہ خود کو ووٹ دیا، پاکستان بھر میں یہی چار امیدوار تھے جنہیں کوئی ووٹ نہیں ملا، یہ امیدوار حاجی باز گل منگل، حاجی حمید خان، حاجی خائستہ جان منت وال اور حاجی خواجہ محمد خان مسوزئی تھے۔
1988ء کے عام انتخابات میں ملک بھر میں سب سے زیادہ ووٹ کراچی سے حق پرست امیدوار سید محمد اسلم نے حاصل کیے تھے، ان کے ووٹوں کی تعداد 131012 تھی جبکہ قبائلی علاقوں کو چھوڑ کر پورے ملک میں سب سے کم ووٹ سرحد (خیبر پختونخوا) کے سابق وزیرِ اعلیٰ، گورنر اور آئی جے آئی کے امیدوار لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فضل حق نے حاصل کیے تھے ان کے ووٹوں کی تعداد 5525 تھی۔
این اے 37 راولپنڈی سے 5 امیدواروں نے الیکشن میں حصہ لیا تھا جن میں سے 3 راجہ برادری سے تعلق رکھتے تھے، اس حلقے سے راجہ محمد ظہیر کامیاب ہوئے تھے جبکہ راجہ امیر اکبر اور راجہ پرویز کو شکست ہوئی تھی۔
1988ء کے عام انتخابات میں این اے 33 قبائلی علاقے سے ایک ایسے امیدوار نے الیکشن لڑا تھا جس کا نام ’ہندوستان‘ تھا، اسے صرف تین ووٹ ملے تھے۔
الیکشن 88 میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 4 کروڑ 62 لاکھ 77 ہزار 105 تھی جبکہ 2 کروڑ 13ہزار 30 ووٹ ڈالے گئے جن میں 3 لاکھ 13 ہزار 872 مسترد ہوئے تھے، اس طرح ٹرن آؤٹ 42 اعشاریہ 7 فیصد رہا۔