• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
محمد احمد شاہ (دائیں) اور جمال شاہ (بائیں) میڈیا نمائندوں سے بات چیت کر رہے ہیں۔ - فوٹو: آرٹس کونسل کراچی
محمد احمد شاہ (دائیں) اور جمال شاہ (بائیں) میڈیا نمائندوں سے بات چیت کر رہے ہیں۔ - فوٹو: آرٹس کونسل کراچی

نگراں وزیر اطلاعات سندھ محمد احمد شاہ نے کہا ہے کہ کلچر سب کو جوڑنے کا واحد ہتھیار ہے، ہمیں ساری دنیا میں پاکستان کا مثبت چہرہ دکھانا ہے۔

نگراں وفاقی وزیر قومی ورثہ و ثقافت سید جمال شاہ اور نگراں صوبائی وزیر اطلاعات، اقلیتی امور و سماجی تحفظ اور صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے حسینہ معین ہال میں میڈیا کے نمائندوں سے ملاقات کا اہتمام کیا۔

اس موقع پر نگراں صوبائی وزیر اطلاعات، اقلیتی امور و سماجی تحفظ محمد احمد شاہ نے نگراں وزیر قومی ورثہ و ثقافت سید جمال شاہ کو خوش آمدید کہا۔

نگراں صوبائی وزیر اطلاعات محمد احمد شاہ نے کہا کہ ہم یہاں آج دو لوگ موجود ہیں، ہماری ایک ہی شناخت ہے اور وہ ہے ثقافت اور ادب۔ اتفاق سے ہم دونوں ہی وزیر ہو گئے۔

انکا کہنا تھا کہ جمال شاہ وفاقی وزیر ثقافت اور قومی ورثہ ہیں، میں وزیر اطلاعات سندھ ہوں۔

صدر آرٹس کونسل نے کہا کہ جمال شاہ کو آپ سب فلم میکر، اداکار اور فنون لطیفہ کی شخصیت کے طور پر جانتے ہیں۔ جمال شاہ کراچی تشریف لائے۔حیدرآباد کا دورہ کیا۔ ان کا آرٹس کونسل سے ثقافتی رشتہ ہے، ہمیں ساری دنیا میں پاکستان کا مثبت چہرہ دکھانا ہے۔

محمد احمد شاہ کا کہنا تھا کہ ہم نے جمال شاہ سے ایک قریبی تعلق رکھا ہے، جمال شاہ نے فلم کی پالیسی بنائی۔ جمال شاہ نے ثقافت کے فروغ کےلیے بہت کام کیا ہے۔

نگراں وزیر اطلاعات سندھ نے کہا کہ ہم ڈپلومیسی میں ناکام ہوگئے، کلچر سب کو جوڑنے کا واحد ہتھیار ہے، ہم اگر اپنی ثقافت کو ساتھ لے کر چلتے پوری دنیا میں تو حالات مختلف ہوتے۔

انکا کہنا تھا کہ کلچر کی قدر نہ ہونے سے جو نقصان ہوئے ہی وہ آپ کے سامنے ہے۔ 

اس دوران جمال شاہ نے فلم کی پالیسی اور گیلری بھی بنائی ہے۔

پریس کانفرنس کے دوران نگراں وفاقی وزیر قومی ورثہ و ثقافت سید جمال شاہ نے کہا کہ احمد شاہ اور میں ہم دو تضادات سے بھرے معاشرے کے دو ایسے افراد ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ جس ملک میں ہم رہ رہے اس کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ 

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ المیہ یہ کہ جب سے یہ ملک بنا ہے ہم نے اپنی ثقافت کو ویسے پروموٹ نہیں کیا جیسا کرنا چاہیے تھا۔

جمال شاہ نے کہا کہ میں حادثاتی طور پر وزیر بنا، میں ایسی وزارت کا حصہ ہوں جسے میں کمی کمین منسٹری کہتا ہوں۔

انکا کہنا تھا کہ اچھی بات یہ ہے کہ ہم دونوں کلچرل ایکٹیوسٹ ہیں، شروع سے اگر ثقافت کو صیح طریقے سے ٹریٹ کیا جاتا تو حالات مختلف ہوتے۔

جمال شاہ نے کہا کہ آرٹس کونسل کو میں نے احمد شاہ کے آنے سے پہلے بھی دیکھا تھا لیکن احمد شاہ کے آنے کے بعد حالات بلکل مختلف ہیں۔ احمد شاہ ستائش کے حقدار ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے بچے خود سے بیگانہ ہو رہے ہیں۔ انگریزی کی ہر نظم یاد ہے لیکن اردو اور مادری زبان سے رابطہ ختم ہو رہا ہے۔ ہم نے اپنے ادارے میں تمام زبانوں کے افراد کو ایک جگہ جمع کیا ہے۔ نظموں کو ویڈیوز اینیمیشن کے ذریعے بنائیں گے، ہم ورثہ ٹی وی لانچ کرنے جا رہے ہیں۔

نگراں وفاقی وزیر نے کہا کہ نوجوانوں کو ہم نے انگیج کرنے کا سوچا ہے، مدارس میں خطاطی کی تعلیم شروع کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔ کلچرل انفرااسٹرکچر کو ریوائیو کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں جتنی جگہیں بیکار پڑی ہیں ہم انہیں ثقافتی کارنرز میں تبدیل کر رہے ہیں۔ ہیریٹیج کے حوالے سے بہت سارے کام کیے ہیں۔مختلف تاریخی قلعے، اسٹوپاز، مساجد کی تزئین آرائش جاری ہے۔ امید ہے کہ آنے والی حکومت اس کام کو آگے بڑھائیں گے۔

جمال شاہ کا کہنا تھا کہ المیہ یہ ہے کہ آنے والے نئی حکومت پرانے منصوبوں کو ختم کر دیتی ہے، ہماری ثقافتی شناخت ہمارا آرٹ اینڈ کلچر ہے۔ جب تک ہماری ثقافت مضبوط نہیں ہو گی ہم بین الاقوامی طور پر آگے نہیں جا سکتے۔

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد بہت خوبصورت شہر ہے، آج تک کسی گورنمنٹ نے کوشش نہیں کی کہ وہاں پر میوزیم بنے اور ہم نے منظور بھی کروالیا ہے۔ ہم یہ کوشش کر رہے ہیں جس میں امریکہ اور فرانس بھی ہماری مدد کرے گا۔

انکا کہنا تھا کہ ڈیڑھ سو سنیما ایسے ہیں جس میں عوام جا نہیں سکتی تو ہم کوشش کریں گے کہ ایسے سنیما بنائیں کہ جس میں عام لوگ بھی آئیں۔

نگراں وزیر قومی ورثہ جمال شاہ نے مزید کہا کہ پاکستان وہ ملک ہے جس میں قومی نصاب نام کی کوئی چیز نہیں ہے ہمارے نصاب میں ہماری زبانوں کے بارے میں ہمارے ثقافت کے بارے بھر پور طریقے سے نہیں بتایا گیا اب ہماری زبان کو قومی زبان کہہ کر دھکیل دیا گیا ہے۔ ہمارا جو نصاب ہے اس میں اس کی چاشنی اور خوبصورتی کا جھلکنا بہت ضرورت ہے۔

انکا کہنا تھا کہ ہم آج کا مقابلہ 15 سال پہلے سے کریں تو کافی تبدیلی آ چکی ہے، ہماری کوشش ہو گی کہ ہم اپنا ورثہ واپس لیں، روز ہمیں کلچر کو سیلبریٹ کرنا چاہیے۔

انٹرٹینمنٹ سے مزید