• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی میں اعلی ثانوی تعلیمی بورڈ کے تحت انٹر سال اول کے نتائج پر ہر کوئی حیران ہے کہ نتائج کا تناسب اتنا کم کیوں رہا اور میٹرک میں اے ون اور اے گریڈ لانے والے بچوں کی بڑی تعداد انٹر سال اول میں کم نمبر یا فیل کیوں ہوگئی۔

گزشتہ دنوں انٹر آرٹس سال اول ریگولر کے نتائج میں 80فیصد اور انٹر آرٹس سال اول پرائیویٹ میں 72فیصد امیدوار ناکام ہوئے ،جبکہ کامرس پرائیویٹ سال اول میں 63فیصد امیدوار ناکام ہوئے، اس سے قبل انٹر سال اول پری میڈیکل میں صرف 36.51 پری انجینئرنگ سال اول میں 34.79 فیصد اور سال اول سائنس جنرل( کمپیوٹر) کے نتائج میں 38.69 فیصد امیدوار ہی کامیاب ہوسکے تھے وہ بھی انتہائی کم نمبروں سے پاس ہوئے، جس سے طلبہ کا مستقبل متاثر ہونے کا خطرہ ہے کیونکہ پروفیشنل جامعات اور کالجز میں انٹر سال اول کے نمبروں کی بنیاد پر داخلہ ہوتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ صورتحال کیوں پیدا ہوئی؟ اس کی کچھ ذمہ داری محکمہ کالج ایجوکیشن پر بھی عائد ہوتی ہے کیونکہ کالجوں میں طلبا کی حاضری بہت کم ہوتی ہے اور پڑھائی پر بھی توجہ نہیں دی جاتی لیکن اصل پہلو یہ ہے کہ انٹر بورڈ کراچی میں اس وقت مستقل چیرمین، کنٹرولر اور سکریٹری موجود نہیں ہیں، چیرمین کے عہدے کا چارج کمشنر کراچی کے پاس ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بورڈ باقاعدگی سے نہیں آتے یہی صورتحال پورے سندھ کے تعلیمی بورڈز کی بھی ہے۔ 

اس وقت آٹھ تعلیمی بورڈز میں چیرمین، ناظم امتحانات، سکریٹریز اور آڈٹ افسران کے عہدے خالی ہیں، تاہم اندرون سندھ نتائج اتنے بہترین آتے ہیں کہ حیرانی ہوتی ہے ،لیکن جب یہ بچے جامعہ این ای ڈی، دائود انجینئرنگ، آئی بی اے کراچی اور ایم ڈی کیٹ کا ٹیسٹ دیتے ہیں تو ان میں سے اے ون گریڈ لانے والے اکثر بچوں کی قابلیت کا پول کھل جاتا ہے۔

صاحب ثروت افراد تو اپنے بچوں کو بہترین اور معیاری تعلیم دلانے کے لیے O اور A لیول کرا لیتے ہیں ،جہاں نتائج بھی وقت پر آتے ہیں لیکن عوام کی بہت بڑی اکثریت عام پرائیویٹ اور سرکاری اسکولوں کی طرف رخ کرتی ہے ، جہاں سے وہ میٹرک اور انٹر میڈیٹ کرتے ہیں لیکن وہاں نتائج کبھی وقت پر جاری نہیں ہوتے اور جب جاری ہوتے ہیں تو ان کی شفافیت پر سوالات اٹھتے ہیں۔

