رابعہ فاطمہ
پاکستان جس نازک موڑ سے پچھلے سے گزر رہا ہے اسے دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ، ا ب تعلیم یافتہ نوجوانوں کو آگے بڑھنا چاہیے۔ جو موجودہ مسائل کو اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر حل کریں۔ پاکستان کی ساٹھ فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جن میں ایسے نوجوانوں کی بھی ہیں جو سیاسی شعور رکھتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کسی سیاسی جماعت نے ان کی صلاحیتوں اور قابلیتوں سے استفادہ نہیں کیا۔ اقوام عالم کا جائزہ لیں تو ہر شعبے میں نوجوانوں پر اعتماد کیا جاتاہے۔ ان کی صلاحیتوں کے پیش نظر انہیں مختلف اداروں میں مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔
وہ سیاسی میدان میں نظر آتے ہیں اور انتظامی اداروں کو اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے بل بوتے پر چلا بھی رہے ہوتے ہیں، جبکہ پاکستان کی سیاسی صورت حال اس سے بالکل مختلف ہے۔ اسمبلی کی سیٹ ہو یا وزارتی عہدہ، نوجوانوں کو سامنے لانے کا رجحان کسی سیاسی جماعت میں نظر نہیں آرہا۔ پاکستانی سیاست موروثیت کا شکار نظر آتی ہے، سرکاری عہدوں کا حصول بھی اقرباء پروری کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ سیاست تو دور کی بات ایک عام ملازمت کے لیے بھی انہیں ڈگریوں کا پلندہ ہاتھ میں اٹھائے در در کی خاک چھاننی پڑتی ہے، ایسے میں اپنے مستقبل کے لیے فکر مندتو ہوں گے۔
پاکستان میں نوجوان نسل کو روٹی، کپڑا اور مکانکے خوش کن نعروں میں پھنسا کر ان کے خواب چھین لیے گئے ہیں۔ نظام زندگی کی الجھنیں اس قدر بڑھا دی گئی ہیں کہ ان کے ذہن تخلیقی صلاحیتوں سے خالی ہوتے جارہے ہیں۔ اونچے محلوں میں رہنے والوں کو لائن میں لگ کر آٹا خریدنے کی اذیت کا اندازہ تو دور کی بات اس کی قیمت تک کا علم نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان سیاست سے مایوس ہوتے جارہے ہیں، ان کوموروثی حکومتوں کے بدلنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اس مایوس کن صورت میں اکثر و بیشتر تین طرح کے رویےدیکھنے کو ملتے ہیں یا تو عام آدمی قانون کو ہاتھ میں لے لیتا ہے، سیاست سے مکمل طور پر بے پروا ہوجاتا ہے یا ملک چھوڑ جاتا ہے۔ بیورو آف امیگریشن کے اعداد وشمار کے مطابق بہتر مستقبل کے لیے ملک چھوڑ کر جانے والوں کی تعداد میں حیران کن اضافہ ہوا ، گزشتہ دوسالوں لاکھوں پڑھے لکھے نوجوانوں نے دیارِ غیر کا رخ کر لیا۔
نوجوان آج جس زبوں حالی کا شکار ہیں، اس پر سیاسی قائدین کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ تعلیمی، سیاسی اور سماجی سطح پرانہیں مواقع فراہم کریں۔ ایک سروے کے مطابق نوجوانوں کی اکثریت کہتی ہے، سیاسی رہنما ان کے مسائل اور ترجیحات نہیں سمجھتے۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک ان کو سیاسی اور معاشی اتار چڑھاؤ سے لاعلم رکھا گیا۔ ایسے میں اُن کو اپنا سیاسی شعور بیدار کرنے اور اپنی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ باشعور نوجوان اس بات سے واقف ہیں کہ کسی بھی ملک کی معاشرتی و معاشی ترقی کے لیے سیاسی نظام کو مضبوط ہونا چاہیے۔ لیکن انہیں تبصروں کی بجائے عملی میدان میں قدم رکھنے کی ضرورت ہے۔
نیلسن منڈیلا نے کہا تھا کہ ،سسٹم کو برا کہنے سے سسٹم نہیں بدلے گا بلکہ سسٹم کا حصہ بننے سے یہ بدل سکتا ہے، لہذا نوجوانوں کو ہر گزرتے دن اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ سیاست میں ہونے والی تبدیلیوں اور اس کے ملک پر پڑنے والے اثرات کی سمجھ بوجھ ہونی چاہیے۔ ملک میں معاشی اور سیاسی نظام کی خرابی کی وجوہات کے ساتھ پالیسیوں کی تبدیلی اور سابقہ پالیسیوں کا علم بھی ہونا چاہیے۔
2024ء کے الیکشن میں نوجوانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق 18سے 35سال کے نوجوان ووٹرز کی تعداد میں 90لاکھ سے زائد اضافہ ہوا ۔ اب اگر منتخب حکومت اگر نوجوانوں کے حوالے سے سنجیدہ ہوگی تو وہ ان کو مواقع فراہم کرکے ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے کی سعی ضرور کرے گی اور نوجوان کو اپنی کارکردگی دکھاسکیں گے۔ سیاسی رہنماؤں کو اب ہر صورت نوجوانوں کی ترقی کے لیے سوچنا ہوگا۔ان کی تعلیم مکمل ہونے تک انہیں ہر ممکنہ سہولیات فراہم کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ تکمیل سند کے بعد ان کو معاشی اور معاشرتی سہولیات فراہمکی جائیں،تاکہ وہ مستقبل میں ایک سود مند شہری ثابت ہوں۔
نوجوان بھی ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے منصوبہ سازی کریں، کوشش کریں کہ ملک میں سیاسی شعور کو بیدار کرسکیں۔ اپنی سمت کو درست رکھیں اور اپنے سیاسی نظریے کو واضح رکھتے ہوئے آگے بڑھیں۔