• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پتنگوں نے بے گھر فلسطینی بچوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر دیں


رفح کے آسمان پر اُڑتی رنگ برنگی پتنگوں نے غزہ میں گزشتہ سال سے جاری اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے فلسطینی بچوں کے تھکے ہوئے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر دیں۔

جنگ زدہ غزہ کے بے گھر ہونے والے یہ معصوم بچے جو اسرائیلی فوج کی بربریت کی وجہ سے اتنی چھوٹی سی عمر میں انتہائی مشکل وقت سے گزر رہے ہیں جب رفح میں اپنے خیموں سے باہر نکل کر آسمان پر اُڑتی رنگ برنگی پتنگیں دیکھتے ہیں تو ان کے چہروں پر مسکراہٹ آجاتی ہے اور کچھ دیر کےلیے ان کا دھیان بٹ جاتا ہے۔

جنگ کے دوران اپنے گھروں کو تباہ ہوتے اور کئی پیاروں کو اپنی آنکھوں کے سامنے شہید ہوتے دیکھنے والے بچوں کے لیے ایسی درد ناک صورتحال میں  بظاہر سادہ سے کھلونے کی حیثیت رکھنے والی یہ پتنگیں ملنا اور اپنے خیموں کے باہر کھلے آسمان میں اُنہیں اُڑانا کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔

یہاں اہم بات یہ ہے کہ رفح میں خیموں میں پناہ لیے فلسطینی بچوں نے پتنگیں کہاں سے حاصل کیں؟

اس حوالے سے 12 سالہ محمد احمد شاما نے عرب میڈیا کو بتایا کہ میں صبح ہونے پر جب اپنے خیمے سے باہر آیا تو میں نے کچھ بچوں کو پتنگ اڑاتے دیکھا تو پوچھا کہ مجھے یہاں پتنگ کہاں سے مل سکتی ہے؟ جس پر مجھے پتہ چلا کہ ان بچوں نے پتنگیں خود بنائی ہیں۔

بچے نے بتایا کہ میرے پاس تنکے موجود تھے لیکن کاغذ نہیں تھا اس لیے میں نے کاغذ کی تلاش شروع کردی تو پھر مجھے ایک انکل ملے جن کے پاس کاغذ تھا۔

محمد احمد شاما نے بتایا کہ میں نے انکل سے پتنگ بنانے کے لیے کاغذ مانگا تو اُنہوں نے خود ہی ایک پتنگ میرے لیے اور ایک اپنے بیٹے کے لیے بنا کر دے دی تو یوں  اب میں خیمے سے باہر آکر اپنی پتنگ کے ساتھ سارا دن کھیل سکتا ہوں۔

بچے نے کہا کہ مجھے پتنگ کو ہوا کے ساتھ آسمان کی طرف بڑھتے دیکھنا اور پھر اُڑتی پتنگ لیے اپنے دوستوں کے ساتھ  قریبی خیموں کے ارد گرد دوڑنا بہت اچھا لگتا ہے۔

محمد احمد شاما نے جنگ سے قبل اپنی قدرے خوبصورت زندگی کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ہم اپنے گھر کے پاس موجود گراؤنڈ میں فٹ بال کھیلتے تھے لیکن یہاں خیموں کے درمیان  جگہ نہیں ہے اس لیے ہم یہاں فٹبال نہیں کھیل سکتے۔

بچے نے بتایا کہ ہم لوگ مسلسل ہونے والی بمباری کی وجہ سے بے گھر ہوئے جب ہمارے شہر پر بمباری ہو رہی تھی تو ہم دھماکوں کی آوازوں سے خوفزدہ ہو کر چیخ رہے تھے۔

محمد احمد شاما نے بتایا کہ میرے والد بہت مشکل سے امداد کے لیے موجود تنظیموں کے کارکنان سے ہمارے لیے کھانا لے کر آتے تھے جبکہ میں خان یونس میں اپنا زیادہ وقت اسکول کے صحن میں ادھر اُدھر دوڑتے ہوئے گزاریا یا پھر کسی کونے میں بیٹھ کر رات کا انتظار کرتا تاکہ سو سکوں۔

واضح رہے کہ محمد احمد شاما اور اس کی فیملی پہلے غزہ کے شہر نصر میں واقع الشفا اسپتال میں پھر خان یونس اور آخر میں رفح میں منتقل ہوئی۔

خاص رپورٹ سے مزید