بدقسمتی سے پاکستان میں تعلیم کبھی کسی حکومت کی ترجیح نہیں رہی اور نہ ہی انھیں کسی تکلیف کا احساس ہوتا ہے، چناچہ کراچی کے انٹرمیڈیٹ سال اول کے متاثرہ بچے مظاہرہ و احتجاج کررہے ہیں، طلبا کا مطالبہ ہے کہ بورڈ انتظامیہ اور والدین پر مشتمل کمیٹی قائم کی جائے، طلبا نے نتائج منسوخ کرنے کا بھی مطالبہ کیا،ان کا کہنا ہے کہ پیپرز کی ری چیکنگ قبول نہیں کریں گے، ان کی کاپیاں دوبارہ چیک کی جا ئیں اور درست نمبرز دیے جائیں ،مگر حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ 70 سے 80 فیصد بچے فیل ہوگئے ہیں ، یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ ان کا مستقبل تو مخدوش ہوگیا ہے۔ 

اگر چہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے انٹر بورڈ کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کمشنر کراچی کو بچوں کی شکایت دور کرنے کی ہدایت کی ہے، مگر بورڈز سے متعلق اختیارات تو وزیر اعلیٰ کے پاس ہیں، چناچہ بچوں کوئی بڑا ریلیف ملنے کا امکان ممکن نظر نہیں آتا۔ بچوں سے اسکروٹنی کرانے کا کہا گیا ہے جب کہ اسکروٹنی میں ری ٹوٹلنگ ہی کی جاتی ہے کاپی دوبارہ نہیں جانچی جاتی تو طلبہ کو انصاف کیسے ملے گا۔ طالب علموں کا مؤقف ہے کہ ان کے والدین امتحانات کی اسکروٹنی کی فیسیں ادا نہیں کرسکتے ۔ وہ کیسے کامیاب ہوں گے یا ان کے نمبر کیسے بڑھیں گے، ان سوالات کا جواب کسی کے پاس نہیں۔

جب تک بورڈز کی کنٹرولنگ اتھارٹی گورنر سندھ کے پاس تھی تو صورتحال کافی بہتر تھی کیونکہ گورنر کالجوں کے پروفیسرز کو میرٹ پر تعینات کرتے تھے، مگر جب قانون سازی کرکے کنٹرولنگ اتھارٹی وزیر اعلیٰ سندھ کے پاس آئی تو تباہی کی ابتداء ہوئی اور اہم عہدوں پر سیاسی اور سفارشی تقرریوں کا سلسلہ شروع ہوا اور جب کنٹرولنگ اتھارٹی صوبائی وزیر تعلیم اسماعیل راہو کو دی گئی تو تباہی کی انتہا ہوگئ انھوں نے وہ کا م کیے جو سندھ حکومت کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوئے۔ ایک بورڈز سے دوسرے بورڈز میں تبادلے کا دروازہ کھولا گیا۔ چیرمین اور کنٹرولرز ایک بورڈ سے دوسرے بورڈ میں لائے گئے ،جب کہ ہر بورڈ کا ایکٹ جدا ہے صرف میٹرک بورڈ کراچی میں ایک سال میں چار کنٹرولرز بدلے گئے۔ 

سرچ کمیٹی کے ذریعے چیرمین اور کنٹرولرز کی تقرری کو جان بوجھ کر روکے رکھا گیا ،تاکہ سفارشی اور سیاسی لوگ بدستور ان عہدوں پر تعینات رہیں حالانکہ سپریم کورٹ نے ریٹائرڈ، ڈیپوٹیشن، ڈیٹلمنٹ اور کم گریڈ کے افسران کی تعیناتی پر پابندی عائد کررکھی تھی ،مگر بورڈ میں سپریم کورٹ کے احکامات کو نظر انداز کیا گیا اسی دوران نگراں حکومت قائم ہوئی تو نگراں حکومت نے بورڈز میں خلاف ضابطہ تعینات چیرمین، کنٹرولرز اور سکریٹریرز کو فارغ کردیا اور چیرمین کے عہدوں کا چارج کمشنرز کو دے دیا، تاہم حیدرآباد کے ڈپٹی کنٹرولر مسرور زئی جو گزشتہ 11 برس سے خلاف ضابطہ کنٹرولر کے عہدے پر تعینات ہیں۔ مزید اسٹے لینے میں کامیاب ہوگئے۔ 

