محمد آصف اقبال
انسان کی زندگی مختلف ادوار کا حسین امتزاج ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کچھ ان ادوار سے بھر پور استفادہ کرپاتے ہیں اور بعض محروم رہ جاتے ہیں۔ انسانی زندگی کا آغاز بچپن سے ہوتا ہے، جہاں وہ بے شمار محبت و الفت کے لمحات اپنے والدین اور عزیز و اقارب کے درمیان گزارتا ہے۔ یہیں سے بچے کے سیکھنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے، پھر وہ اسکول جاتا ہے، جہاں مختلف قسم کے بچوں سے اس کاواسطہ پڑتاہے، وہاں دوسرے طریقے سے سیکھنے کا موقع ملتا ہے، کتابی علم کی ابتدء ہوتی ہے۔
ویسے تو ہر انسان مرتے دم تک سیکھنے کے عمل سے گزرتا ہے لیکن زمانہ طالب علمی ہر لحاظ سے زندگی کا ایک اہم ترین دور ہے۔ گھریلو تربیت،اسکول طلبا اور اساتذہ سے تعلقات،کالج اور یونیورسٹی میں ملنے والے طلبہ و طالبات ،معاشرہ جس کا وہ حصہ ہے، اس کے اثرات،یہ سب مل کر شخصیت بنانے و سنوارنے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ بچپن میں انسان کے پاس خواہشات اور مستقبل کے منصوبے ہوتے ہیں لیکن جوانی وہ دور ہےجس میں اُن خواہشات اور منصوبوں پر عمل کرنے کا موقع ملتا ہے۔
وہ کر گزرتا ہے جو کچھ اس نے سیکھا ہوتا ہے اور جو ہ وہ کرنا چاہتا ہے، لہذا انسانی زندگی کے یہ لمحات، جنہیں بچپن اور جوانی کہا جاتا ہے یا دوسرے لفظوں میں اسکول اور کالج و یونیورسٹی کی زندگی نہایت بیش قیمت ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جہاں ایک طرف اسکولوں میں بچوں کی تربیت کے مختلف طریقہ استعمال کیے جاتے ہیں تو وہیں دوسری طرف کالج و یونیو رسٹی میں مختلف افکار و نظریات کی تشہیر ہوتی ہے، اس تربیت و افکار کے ذریعے زندگی کو ڈھالنے کی بھر پور کوشش و جستجو ہوتی ہے۔
یہاں اِس قدر پابندیاں عائد نہیں ہوتیں جن کو وہ اسکول کے زمانے میں برداشت کرتا آیا تھا۔ ماں باپ اور اساتذہ کو گمان ہوتا ہے کہ ان کی اب تک کی گئی تربیت رنگ لائے گی۔ ایسے وقت میں ایک نوجوان کی زندگی، اس کی پسند اور نا پسند، اس کی فکر، اس کے خیالات اور دنیا کو دیکھنے کا نظریہ، پھر اس سے آگے بڑھ کر اس کا گرم خون، اس کے جذبات و احساسات اور اس کی قوت و توانائیاں یہ تمام چیزیں مل کر اس کے لیے کوئی بھی رخ اختیار کرنے میں مانع نہیں ہوتیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان ملک و قوم اور ملت کا مستقبل کہلاتے ہیں، وہ جس رخ پر چل پڑیں اس رخ کی طلاطم خیز ہواؤں کا سینہ چیرتے ہوئے اور تمام دشواریوں و پریشانیوں کوبہ آسانی برداشت کرتے ہوئے آگے ہی بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
زمانہ طالب علمی میں نوجوان بڑی عمر کے لوگوں کے بالمقابل زیادہ مخلص ہوتے ہیں۔ عام طور پر بڑی عمر کے لوگ اپنے مفاد کے پیش نظر ہی اقدام کرتے ہیں، اس کے برخلاف طلبا کسی قسم کے ذاتی مفاد سے اوپر اٹھ کراپنی پروا ہ کیے بغیر اقدام کر گزرتے ہیں۔ اخلاص کی حد درجہ زیادتی نوجوانوں کی کمزوری کہیں یا خوبی، اِسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے مختلف طاقتیں، پارٹیاں اور تنظیمیں نوجوانوں کو اپنے مقاصد و نصب العین سے وابستہ کرتی ہیں۔
آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ کہیں طلبہ و نوجوانوں کو عقائد کے اعتبار سے گمراہ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں تو کہیں غلط تشریح و تعبیر کے ذریعے ان کی صلاحیتوں کو اپنے مفاد کی خاطر استعمال کیا جا رہا ہے۔ کہیں طلبہ وطالبات کو گمراہ کیا جا رہا ہے توکہیں ان کو نفسیاتی ہیجان میں مبتلا کرکے معاشرہ کو تباہ و برباد کیا جا رہا ہے، کہیں انٹرٹینمنٹ اور سماجی روابط کے نام پر اُن کی صلاحیتوں کے رخ کو موڑا جا رہا ہے توکہیں فیشن اور تہذیب جدید دور کا درجہ دیا جا رہا ہے۔
ان حالات میں اور زندگی کے اس خوبصورت دور میں عام طور پر بے مقصد زندگی گزارنے والے طلبہ و طالبات گمراہی کو بہ آسانی اختیار کر لیتے ہیں۔ ان حالات میں نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی حیثیت سے بخوبی واقف ہوں، اور اگر وہ خودحقیقت ذات اور حقیقت خودی کی جانب پیش رفت نہ کریں تو پھر مخصوص حالات کے پیش نظر باشعور، سنجیدہ، مخلص افراد و گروہ کو چاہیے کہ طلبہ و طالبات کے سامنے ان کی حیثیت واضح کریں۔
جن گمراہیوں اور لایعنی و بے مقصد کاموں میں وہ مصروف عمل ہیں ان سے ان کو متنبہ کریں۔ ہر طالب علم کو یہ بات ذہن نشین کروانی چاہیئے کہ ان کی صلاحیتوں پر ان کے ملک وقوم کا بھی حق ہے، لہذا عملی زندگی میں نوجوانوں میں صرف اپنے مستقبل کو تابناک کرنے کی ہی جدوجہد شامل نہ ہو بلکہ اپنے ملک کی فلاح و بہبود کو بھی مدِ نظر رکھیں۔ خیال رہے کہ توانائیاں اور جذبات و احساسات کہیں غلط رخ نہ اختیار کرلیں۔