وہ اس فلیٹ کی سیڑھیاں چڑھتی ایک گہری نظر اوپر نیچے ڈال رہی تھی ، دوسری منزل کے آخری زینے پر آکر اس کا یہ فیصلہ حتمی تھا کہ یہ وہ محل وقوع ہر گز نہیں جہاں روما گھر لینا چاہتی تھی ۔ انگلی گھنٹی پر رکھ کر اب وہ دروازہ کھلنے کا انتظار کر رہی تھی۔ چند لمحوں میں ہی مسکراتی ہوئی روما اس کے سامنے تھی ۔’’کیسا لگا تمھیں میرا گھر ؟‘‘فلیٹ دکھاتے روما کے لہجے میں اشتیاق تھا ۔’’ اچھا ہے، لیکن میں یہی سوچ رہی تھی کہ تم جو پرائم لوکیشن چاہ رہی تھیں ، وہ میسر نہ ہو سکی۔‘‘ ہلکا سا افسوس تھا نازی کی آواز میں ۔ ’’ ارے دفع کرو پرائم لوکیشن کو، یہاں تو ہر وقت پرائم ٹائم ہی چلتا رہتا ہے ، بس نہ پوچھو بوریت کا احساس ہی نہیں ہوتا ۔ ’’ روما نے مزے سے آنکھیں گھمائیں ۔‘‘ کیا مطلب …؟ ’’تم تو تنہائی سے گھبرا کر کسی بارونق علاقے میں رہنا چاہتی تھیں ، لیکن یہ بلڈنگ تو۔۔؟‘‘نازی کچھہ الجھ سی گئی تھی ۔( روما شادی کے بعد میاں کی جاب کی وجہ سے دوسرے شہر آن بسی تھی ، شادی کے پانچ سال بعد بھی آنگن سونا تھا۔
لہٰذا وہ تنہائی بہت محسوس کرتی، یہاں چند دوستیاں ہو گئیں تھیں، ان کے ساتھ کبھی کبھی اچھا وقت گزرتا، میاں تو صبح کے گئے مغرب تک ہی آتے۔ اس نے گھر اسی لیے بدلا تھا کہ وہاں اس کا بہت دل گھبراتا تھا، لیکن جب سے وہ یہاں آئی تھی اس کا تو دل لگ گیا تھا وجہ وہ جنگیں تھیں جو ہر روز چھری رہتیں جن کو سننا اس کا دلچسپ مشغلہ بن چکا تھا۔ ) ’’بھئی بڑی بارونق زمین ہے، یہ آس پڑوس سارا دن رونق ہی لگائے رکھتے ہیں ، ابھی ہمسائے سے گوہرِ نایاب برآمد ہو رہے ہیں تو کبھی نیچے فلیٹوں سے راز افشا ہو رہے ہیں، تو کبھی اوپر والے ایک دوسرے کے بخیے ادھیڑ رہے ہیں ، سچ پوچھو سارا دن نت نئے ڈرامے دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں ، میاں ، بیوی وہ ایک دوسرے کے سنسنی خیز انکشافات کرتے ہیں کہ میری تو دن کی نیند ہی اڑ گئی کہ کہیں کچھ ’’مس‘‘ نہ ہو جائے ۔ ’’ وہ چٹخارہ لیتے ہوئے کہہ رہی تھی اور نازی منہ کھولے اسے سن رہی تھی ۔ ‘‘یہاں مرد ، کام پر نہیں جاتے۔؟’’ وہ حیران تھی۔‘‘ ارے! بہت سے تو دکاندار ہیں، جو گیارہ بجے اٹھتے ہیں ، ناشتے سے پہلے بیویوں سے لڑتے ہیں اور ایک بجے اپنے کام پر روانہ۔
دفتر والے شام کو آکر جھگڑتے ہیں اور جو دیر سے آتے ہیں وہ اپنا غصہ رات گئے اتارتے ہیں۔ سچ میں لائف بڑی دلچسپ ہو گئی ہے۔’’ روما نے ایک آنکھ دبائی اور پھر ہنسی تو ہنستی ہی چلی گئی ۔ ‘‘ ایسی ایسی ایک دوسرے کی ذاتیات پر کیچڑ اچھالی جاتی ہے کہ توبہ توبہ ۔’’ہنسی روک کر اس نے مزید کہا ۔‘‘ اور تم اس مقام افسوس پر ہنس رہی ہو، حالانکہ یہ ۔۔‘‘’’ ارے جب ان کو خود ہی احساس نہیں کہ ساری بلڈنگ ان کے کارنامے سے لطف اندوز ہو رہی ہے تو ۔۔۔‘‘’’ تو کوئی سمجھانے والا نہیں ۔؟’’ نازی نے تیزی سے بات کاٹتے ہوئے کہا ۔‘‘اب بھڑوں کے چھتے میں کون ہاتھ ڈالے، ویسے بھی کوئی ایک ہی جوڑا تو نہیں ہے، چار چار گھر ہیں۔’’روما نے کندھے اچکائے ۔‘‘’’قرآن ، میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس کہتا ہے ۔‘‘ نازی نے سنجیدگی سے کہا ۔ ہاں ہاں۔۔’’ روما ایک دم ہی چونکی، پھر سمجھ کر گڑبڑائی ۔‘‘ تم سمجھ رہی ہو نا۔؟