نگراں حکومت نے چیرمین، کنٹرولرز، سکریٹریز اور آڈٹ افسران کے عہدوں کے لیے اشتہار دیا تو چیئرمین سرچ کمیٹی ڈاکٹر طارق رفیع نے تعلیمی بورڈ ز میں جلد چیر مین، سکریٹریز، ناظم امتحانات اور آڈٹ افسران کے تقرر کے معاملے میں نگراں وزیر اعلی جسٹس (ر) مقبول باقر کو ڈاکٹر محمد میمن اور محمد حسین سید کے ناموں پر مشتمل سمری بھیجی تھی جو ایک ماہ تک وزیر اعلیٰ ہاؤس میں پڑی رہی اور ڈاکٹر طارق رفیع کے دونوں نام مسترد کر کے ان کی جگہ دو بیوروکریٹس انوار حیدر اور مختیار سومرو کو شامل کر دیا گیا۔ 

ان دونوں افراد کو تعلیمی بورڈز سے متعلق کوئی تجربہ نہیں ہے، جبکہ صوبائی ایچ ای سی کی جانب سے بھیجے گئے ناموں میں سے محمد حسین سید سابق سیکرٹری بورڈز اینڈ یونیورسٹیز اور ڈاکٹر محمد میمن حیدر آباد بورڈ کے چیر مین رہ چکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق تعلیمی بورڈز میں افسران کی بھرتیوں کا عمل پس پردہ سرچ کمیٹی یا سیکرٹری بورڈز اینڈ جامعات کے بجائے سیکرٹری صحت کے ہاتھ میں ہے ۔جب تک ان عہدوں پر سرچ کمیٹی کے مقرر کردہ نام فائنل ہوں گے اس وقت تک نئی حکومت قائم ہوچکی ہوگی لیکن سوال پھر بھی یہی ہے کہ کراچی کے جن بچوں کو فیل کردیا گیا یا ان کے نمبرکم آئے ان کا کیا ہوگا؟ اس وقت بورڈ میں کنٹرولنگ اتھارٹی کے بجائے کمشنر کراچی کے مقرر کردہ ڈپٹی کنٹرولر کے پاس کنٹرولر اور ڈپٹی سکریٹری کے پاس سکریٹری کے عہدے کا چارج ہے جو ماضی میں بورڈ میں بطور کلرک بھرتی ہوئے تھے اور ترقی کرتے کرتے یہاں تک پہنچ گئے۔ 

لیکن حل یہی ہے کہ ان عہدوں پر سرچ کمیٹی کے ذریعے مکمل میرٹ کے ساتھ تعیناتی کی جائے اور ان عہدوں کو ایڈھاک نہ چھوڑا جائے اور ساتھ ہی کنٹرولنگ اتھارٹی تبدیل کر کے واپس گورنر کو دی جائے کیونکہ وزیر اعلیٰ سیاسی اور سفارشی مصلحتوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس وقت انٹر بورڈ میں 7 ہزار سے زیادہ اسکروٹنی فارم جمع ہوچکے ہیں جو ایک ریکارڈ ہے۔ ماضی میں کبھی چند سو سے زیادہ اسکروٹنی فارم جمع نہیں ہوئےتھے۔ اس وقت ایسے طلبہ کی تعداد درجنوں میں ہے ،جن کے میٹر ک میں90 فیصد نمبر آئےتھے، مگر انٹر سال اول میں یا تم نمبر بہت کم ملے یا فیل ہوگئےہیں۔ یہ لمحہ فکریہ ہے۔

اسکروٹنی کی بنیاد پر ان کے ساتھ انصاف کیا جائے ، اگر ایسا نہ ہوا تو بچوں اور والدین کا احتجاج بڑھے گا جو بچے تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ ایسی صورت حال سے نااُمید ہوکر اپنی پڑھائی کو خیرباد نہ کہہ دیں ۔