وہ بڑے انہماک سے فون پر دوسری طرف کی گفتگو سن رہی تھیں ۔ببلی نے کتنی مرتبہ انھیں اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی لیکن ، مجال ہے جو انھوں نے توجہ دی ہو۔ پہلی مرتبہ اس کے ہاتھ جھٹکے ، تو دوسری دفعہ ، ہوں ہوں کرکے انتظار کرنے کا اشارہ کیا ، تیسری مرتبہ سخت نظروں سے گھورا، اور چوتھی مرتبہ تو بات کاٹنے پر ایک ہاتھ ہی رسید کر دیا۔
آخر کو رشیدہ آپا، خاندان کے اتنے اہم سر بستہ رازافشاں کر رہی تھیں ، تو کیا اس خاندانی بھیدوں کو ببلی کے فضول کاموں پر جانے دیتیں؟ ٹیسٹ کا کیا ہے، ہر ماہ ہی ہوتے ہیں ، ایک آدھ مضمون میں کم نمبر آجاتے ، یا فیل ہوجاتی تو کون سی قیامت آجاتی ؟رشیدہ آپا سے بھی کون سا ہر روز بات ہوتی ہے ، دو چار مہینوں میں تو فون آتا ہے اور اس میں بھی اس طرح کی ’’خفیہ گفتگو‘‘ تو برسوں میں ہی نصیب ہوتی ہے۔ نہ جانے پھر ایسا خوش قسمت موقع کب نصیب ہوتا۔؟ اور ہوتا بھی یا نہیں ؟کل بھلا کس نے دیکھی ، یہاں تو پل کی خبر نہیں، لہٰذا جو وقت میسر ہو اسے ہی غنیمت سمجھنا چاہیے ۔رشیدہ آپا کا فون رکھتے ہی ، ببلی نے اطمینان بھری سانس لی اور پھر کتابیں لے کر ان کے پاس بیٹھی گئی لیکن وہ اب بڑی دلجمعی سے خبر رسانی کا یہ فریضہ، کسی دوسرے اور پھر تیسرے ، چوتھے کو بذریعہ فون انجام دے رہی تھیں۔ ببلی ایک مرتبہ پھر ان کے جذبہ خیر خواہی پر ٹھنڈی آہیں بھر رہی تھی۔
خواتین کے دل اگر ایک طرف چھوٹی چھوٹی تکلیفوں پر پگھل جاتے ہیں تو دوسری طرف بڑی بڑی خاندانی رنجشوں و چپقلشوں پر جھوم بھی جاتے ہیں اور ہم ان خاندانی کشیدگیوں کے قصے چٹپٹے اچار کی مانند مزے لے کر یہاں سے وہاں تک کسی خبر رساں ایجنسی کے نمائندے کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری نبھاتے ہیں ۔ بظاہر خیر خواہی کے جذبے سے سر شار ہم اپنے حصے کے ’’دیے‘‘روشن کر کے دلوں میں کدورتوں کے کنکر جمع کر دیتے ہیں ۔ آگ صرف ماچس ، پٹرول ، تیل سے ہی نہیں لگتی ، بہت دفعہ چند الفاظ ہی آگ لگانے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ جن پر پانی بھی نہیں ڈالا جا سکتا۔
الفاظ کیا ہوتے ہیں۔ ان کی تاثیر بھی عجب ہے ،کبھی تو جلتے دل پر پھوار ڈالتی ہے، تو کبھی ٹھنڈے دل کو آتش فشاں ، کبھی دوریاں بڑھاتی ہے تو کبھی نزدیکیاں ، مردہ دلوں کو زندگی کی نوید دیتی ہے تو کبھی ، زندگی کی خوشگواریت کو اذن موت سے ہم کنار کر دیتی ہے ۔ یہ فاصلے جو دلوں میں اور مکانوں میں دوریاں و مسافتیں پیدا کرتے ہیں ، جن کو پاٹنا آسان نہیں۔
