اسلام آباد(مہتاب حیدر) عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف )سے اسٹاف لیول معاہدے کے حوالے سےجاری مذاکرات سے کچھ ہی دیر پہلے وزیر خزانہ اورنگزیب نے امریکی اور چینی سفیروں سے الگ الگ ملاقاتیں کی ہیں جن کا مقصد آئی ایم ایف فنڈز کیلئے امریکی حمایت اور سی پیک منصوبوں کو جاری رکھنے کےلیے چینی حمایت کا حصول تھا۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کےمابین اقتصادی جائزہ مذاکرات مکمل ہوگئے‘فریقین نے میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فنانشل پالیسیز (ایم ای ایف پی) پر اتفاق رائے پیدا کر لیا ہے جس کا باضابطہ اعلان آج آئی ایم ایف کی طرف سے متوقع ہے ۔
ایک وسیع تر اتفاق رائے کے تحت پاکستان اور آئی ایم ایف نے اتفاق کیا ہے کہ پرچون فروشی کی اسکیم کا موجودہ مالی سال کے دوران ہی اعلان کیاجائےگا‘پرچون فروشوں کےلیےآسان رجسٹریشن اسکیم وزیرخزانہ کی رسمی منظوری کے بعد شروع ہوگی لیکن اس پر ٹیکس وصولی آئندہ مالی سال یعنی یکم جولائی 2024ءسے شروع ہوگی ۔
امریکی اور چینی سفیروں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ یہ سب سے زیادہ پیچیدہ معاملہ ہے کیونکہ آئی ایم ایف پاکستانی حکام کے سامنے ایسی شرائط رکھ رہا ہے جس سے سی پیک کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی ہورہی ہیں۔
مثال کے طور پر چینی آئی پی پیز گردشی قرضے کے حوالے سے بقایاجات کے حصول کےلیے کوششیں کر رہی ہیں جو اب 500 ارب روپے سے بڑھ چکے ہیں۔
حکومت نے اس مد میں 48 ارب روپے مختص کیے ہیں جبکہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت ضمنی گرانٹس پر پابندی ہے ۔
اب دو آپشن ہیں یا تو آئی ایم ایف کے اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ پروگرام کے ختم ہونے کا انتظار کیاجائے یا پھر چینی بینکوں سے فنانسنگ حاصل کرکے چینی آئی پی پیز کو دے دی جائے لیکن سوال یہ ہے کہ پیوندکاری کا یہ عمل کب تک چلے گا؟۔پہلے چینی آئی پی پیز کو ادائیگی کےلیے جو ریوالونگ فنڈ بنایا گیا تھا وہ ماضی میں ریوالو نہیں کر پایا۔
پاکستان اور آئی ایم ایف نے مذاکرات تو مکمل کر لیے ہیں اور اس کا امکان یہ ہے کہ اسٹاف لیول پر اتفاق رائے ہوجائے تاکہ 3 ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی پروگرام کی آخری قسط کا اجرا ہوسکے اور اس سلسلے میں اعلان آج ہونے کا امکان ہے۔
توانائی کے شعبے کا گردشی قرض سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے اور اس میں اب آزاد جموں و کشمیر کے ٹیرف کے حل نہ ہونے کا معاملہ بھی شامل ہے جس کی وجہ سے گردشی قرض 58 ارب روپے تک بڑھ گیا ہے۔
مجموعی گردشی قرض جو جون 2023 تک 23 کھرب روپے پر پہنچ چکا تھا اور دسمبر 2023 کے آخر تک اس میں 378 ارب روپے کا مزید اضافہ ہوچکا تھا۔ اس طرح بجلی کے شعبے کا مجموعی گردشی قرض 27 کھرب روپے تک پہنچ گیا ہے ۔
وزارت خزانہ کی جانب سے جاری سرکاری بیان کے مطابق وزیر خزانہ سےفنانس ڈویژن میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے ملاقات کی جس میں باہمی تعاون اور باہمی مفادات سے متعلق معاملات زیر بحث آئے۔
محمد اورنگزیب نے اس موقع پر انہیں بتایا کہ نئی حکومت اقتصادی چیلنجوں سے نمٹنے کےلیے مکمل طور پر تیار ہے اور ملک میں میکرواکنامک استحکام کیلئے پرعزم ہے۔
انہوں نے حکومت کے اس عزم کا اعادہ کیا کہ جو وہ مجودہ آئی ایم ایف پروگرام کی تکمیل کےلیے رکھتی ہے اور ان اقتصادی اصلاحا ت کے عمل کو جاری رکھنے کی خواہشمند ہے۔
اصلاحات کےلیے ترجیحی شعبوں کو نمایاں کرتے ہوئے وزیر اورنگزیب نے حکومت کی سب سے بڑی ترجیح ایف بی آر میں اصلاحات لانے کو قرار دیا تاکہ آمدن کی لیکنج کو اینڈ ٹو اینڈ ڈیجیٹائزیشن کے ذریعے روکاجاسکے اور ریاستی ملکیت میں چلنے والے تجارتی اداروں میں اصلاحات، سماجی تحفظ کے اقدامات کو مضبوط بنانے اور سرکاری مینجمنٹ کی فنانسنگ بہتر بنا نے ، توانائی کے شعبے میں اصلاحا ت اور صوابدیدی سبسڈیز (زرتلافی ) ختم کرنا اور پرائیویٹ سیکٹر کی قیادت میں معیشت کو فروغ دینا شامل ہے۔