• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عام قبرستان اور کسی کمیونٹی کے لیے مختص قبرستان کا حکم

تفہیم المسائل

سوال: میوہ شاہ قبرستان میں برطانوی دور میں ہمارے اجداد کو ایک رقبہ قبرستان کے لیے دیا گیا تھا، اُس میں ہمارے اجداد کی قبریں ایک احاطے کے اندر ہیں ،انھی میں میرے والد کے چچازاد بھائی مولانا قاری محمد علی کی بھی قبر ہے، ان کا تعلق چونکہ پیری مریدی سے تھا ،ان کے خلفاء اور گدی نشین بھی ہیں، پہلے سالانہ عرس کا سلسلہ بھی تھا ، لیکن کچھ عرصے سے ان کے خلفاء اور گدی نشین کے درمیان اختلافات شروع ہوئے ،کچھ مریدوں نے باؤنڈری وال توڑ ی اور اختلافات بڑھنے لگے، میں نے تمام کام رکوادیے۔ عرس، قوالی بھنگڑے اور لنگر کی آڑ میں چرسی موالی ڈیرے لگالیتے ہیں ، پیسوں کے لالچ میں خلفاء اور گدی نشین کے درمیان فساد شروع ہوجاتا ہے ، وہاں ہماری خاندان کی خواتین کی بھی قبریں ہیں ،میرا اس سلسلے کو روکناشرعاً قابلِ مذمت تو نہیں ہے، (محمد طارق اقبال ، کراچی)

جواب: مسلمانوں کے عام قبرستان درحقیقت وقف ہوتے ہیں اور وقف میں کسی شخص کا ایسا تصرُّف کرناجس سے ذاتی ملکیت کا اظہار ہو، جائز نہیں ہے، قبرستان اَمواتِ مسلمین کے لیے عام ہیں، وہاں تدفین مسلمانوں کا حق ہے۔جو قبرستان خاص کسی انجمن وغیرہ کی ملک ہو ، ایسے قبرستان میں اُس انجمن کے ذمہ داران سے اجازت کے بغیر دفن نہیں کیا جاسکتا ،کیونکہ وقف میں مالکانہ تصرُّف حرام ہے۔ ایک فقہی اصول ہے : ’’شَرْطُ الْوَاقِفِ کَنَصِّ الشَّارِع‘‘یعنی وقف کے مصرف کے بارے میں واقف کی شرط نصِّ شارع کی طرح نافذ ہوتی ہے۔ 

لہٰذا اگر حکومتِ وقت یا کسی شخص نے کوئی قطعۂ زمین ایک خاندان کے افراد کے لیے بطور قبرستان وقف کیا ہے، تو اس میں صرف ’’موقوف علیہم‘‘ کے اَموات ہی کو دفن کیا جاسکے گا ، نہ کہ عام مسلمانوں کو۔اسی طرح جو قطعۂ زمین کسی کمیونٹی یا برادری کے لوگوں نے اپنے اراکین اور اُن کے لواحقین کے اَموات کے لیے قبرستان کی نیت سے خرید کر یا حکومت سے حاصل کرکے وقف کیا ہے، اس میں انہی لوگوں کے اَموات کو دفن کیا جاسکتا ہے۔

قبرستان مقامِ عبرت ہیں، حدیث پاک میں قبروں کی زیارت کا حکم دیاگیاہے اور رسول اللہ ﷺ نے اُسے موت کو یاد رکھنے کا ذریعہ قرار دیاہے ، احادیثِ مبارکہ میں ہے : (۱)ترجمہ:’’ پس قبروں کی زیارت کیاکرو کہ یہ تمہیں موت کی یاد دلاتی ہیں،(صحیح مسلم:976)‘‘ ۔

(۲)ترجمہ:’’ اور میں نے تمہیں (پہلے) قبروں کی زیارت سے منع کیاتھا ، پس (اب)جو شخص قبروں کی زیارت کرنا چاہے ، تو کرلے اور (قبرستان میں)باطل باتیں(قبیح گفتگو) نہ کرنا ،(سُنن نسائی:2033)‘‘۔

(۳)ترجمہ:’’بے شک میں نے تمہیں زیارت قبور سے منع کیا تھا ، اب جو بھی قبر کی زیارت کرنا چاہے ،اُسے اجازت ہے کہ وہ زیارت کرے کیونکہ یہ زیارت دل کو نرم کرتی ہے، آنکھوں سے (خشیتِ الٰہی میں)آنسو بہاتی ہے اور آخرت کی یاد دلاتی ہے،(مستدرک للحاکم : 1394)‘‘۔