ایک طرف ان لفظوں کے کھیل میں، دوسرے کے منہ پر قفل ڈال دیتے ہیں تو دوسری طرف ہرکارہ بن کر گھر گھر اس کو پہنچانے کا فریضہ بھی ساتھ ساتھ انجام دیتے ہیں ۔اور شاید قسم کھا لیتے ہیں کہ چین سے نہیں بیٹھے گے، جب تک اس واقعے یا قصے کو ’’گرما گرم خبر‘‘ بنا کر خاندان بھر میں نشر نہ کردیں ۔ یا تو ابھی ہم اتنے بہادر نہیں ہوئے یا شاید ابھی کچھ ’’غیرت خاندانی ‘‘ باقی ہے کہ خاندانی قصے سوشل میڈیا پر نہیں اپ لوڈ کیے جارہے ورنہ تو گلی محلے میں گھریلو کہانیاں ، زبان زد عام ہو جائیں ۔ اور ہر ایک کے لبوں پر ایک دوسرے کے لیے استہزائیہ مسکراہٹ و تمسخرانہ جملے،حملے کی صورت ہوں۔
حالاں کہ کہنے والوں نے تو یہ تک ازراہِ تفنن کہہ دیا کہ جو شکایت ، جو گلہ، جو برائی آپ نے سننی ہو، براہِ راست ہم سے ہی کہہ دیجئے گا ۔لیکن ادھر ہم ہیں کہ صاحب معاملہ سے ہی نہیں کہتے اور باغ کے ہر بیل بوٹے کو حال دل سنادیتے ہیں ، جس کے بعد وہ بیل بوٹا، سرعت سے پھیلتا پھولتا باغ در باغ، چمن درچمن، صحرا ، جنگل ، شہر ، قصبہ اور گاؤں گاؤں میں سفر کرتا ، فرداً فرداً حال احوال پوچھتا ، لفظوں کے تیر چبھوتا ، نکالتا ، زخمی کرتا، رستا، مرہم رکھتا ،پھائے لگانا ، درد کشا کے ذریعہ ، تکلیف رفع کرتا بھی ہے۔
پہلے الفاظ سے چھلنی کر نا ، پھر انہی لفظوں کے ہیر پھیر سے اس کو نرمی سے چننا، عجیب گورکھ دھندا ہے یہ لفظوں کا تانا بانا۔ انسان اسی میں الجھ کر رہ جائے اور پھر سلجھائے نہ سلجھے، اور یہ بھی بڑی سمجھنے کی بات ہے، بلکہ روز مرہ زندگی کا حصہ ہے کہ صرف الفاظ ہی نہیں ہمارے چٹختے لہجے بھی بڑی معنویت رکھتے ہیں۔ کھردرے لہجے نرم لفظوں کو بھی دھاری دار بنادیتے ہیں تو کبھی ، شیریں لہجے ،سرد الفاظ کا جامہ پہن لیتے ہیں ۔ یہ تلخ و ترش الفاظ ہوں یا لہجے ، رویے ہوں یا نگاہیں ، دوسرے کی دل شکنی ، ودل آزاری کا تو باعث بنتی ہی ہیں، آپ کی قربتوں کو بھی دوریوں میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ لہٰذا مثبت سوچ کی جانب بڑھیے۔
اچھا گمان بھی آپ کو راہ راست کی طرف مائل کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ہمارا حسن ظن ، ہماری زندگیوں کو بدل سکتا ہے ۔ بس آزمانے کی دیر ہے۔ لیکن ہم اس آزمائش کے حساب میں بڑی دیر کر دیتے ہیں۔ اس نئے سال میں اپنے اندر مثبت تبدیلی کا پیغام لائیں ، سال تو ہر سال بدلتا ہے ، اپنی شخصیت، اپنی زندگی، کردار، اخلاق و عادات ، زبان و بیان میں تبدیلی کا عنصر نمایاں کریں۔ سال تو بدل جاتے ہیں لیکن خود کی تبدیلی پس پردہ رہتی ہے۔ کتنا اچھا ہو اگرہم اس نئے برس ذات کی تبدیلی کو معاشرے کی اصلاح سے مربوط کر دیںاور مضبوط ہو کر کام کریں ، بس اب مزید دیر نہیں کرنی۔