• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قوموں کی ترقی بخت و اتفاق نہیں بلکہ مسلمہ اصولوں اور قوانین کا نتیجہ ہوتی ہے۔ جو قومیں فطرتی اصولوں کو اپنا کران اصولوں پر عملی ڈھانچہ اور نظام قائم کر لیتی ہیں، عزم و ہمت کا نمونہ بنتی ہیں۔ وہ مسلسل ترقی کی جانب رواں دواں ہیں جو محنت، لگن اور جستجو کو اپنی نسل نو اور نوجوان نسل کے خون میں منتقل اور ان کے عزائم کو مزید مستعد کر رہی ہیں، تاکہ مستقبل میں وہ بھر پور طریقے سے اپنی قوم اور ملک کے لئے کام کر سکیں۔

دکھ تو اس بات کا ہے کہ پاکستان کو آزادی حاصل کیے76 سال بیت گئے لیکن ابھی تک بطور قوم ہم منزل کے متلاشی ہیں۔ نہ فکری ہم آہنگی ہے نہ عملی محض جذباتی فضا کا ماحول ہے۔ ہماری نوجوان نسل کو آئے دن نت نئے چیلینجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،مگر المیہ یہ ہے کہ یہ چیلینجز ان کی شخصیت سازی کرنے کے بجائے اوائل جوانی میں ہی نہ صرف ان کی شخصیت کو مسخ کرنے کے ذمہ دار بن جاتے ہیں بل کہ ان کے کردار پر بھی بری طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔

ان چیلینجز میں غربت، اقتصادی عدم مساوات، سیاسی عدم استحکام، سیاسی وابستگی اورجرائم سرِفہرست ہیں۔

کئی ترقی پذیر قومیں، اپنے نوجوانوں میں مکالمے و آزادانہ مباحثوں کے ذریعے ایسی سرگرمیوں کا انعقاد کرتی ہیں جن سے ان کی صلاحیتیں نکھریں لیکن پاکستان کے نوجوانوں کی جانب، اگر نظر ڈالیں تو بدقسمتی سے ان کی سیاسی و سماجی تربیت کی جانب آج تک کسی بھی حلقے و ادارےنے توجہ نہیں دی ، اگرچہ ہر شعبہ جات کے لئے پالیسیاں مرتب اور واضح کی جاتی ہیں لیکن عمل در آمد کے موقع پر انتشار کی زد میں آجاتے ہیں، جس سے نوجوانوں کے بنیادی حقوق بھی مجروح ہوتے ہیں۔

ان کے مسائل آج بھی وہی ہیں جو ماضی کی تین دہائیوں پہلے تھے۔ مہنگائی، بے روزگاری بے لگام ہے، تعلیمی سرگرمیاں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ کرپشن کا بازار گرم ہے، اداروں کی نالائقیاں عیاں ہیں۔ وہی جذباتی نوجوان اب نالاں، مایوس اور ناامید ہیں ، اب کسی اور مسیحا اور آئیڈیل کی آمد کے منتظر ہیں۔اس حوالے سے ذیل میں چند اہم اور بنیادی مسائل اُجاگر کیے ہیں،اگرچی ان کا علم سب کو ہے لیکن ان کو حل کرنے کی کوئی تدبیر کسی کو نظر نہیں آتی۔

تعلیم:

تعلیمی اداروں کے نام پر جمع تفریق کا کھیل عام ہے۔ خواندگی کی کم شرح، تعلیم کا نامناسب معیار، تعلیم تک رسائی میں تفاوت، غیر موثر تعلیمی نظام، اساتذہ کی کمی، تحقیق اور اختراع پر توجہ کا فقدان ،بہت سے اسکولوں میں ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل وسائل تک رسائی بھی نہیں جو طلباء میں اہم صلاحیتوں کی نشوونما میں رکاوٹ ہے۔ اس کے علاوہ نوجوان نسل کو نصابی تعلیم کے ساتھ اخلاقی تعلیم کی بھی شدید ضرورت ہے۔ جب تک طلبا جدید ٹیکنالوجی کے رموز سے واقف نہیں ہوں گے ، ترقی کی رفتار تیز نہیں ہو سکتی۔