قبرستان میں شور شرابہ ،ڈھول باجے اور میلوں ٹھیلوں کا سا ماحول بنانا منع ہے ، یہاں تو فکرِ آخرت کا ماحول قدرتی طورپر قائم ہوتا ہے ، اُسے سبوتاژ کرنا زیارتِ قبور کے تقاضوں کے خلاف ہے ، کسی قبرستان میں عرس کی تقاریب منعقد کرنا نا صرف مشکل بالکل قبروں کی بے حرمتی کا سبب بھی بنتا ہے۔

نبی کریم ﷺ نے قبور مسلمین کی تعظیم وادب کا حکم ارشاد فرمایا، چند احادیث ملاحظہ ہوں:(۱)ترجمہ:’’ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں : رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:’’ تم میں سے کسی کا آگ پر بیٹھنا یہاں تک کہ وہ کپڑے جلا کر چمڑے تک پہنچ جائے ، زیادہ بہتر ہے اس سے کہ قبر پر بیٹھے،(سنن ابوداؤد: 3220)‘‘۔

(۲)ترجمہ:’’ عقبہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں کسی مسلمان کی قبر پر چلوں اس کی بہ نسبت مجھے یہ بات زیادہ پسند ہے کہ میں آگ کے انگارے یا تلوار پر چلوں یااپنے پاؤں سے جوتے پر پیوند لگاؤں اور مجھے اس بات کی پروا نہیں کہ قبر کے وسط میں میری حاجت پوری ہوتی ہے یا بازار کے درمیان، (سُنن ابن ماجہ: 1568)‘‘۔

حدیث ِ مبارک کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان کی قبر پر چلنا شریعت کی رو سے اتنا سنگین فعل ہے اور آخرت میں عذاب کا باعث ہے کہ اس کا ارتکاب کرنے کے بہ نسبت آگ کے انگارے یا دھاروالی تلوار پر چلنے کی شدید ترین تکلیف برداشت کرنا آسان معلوم ہوتا ہے ۔ خصف النعل بالرّجل (پاؤں سے جوتا سینے) سے مراد یہ ہے کہ گویا جوتے کو پاؤں کے تلوے کے ساتھ سوئی کے ذریعے سی دیاجائے ، ظاہر ہے یہ عمل بھی انتہائی تکلیف کا باعث ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایساعملاً ہوتارہتا ہے ، بلکہ آپ ﷺ نےاس فعل کی سنگینی کو ایک تخیُّلاتی مثال کے ذریعے بیان فرمایا ہے ۔

مزارات پر عورتوں اور مردوں کا اختلاط ، بھنگڑے ، ڈھول باجے اور چرسیوں موالیوں کی بہتات عام مشاہدہ ہے اور یہ سب قابلِ مذمت ہے ، مزارات سے ان لغویات کا ختم کرنا ضروری ہے اور اس کارِ خیر کے لیے اپنی استطاعت کے مطابق کوشش کرنا قابلِ تحسین ہے، مزارات پر ہونے والے انھی مَفاسد کے سبب علمائے کرام نے عورتوں کے قبرستان میں جانے کی شدت سے ممانعت فرمائی ہے۔

عرس کی تقاریب قبرستان میں نہیں کرنی چاہییں کہ قبورِ مسلمین کی بے حرمتی کا سبب بنے گا ،البتہ بزرگانِ دین کے اعراس یا برسی کی تقریب کسی مسجد یا مکان یا ہال میں منعقد کی جاسکتی ہے ،جہاں فضولیات ولغویات کی بجائے قرآن خوانی وذکر واذکار کا اہتمام ہو ،تو یہ شریعت کی رو سے پسندیدہ امر ہے ،اولیائے کرام اوربزرگانِ دین کے اَعراسِ مبارکہ کا اصل مقصد تویہ تھا کہ ان کے لیے ایصالِ ثواب کے ساتھ ساتھ اُن کی تعلیمات اور اُسوہ بیان کیا جائے تاکہ لوگوں میں حسنات کو اختیار کرنے کی رغبت پیدا ہو۔( واللہ اعلم بالصواب)