• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نمازِ وتر اور دُعائے قنوت کی فضیلت و اہمیت

پروفیسر خالد اقبال جیلانی

اللہ تعالیٰ کا ہم پر یہ کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں اشرف المخلوقات یعنی انسان پیدا کیا ’’احسن تقویم‘‘ (حسین ترین مخلوق) کی خلعتِ فاخرہ سے سرفراز کیا اس سے بھی بڑھ کر انعام یہ کہ ’’خیرامت‘‘ کا تاج پہنا کر اربوں کھربوں انسانوں میں سے ہمیں مسلمان بنایا اور اپنی سب سے بہترین نعمت دینِ اسلام ہمیں نظام حیات کے طور پر عطا کی۔

ان تمام مہربانیوں، احسانات اور انعامات کے عطا ہونے کے بعد کیا اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی گزارنے کے حوالے سے ہمارا یہ رویہّ یا طرز عمل درست ہوگا کہ ہم اس وقت ایمان کے جس درجے پر ہیں اور اعمال کے اعتبار سے ارکان اسلام پر جس حد تک عمل پیرا ہیں اسی حد پر آکر رک جائیں یا ’’جیسے مسلمان ہیں‘‘ اُسی پر بس کر کے بیٹھ جائیں اور اپنے ایمان کو مزید پختگی دینے اور خود کو اللہ و رسولﷺ کو مطلوب بلند ایمانی درجات تک لے جانے کے ساتھ علم وعمل اور اخلاق و کردار کی پسندیدہ ترین سطح سے ہمکنار کر کے اچھے سے اچھا بنانے کی کوئی کوشش نہ کریں۔ 

اپنے ظاہر و باطن کی تربیت کرکے اسے خوب سے خوب تر کی شکل عطا کرنے کی فکر نہ کریں۔ اپنی شخصیت یا ذات یعنی اپنے نفس ، قلب، ذہن، روح یا ضمیر پر زیادہ سے زیادہ توجہ دےکر اسے اللہ و رسول ﷺکی نظر میں جاذب، خوبصورت و حسین ترین بنانے اور نشونما دینے کی محنت نہ کریں۔ اپنے اعمال و عبادات کو ’’احسنِ تقویم‘‘ اور’’ خیرامت‘‘ کے شایان شان اور لائق اعزاز ثابت کرنے کی کوئی تگ ودو نہ کریں۔ 

ہمارا حال یہ ہے کہ اگر آپ مختلف لوگوں سے سوال کریں کہ آپ کی عمر کتنی ہے؟ جواب آئے گا تیس، چالیس، پچاس ، ساٹھ ، ستر یا اَسی سال، کیا آپ نماز پڑھتے ہیں؟ جی ہاں، کب سے؟ بچپن سے، کیا آپ کو دعائے قنوت یاد ہے تو ۔ اکثریت کا جواب نفی میں ہوگا۔ اگر اس سے آگے بڑھ کر پوچھا جائے کہ آپ کو قرآن کی کتنی سورتیں یاد ہیں، دو تین، کون کون سی؟ جواب والعصر ، انّا اعطینک، قل ھُو اللہ۔

سوچئے ! غور کیجئے !! بحیثیت مسلمان ہماری زندگی کے چالیس، پچاس، ساٹھ ، ستر سال بیت چکے اور ہمیں قرآن کی صرف دو مختصر ترین سورتیں یاد ہیں ۔ غور و فکر کرنے کی بات یہ ہے کہ جس بد حالی اور دین کی بنیادی تعلیم سے بے بہرگی کے عالم میں ہم زندگی کی ’’ففٹی‘‘ پر پہنچ گئے ، کیا بقیہ زندگی بھی ایسی ہی لا علمی اور جہالت میں گزاریں گے۔ کیا آئندہ کی نمازیں بھی یونہی دعائے قنوت کے بغیر ٹوٹی پھوٹی ٹرخاتے رہیں گے۔ مقامِ عبرت یہ ہے کہ ان ہی میں بہت سے ایسے مسلمان بھی ملیں گے جنہیں اللہ نے مال و دولت عطا کیا ہے اور وہ بفضلِ الہٰی ہر سال حج و عمرہ کی سعادت بھی حاصل کرتے ہیں، مگر حرمین شریفین مکہ و مدینہ کی ایک فرض نماز ،جو ایک لاکھ نمازوں کے ثواب کی حامل مقدس نمازیں بھی صرف سورۂ کوثر اور سورۂ اخلاص کے ساتھ بغیر دعائے قنوت ہی کے پڑھ آتے ہیں۔

نماز وتر اور اس میں دعائے قنوت کا پڑھنا ، دونوں ہی بڑی فضیلت اور اہمیت کے حامل ہیں۔ جامع ترمذی اور سنن ابو داؤد کی ایک روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ صحابہ ؓکی ایک جما عت کے پاس تشریف لائے اور ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی نمازسے تمہاری مدد کی ہے (یعنی پنج گانہ نمازوں سے ایک زیادہ نماز اور تمہیں دی ہے ) جو تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے اور وہ وتر کی نماز ہے اور تمہارے لئے یہ نماز عشاء کی نماز کے بعد سے فجر کا وقت شروع ہونے کے درمیان مقرر کی گئی ہے۔ ’’یعنی اُس وقت کے درمیان جب چاہو پڑھو‘‘ ۔( جامع ترمذی ، سنن ابو داؤد) چونکہ عرب میں اونٹ بہت قیمتی اور عربوں کے لئے مال و متاع میں یہ سب سے زیادہ عزیز ہوتے تھے، اس لئے رسول اللہ ﷺ نے رغبت دلانے کے لئے قیمتی ترین نسل کے سرخ اونٹوں سے بہترکہہ کر اس کی فضیلت کو اجاگر کیا۔ 

