انسانی حقوق کے بزرگ کارکن اور چیئرمین کشمیر انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز الطاف حسین وانی نے کہا ہے کہ کشمیری بچوں کو نہ صرف بھارتی مسلح افواج کے ہاتھوں معذوری کا سامنا کرنا پڑا بلکہ انہوں نے بھارتی فوجی اور نیم فوجی دستوں کے ہاتھوں گھناؤنی زیادتیوں اور خلاف ورزیوں کو بھی برداشت کیا۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 55ویں اجلاس کے دوران مسلح تصادم میں بچوں کے بارے میں سیکرٹری جنرل کے خصوصی نمائندے کی رپورٹ پر ایجنڈا کے آئٹم 3 کے تحت ہونے والی بحث میں حصہ لیتے ہوئے وانی نے ورلڈ مسلم کانگریس کی جانب سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بچوں اور مسلح تصادم کے بارے میں خصوصی نمائندے کی رپورٹ دیکھنے کےلیے بہت اچھی تھی۔ لیکن بھارت کو بچوں سے زیادتی کی سب سے زیادہ شرح والے ممالک کی فہرست سے نکلتے ہوئے دیکھ کر اتنی ہی مایوسی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اب بھی کشمیری بچوں کے خلاف سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہے۔
انہوں نےکہا کہ "مجھے حیرت ہے کہ ہندوستان نے بین الاقوامی اور انسانی حقوق کے قانون کے تحت کون سی ذمہ داریاں پوری کیں جو اب بھی تفریق، تناسب اور احتیاط کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تلاشی اور محاصرے کی کارروائیوں کے دوران بچوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہا ہے"۔
الطاف حسین وانی نے سوال کیا کہ کیا ہندوستان نے آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ (اے ایف ایس پی اے) کو منسوخ کر دیا ہے جو بچوں کے حقوق کے کنونشن کے خلاف ہے؟۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ بھارت اب بھی جموں و کشمیر کے بھارتی مقبوضہ علاقے میں فوجی اور انٹیلی جنس مقاصد کے لیے اسکولوں اور صحت کی دیکھ بھال کا بنیادی ڈھانچہ استعمال کر رہا ہے۔ حالیہ ماضی میں کشمیر میں زمینی فوج کی تعداد میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ جدید ترین ہتھیاروں کے نظام سے لیس بھارتی فوجی پیلٹ گن کے ذریعے بچوں کو مارنے اور اندھا کرنے میں براہ راست ملوث تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارتی فوج لائن آف کنٹرول پر کھلونا بم استعمال کر کے بچوں کو ہلاک اور مفلوج کر رہی ہے۔ آرمی کیمپوں سے صرف چند میٹر کے فاصلے پر واقع اسکول کے بچوں کو جنسی اور نفسیاتی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "زمین پر کوئی احتسابی اقدام، انکوائری کمیشن، فیکٹ فائنڈنگ مشن اور تحقیقات نہیں ہیں۔"