• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران احمد سلفی

(گزشتہ سے پیوستہ)

امام بخاری کی زندگی کا اکثر حصہ احادیث کی تلاش میں شہر در شہر سفر میں گزرا اور انہیں کسی ایک جگہ سکون سے بیٹھ کر کام کرنے کا بہت کم موقع میسّر آیا۔ اس کے باوجود صحیح بخاری کے علاوہ آپ کی بائیس تصانیف ہیں، جن میں سے کئی مستند علمی ذخیرے کا درجہ رکھتی ہیں۔ امام بخاریؒ کے والد انتہائی امیر شخص تھے اور آپ کو والد کی میراث سے کافی دولت ملی تھی، لیکن اس آسودہ حالی سے آپ نے کبھی اپنے عیش و عشرت کا اہتمام نہیں کیا۔ 

جو آمدنی ہوتی، اس سے غریب و نادار طلبا کی امداد کرتے۔ غریبوں اور مسکینوں کی مشکلات میں ہاتھ بٹاتے۔ محمد بن حاتم کہتے ہیں کہ امام صاحب نے اپنا سرمایہ مضاربت پر دے رکھا تھا۔ کاروبار سے علیٰحدہ رہتے، تاکہ سکونِ قلب سے خدمت حدیث نبوی کرسکیں۔ باوجود اس کے ایّام طالب علمی میں آپ نے بے انتہا مشقّتیں برداشت کیں اور کسی مرحلے پر بھی صبر و شکر کو ہاتھ سے نہ جانے دیا۔

ایک دفعہ کسی نے آپ کے آٹھ ہزار درہم دبالیے، جب ملاقات ہوئی، تو شاگردوں نے کہا کہ ’’وہ شخص آپہنچاہے۔ آپ نے فرمایا، ’’قرض دار کو پریشانی میں ڈالنے پر طبیعت آمادہ نہیں ہوتی۔ ایک دفعہ آپ کے پاس تجارت کا سامان پہنچا، تاجروں کو پتا چلا تو وہ سامان خریدنے کےلیے آپ کے پاس پہنچ گئے اور پانچ ہزار درہم کی پیش کش کی۔ آپ نے فرمایا کہ رات کو آنا۔ شام کو دوسرے تاجر آگئے، انہوں نے وہ سامان خریدنے کے لیے دس ہزار درہم کی پیش کش کردی۔ آپ نے فرمایا کہ ’’میں پہلے گروہ کے ساتھ فروخت کی نیّت کرچکا ہوں، اب پانچ ہزار کی خاطر اپنی نیّت بدلنا نہیں چاہتا۔ اس کے بعد آپ نے وہ مال پہلے تاجروں کے گروہ کو فروخت کردیا۔

جب اہل بخارا کو معلوم ہوا کہ امام بخاری ؒواپس بخارالوٹ آئے ہیں تو انہیں بے حد خوشی ہوئی اور انہوں نے بڑے اہتمام اور شان و شوکت سے آپ کا استقبال کیا۔ امام بخاریؒ نے وہاں حلقہ درس قائم کیا اور اطمینان سے درس و تدریس میں مصروف ہوگئے، لیکن حاسدین نے یہاں بھی آپ کا پیچھا نہ چھوڑا۔ وہ خلافتِ عباسیہ کے نائب خالد احمد ذیلی، والی بخارا کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ ’’امام بخاریؒ سے کہیے کہ وہ آپ کے صاحب زادوں کو گھر آکر پڑھایا کریں۔

والی بخارا نے آپ سے یہ فرمائش کی، تو آپ نے فرمایا ’’میں علم کو سلاطین کے دروازوں پر لے جا کر ذلیل کرنا نہیں چاہتا، جسے پڑھنا ہو، وہ میرے درس میں آجائے۔ اس پر والی بخارا نے کہا کہ ’’ٹھیک ہے،اگر میرا بیٹا آپ کے درس میں آئے، تو وہ عام طلباء کے ساتھ نہیں بیٹھے گا، اُسے علیحدہ پڑھانا ہوگا۔ امام بخاریؒ نے فرمایا، ’’میں کسی شخص کو احادیثِ رسول ﷺ سننے سے نہیں روک سکتا۔

دنیا کے مختلف شہروں اور علوم و فنون کے مراکز میں احادیثِ رسولﷺ اور علوم نبویؐ کی ترویج و اشاعت میں زندگی گزارنے والے حدیث کا امام اور آفتابِ حدیث خرتنگ کی زمین میں اترگیا۔ عید کی شب آپ انتقال فرماگئے۔ عید الفطر کے روز ایک خلقِ کثیر نے آپ کے جنازے میں شرکت کی۔ شہر کا ہر بچہ اور بڑا جنازے کے ساتھ تھا۔ بعد نماز ظہر علم و عمل اور زہد و تقویٰ کے مجسم امام بخاریؒکو سپرد خاک کردیا گیا۔ آپ کی تدفین کے بعد قبر ِمبارک سے اس قدر تیز خوشبو پھوٹی کہ تمام اطراف معطر ہوگیا۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ وہ خوشبو مشک و عنبر سے بھی زیادہ اچھی تھی۔ لوگوں نے قبر کی مٹی کو اٹھانا شروع کردیا۔ اس لیے حکومت کی طرف سے حفاظت کےلیے قبر کا احاطہ کردیا گیا۔