بے روزگاری:

نوجوان طبقہ فکر معاش ، مہنگائی اور بے روز گاری کی وجہ سے شدید ذہنی اذیت کا شکار ہے۔ یہ معاشرے کا ایسا رَوگ ہے جو بےشمار برائیوں اور مختلف جرائم پھیلنے کا سبب بن رہا ہے ۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ کئی نوجوان تو نامور تعلیمی اداروں سے پڑھ کر بھی چہرے پر بے یقینی اور ناکامی کا لیبل سجائے باہر آتے ہیں۔

انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن I.L.O کے مطابق پاکستان کی آبادی کے لحاظ سے روزگار کا تناسب بہت ہی کم ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سےنوجوان معاشی عدم استحکا م، عدم مساوات کو دیکھتے ہوئے وطن کو خیر بادکہہ رہے ہیں۔

نشہ آور اشیاء کا استعمال:

نوجوانوں میں منشیات کے استعمال کی بلند شرح کو مختلف وجوہات سے منسوب کیا جاتاہے اور اس کے مجموعی طور پر افراد اور معاشرے دونوں پر اہم اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے منشیات کا استعمال اب ملک کے تعلیمی اداروں میں بھی فروغ پا رہا ہے۔ جن اداروں میں مستقبل کے معمار تیار ہوتے تھے، جہاں سے ملک کا روشن مستقبل پروان چڑھتا تھا، وہاں اب دشمن نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور نوجوانوں کی زندگی میں زہر انڈیلنا شروع کردیا ہے۔

پڑھے لکھے نوجوان جس تیزی سے نشہ آور اشیاء کی طرف مائل ہورہے ہیں یہ صورت حال حیرت انگیز اور خوف زدہ کردینے والی ہے۔ اس رجحان سے جہاں نوجوانوں کی صحت پر انتہائی مہلک اثرات مرتب رہے ہیں، وہیں ان کی پڑھنے لکھنے اور کام کرنے کی صلاحیت بھی متاثر ہورہی ہے۔ نت نئےطریقے اور اشیاء اس سلسلے میں سامنے آرہی ہیں۔ اس مافیا کے کارندے کھلے عام اس کی فروخت کر رہے ہیں۔ نفسیاتی مسائل بھی نوجوانوں کو جرائم کی دلدل میں اترنے پر مجبور کررہے ہیں۔

انٹرنیٹ، موبائل اور کمپیوٹرز کا غلط استعمال 

موبائل فون اور انٹرنیٹ دور جدید کی چند ایسی اہم ایجادات ہیں، جس نے انسانی زندگی کا رخ یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ بیس پچیس سال کے قلیل عرصے میں ساری دنیا ان کے زیرِتسلط آچکی ہے۔ یہ بے شمار فوائد کے ساتھ ساتھ نقصان و ضرر کے پہلو لئے ہوئے ہے۔ نوجوانوں میں ناسور کی طرح پھیلتی بے چینی ،بے راہ روی اور دیگر معاشرتی مسائل کے سر اٹھانے میں انٹرنیٹ اور موبائل کے بے جا اور غیر ضروری استعمال کو ہر گز نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

تمام مکاتب فکر، دانشور تمام شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی شخصیات نوجوانوں کے مستقبل کے حوالے سے جدید اصلاحات کریں، تاکہ نوجوان طبقہ آگے بڑھے اور قوم و ملک کی ترقی میں اپنی خدمات پیش کرسکیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں کے سامنےمعاشرے کی تعمیر و تشکیل کے بنیادی اصولوں کو اجاگر کیا جائے، تبدیلی کے سائنسی طریقہ کار پر نوجوانوں سے تبادلئہ خیال کیا جائے۔ نوجوان کو باور کروایا جائےکہ وہ کسی مسیحا کے انتظار کے بجائے اپنےحالات بدلنے کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر لیں۔