لندن (پی اے) ایک اسٹڈی کے مطابق پابندی کے باوجود برطانیہ کا ہر ساتواں فرد 2020سے مینتھل سگریٹ پیتا ہے۔ اکتوبر 2020میں کم وبیش 16 فیصد افراد نے بتایا تھا کہ وہ مینتھل سگریٹ پیتے ہیں، مارچ 2023میں یہ شرح کم وبیش اتنی ہی یعنی14فیصد رہی۔ یونیورسٹی کالج لندن کے ریسرچر ز کی اسٹڈی کے مطابق، جو تمباکو کنٹرول فائونڈ کے جرنل میں شائع ہوا، یہ اعدادوشمار انگلینڈ، ویلز اور اسکاٹ لینڈ میں 66,868 افراد سے بات چیت کے بعد مرتب کئے گئے۔ مینتھل سگریٹ میں ایک مزہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے دھوئیں کو نگلنا آسان ہوتا ہے اور مئی 2020میں اس پر پابندی عائد کردی گئی تھی، اس پابندی کا مقصد نوجوانوں کو اس کا عادی بننے سے روکنا تھا۔ قانون کے مطابق مختلف فلیور کے سگریٹس پر پابندی عائد کردی گئی ہے، تاہم مینتھل کے سگریٹ میں استعمال پر پابندی عائد نہیں کی گئی تھی۔ مینتھل خوشبو والی سگریٹ پینے والے جن لوگوں سے بات کی گئی، ان میں سے کم وبیش 15 فیصد نے بتایا کہ انھوں نے یہ غیرقانونی ذرائع سے یا دوستوں کے ذریعے سستا حاصل کیا۔ ریسرچرز کا کہناہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زیادہ تر لوگ اسے قانونی ذرائع سے ہی حاصل کرتے ہیں۔ سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ 18 سے 24سال عمر کے کم وبیش 20فیصد افراد اب بھی مینتھل سگریٹ استعمال کرتے ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مینتھل سگریٹ پر پابندی کے باوجود غیر قانونی طورپر خریداری میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ یو سی ایل کے وبائی امراض اور ہیلتھ کیئر انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسر جیمی برائون کا کہنا ہے کہ ریسرچ سے ظاہر ہوتا ہے کہ برطانوی حکومت کی جانب سے مینتھل پر پابندی موثر ثابت نہیں ہوئی اور پابندی کو 3سال ہوجانے کے باوجود برطانیہ میں اب بھی کم وبیش ایک ملین افراد مینتھل سگریٹ پیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ موثر پابندی کیلئے مینتھل اور اس کی تمام اقسام کے تمباکو میں استعمال پر مکمل پابندی لگانا ضروری ہے۔ کینسر ریسرچ یوکے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پالیسی ڈاکٹر Ian Walker کا کہنا ہے کہ تمباکو نوشی اب بھی کینسر کا بڑا سبب ہے، اس لئے یہ بات باعث تشویش ہے کہ لوگ اب بھی مینتھل خوشبو کے سگریٹ پی رہے ہیں۔ اس لئے تمباکو نوشی پر پابندی کیلئے اس حوالے سے قانونی سقم دور کرنا ہوں گے۔ سگریٹ انڈسٹری جس کا فائدہ اٹھاتی ہے۔