’’نازی نے کچھ زور دے کر کہا،‘‘ جس پر روما نےہلکی سی گردن ہلا دی۔ اس کے تاثرات یک دم تبدیل ہو گئے تھے اور اب کہنے کو شاید کچھ نہ تھا۔وہ اب معاملے کی نزاکت سمجھ رہی تھی لیکن اس رشتے کی نزاکتیں ، معاشرے میں مفقود ہو چکی ہیں ۔ اب فریقین، روبرو نہیں بلکہ دوبدو ہو چکے ہیں، لڑائی جھگڑے میں اس طرح مد مقابل ہوتے ہیں جیسے ایک دوسرے کے حریف!!۔ ذاتیات کو اس طرح سب کے سامنے بیان کیا جاتا ہے جیسے دو دشمن ، حالاں کہ ہم پھر یاد دہانی کراتے ہیں کہ اس تعلق کو اللہ نے سب سے زیادہ معتبر و پیارا بنایا اور مثال بھی کیا خوب دی،’’ تم ایک دوسرے کا لباس ہو‘‘، لباس جس طرح انسان کے سب سے زیادہ قریب ، پردہ پوش، حصار و زینت کا باعث ہے ، اس سے زیادہ کامل مثال ،اس رشتے و تعلق کی ہو نہیں سکتی تھی۔
اچھا و پاکیزہ لباس تو شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے اور یہی اس رشتے کو لباس سے تشبیہ دینے کی حکمت ہے۔ لیکن ہم نے اس لباس زینت کو اپنی کم علمی و جہالت سے عیب دار بنا دیا ہے ، وہ جو سات پردوں میں چھپا کر رکھنے کی باتیں تھیں وہ اب سرعام برپا ہونے لگیں، اپنی روایات و اقدار کی حفاظت کرنے والے، اپنی جڑوں سے وابستہ رہنے والے کہاں چلے گئے؟ ، اب تو اس رشتے کا مقام ہی کھو چکا ہے وہ جو لباس تھا محفوظ و مامون ، اب بے لباسی کی طرف بڑھ چکا ہے اور اس کے مجرم ہم سب ہیں۔ یہ رشتہ بڑی تگ و دو کے بعد بنتا ہے اور اس سے بھی زیادہ محنت اس کو برقرار رکھنے میں صرف ہوتی ہے۔
اس رشتے کی خوبصورتی اس کے قائم و دائم رہنے میں اور یہ قائم اسی وقت رہ سکتا ہے جب اس تعلق میں پیار ومحبت اور عزت و احترام سے آبیاری کی گئی ہو۔ لباس کی قدر و منزلت اس وقت مزید قیمتی ہو جاتی ہے جب صاحب پوشاک پر سجے بھی، وہ اپنے لباس کی اہمیت کو سمجھے اور دوسرے سے اس کے عیوب و نقائص چھپا کر رکھے۔ کجا کہ سارے جہاں میں گنواتا پھرے، اس سے اس کے اپنے لباس کی ہی حیثیت کم ہو گی، بالکل یہی مثل اس تعلق میں بھی ہے اگر آپس میں شکایت ہیں تو اسے بند کمرے میں رفع کریں ،نا کہ اعلان کرتے پھریں ، ہر رشتے کو مضبوط ہونے میں وقت لگتا ہے اور رنجشیں تو ہر گھر میں ہوتی ہیں، کہیں مزاج میں گرمی ،تو کہیں زبان میں تیزی تو کہیں دماغ میں عجلت ، لیکن اس کو برداشت کرنا اور سمجھوتے کی چادر اوڑھنا ہی دونوں فریق کی زمہ داری ہے ، کیونکہ گھر کی دیواریں مرد وعورت دونوں ہی مل کر بناتے ہیں اور اس لباس کی حفاظت کی نگہبانی کرنا دونوں کی ذمہ داری ہے۔
زوجین کی اس رشتے کو استوار رکھنے کوشش ہی آئندہ نسلوں کی بقا اور سلامتی کی ضامن ہے۔ فرمان الہٰی ہےکہ" تم ان کے ساتھ اچھی بود و باش رکھو، ہو سکتا ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو لیکن اس میں بھلائی ہو۔" (سورۂ النساء), اب یہ تو اس رشتے کو نبھانے والے پر منحصر ہے کہ وہ اپنے آس پاس کے افراد کو اپنی ہر کمزوری اور کوتاہیوں سے باخبر رکھ کر اپنی عزت اپنے ہی ہاتھوں مٹی میں ملا تے ہیں یا خاموش اور صبر کرکے اپنی تعظیم ، کمیاں ہر فرد میں ہوتی ہیں ، جھگڑے بھی ہر گھر میں ہوتے ہیں، لیکن ان کو خاموشی سےنمٹانایا تماشا بنانایہ آپ کے اختیار میں ہے۔