یعنی وتر کی نماز سرخ اونٹوں کی طرح دنیا کی تمام مال و متاع سے بہتر ہے۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’ جو وتر نہ پڑھے اس کا ہماری جماعت سے کوئی تعلق نہیں ۔ (ابوداؤد، حاکم) یعنی اس کا امت سے تعلق نہیں۔ وتر کی اسی اہمیت کے پیش نظر امام ابو حنیفہؒ اسے واجب کہتے ہیں۔ 

حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے وصیت فرمائی ’’سونے سے پہلے وتر پڑھ لیا کرو‘‘۔ (بخاری و مسلم) ایک اور روایت میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’ تم وتر کو رات کی آخری نماز بناؤ‘‘ ۔ احناف کے نزدیک وتر کی تین رکعات ہیں اور اس کی تیسری رکعت میں فاتحہ اور قرأت کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے اللہ اکبر کہتے ہوتے رفع یدین کرکے دعائے قنوت پڑھی جاتی ہے۔ ایک روایت ہے کہ وتر (یعنی طاق عدد ) اللہ کو بہت پسند ہے اور اللہ نے قرآن میں وتر (طاق اعداد ) کی قسم بھی کھائی ہے۔ قنوت کے معنی ہیں اطاعت کرنا، نماز میں کھڑے ہونا، اللہ کے سامنے عاجزی اورانکساری کا اظہار کرنا۔

یہ ہماری انتہائی غفلت ، سستی، کاہلی اور دین کے اس مختصر ترین عمل سے بے اعتنائی ہے کہ اکثریت کو دعائے قنوت یاد نہیں اور دعائے قنوت کے بجائے اور کوئی قرآنی دعا جیسے ’’ربّنااتنا‘‘ وغیرہ سے کام چلاتے ہیں۔ ٹھیک ہے کہ اس سے بھی نماز وتر ہو جاتی ہے، لیکن یہ ایک عارضی وقتی رعایت ہے کہ جب تک دعائے قنوت یاد نہیں ہو جاتی ،کوئی اور دعااس کے بجائے پڑھ لی جائے، لیکن اس عارضی رعایت اور سہولت کو ہماری اکثریت خصوصاً نوجوانوں نے ایک مستقل بندوبست بنا لیا۔ان کی توجہ اور دھیان اس طرف جاتا ہی نہیں کہ وتر کو درست اورقابل عمل بنانے کے لئے دعائے قنوت کا یاد کرنا از بس ضروری اور لازم ہے ۔ کیوں کہ دعائے قنوت نماز وتر کا اصل جوہر اور معراجِ عبادت ہے۔

دعائے قنوت کا پورا متن اور مضمون پر اگر غور کیا جائے تو یہ اللہ سے استعانت و مدد طلب کرنے، اس سے مغفرت کے خواستگار ہونے، اللہ پر ایمان لانے اور اسی پر بھروسا کرنے کے ساتھ اس کی خوب اچھی تعریف کرنے ، اس کا شکر بجالانے اور کفر نہ کرنے کے اقرار کے ساتھ ہر اس شخص اور جماعت سے ترکِ تعلق اور بےزاری کا عہد و اعلان ہے جو اللہ کی نافرمانی کرتا ہے اور اللہ کے عذاب سے ڈرنے کے متن پر مشتمل ہے۔درحقیقت دعائے قنوت ایک وعدہ اور عہد ہے۔

ہمیں چاہئے کہ ہمیں اگر دعائے قنوت یاد نہیں تو اس غفلت کے حجاب اور کوتاہی و سستی کو ترک کر کے پہلی فرصت میں دعائے قنوت کو اولین ترجیح دیتے ہوئے یاد کریں۔ والدین اپنے بچوں کو دعائے قنوت یاد کرائیں اور اس کی اہمیت سے آگاہ کریں، ورنہ نماز تو اس کی بھی ہوجاتی ہے، جو کچھ بھی نہیں جانتا اور صرف خاموش کھڑا رہتا ہے۔ 

جھکتا ہے، سجدہ کرتا، لیکن کیا ایسی نماز اور کسی علم والے ، متقی خدا کا حکم ماننے والے کی، نماز میں کوئی فرق اور امتیاز و اہمیت میں، زمین وآسمان کا فرق نہیں ہوگا۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ اپنے اعمال میں بہتری نہ لا کر کیا آخرت میں اپنی بیس ، تیس، چالیس، پچاس، ساٹھ ستر سالہ زندگی کو ’’جیسی ہے اور جہاں ہے ‘‘ کی بنیاد پر ہی اللہ کی جناب میں جنت کی طلب میں پیش کر دیں گے اور اللہ اسے قبول کر لے گا۔ اللہ ہمیں غفلت سے نجات دے اور دین کی کم از کم بنیادی تعلیم کو سیکھنے سکھانے کی توفیق عطا فرمائے ۔(آمین)