• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’رمضان کریم‘‘ اللہ تعالیٰ کے قُرب و رضا اور معراجِ روحانی کا مہینہ

پروفیسر خالد اقبال جیلانی

یہ برق رفتاری سے گزرتے ہوئے ماہ وسال، یہ شورو غل میں مصروف انسانی زندگی کے شب و روز یہ برف کی طرف پگھلتے ہوئے زندگی کے لمحات، آسمانوں پر کسی نئے جہان کی کھوج سے آگے نکل کر سیاروں پر انسان کو آباد کرنے میں مشغول انسان اور انسانیت کو ان تمام ہنگاموں کے درمیان ایک بار پھر اُسے اُس کے مقصد وجود سے آشنا کرانے ، دنیا کے مکروہات سے اَٹے قلب و نظر کو جلا بخشنے، گناہوں کی دلدل میں ٹوبے ہوئے انسانوں کے دفتر اعمال کو نیکیوں کی بہار سے آشنا کرانے اور انسانوں کو معراج روحانی عطا کرنے والے ایک عظیم الشان مہینے رمضان کے درمیان ہم بفضل خدا گذشتہ گیارہ دن سے زندگی کے شب و روز کو رحمت و سعادت سے بہرہ ور کر رہے ہیں۔

ہر سال کی طرح اس سال بھی ہم اس مبارک مہینے کی مسعود ساعتوں میں سانس لے رہے ہیں اور یہ مبارک مہینہ دنیا کو ’’صبغت اللہ‘‘ کے رنگ میں رنگ رہا ہے۔ پوری زمین کا ماحول رحمت و نور سے منور ہے، مسجدیں رکوع و سجود کرنے والوں سے معمور ہیں۔ صبح و شام سحری و افطار کی تیاریوں سے مسحور ہیں۔ ایک قابلِ رشک نور ہر طرف جھلک رہا ہے جس کے نظاروں سے روح و نظر جھوم جھوم رہے ہیں۔ 

زبانیں حمد و ثناء سے تر ہیں اوردل شکرِ خدا سے لبریز، ہر طرف سے دعاؤں کی یہ صدائیں بلندہو رہی ہیں کہ ’’اے ہمارے پروردگار ،اپنے اس رنگ و نور کے ماحول کو کبھی ختم نہ ہونے دینا، لیکن اس سب کے باوجود یہ پُر نور ساعتیں برکت کے صبح و شام ، رحمت کے دن اورمغفرت کی راتیں قانونِ فطرت کے مطابق یا حکم الہٰی کے ماتحت 29یا 30رمضان کو عید کا چاند نظر آتے ہی آئندہ ایک سال تک کے لئے ہم سے رخصت ہو جائیں گی اور نیکیوں سے تہی خزاں کا دور دورہ ہوگا۔

کاش کہ مسلمان بحیثیت امت اس عظیم و مقدس مہینے کی روح اور اس کے حقیقی مقاصد و غرض و غایت کو اس کے رخصت ہونے سے پہلے سمجھ پائیں۔ زمینی حقائق پرنظر ڈالیں تو یہاں اذانوں کی پُر کیف اور کانوں میں توحید کے نغموں کا رس گھولتی صدائیں تو ہیں ،لیکن قلوب پر اس کا اثر نظر نہیں آتا، مساجد میں تراویح کے اجتماعات میں قرآن کی تلاوت کا لحن و ترنم تو ہے، مگر اس کے زیر اثر ہمارے کردار و عمل میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی، ہر شخص روزے دار تو ہے مگر اپنی سوچ و فکر اور کردار و عمل میں ’’روز جیسا‘‘ ہی ہے ہمارا روزہ ہمارے نفس ، قلب ، روح اور ضمیر کوگناہ اور برائی سے نہیں روک پا رہا۔ 

ہم میں سے کسی کا یہ ساٹھواں رمضان ہوگا تو کسی کا سترواں، کوئی اپنی زندگی میں یہ پچاسواں رمضان دیکھ رہا ہوگا تو کوئی یہ کہتا ملے گا میں چالیس سال سے رمضان کے روزے رکھ رہا ہوں۔ لیکن عمر رفتہ کا مشاہدہ یہی ہے کہ اس مہینے کے انسانی زندگی اور قلب و روح پر جو انمٹ نقوش مرتب ہونے چائیں ،وہ اس چالیسویں، سترواںرمضان گزارنے کے بعد نظر نہیں آتے اور روزہ جو معاشرتی تبدیلی پیدا کرتا ہے۔ 

وہ دائمی ہونے کے بجائے عارضی ہی ثابت ہوتی ہےاور ہمارا معاشرہ بس ظاہری حدود و قیود کے ساتھ ایک وقتی اور ’’رمضانی‘‘ معاشرہ ہی رہتا ہے اور ان عارضی اثرات میں بھی ہر سال زوال پذیری کارجحان نمایاں اور سال بہ سال فزوں تر ہے۔ ہم صرف موجودہ رمضان کے گزشتہ گیارہ دنوں کا جائزہ لیں تو ہمیں ہر طرف معاشرتی اور اخلاقی برائیاں عروج پر نظر آئیں گی۔ ذخیرہ اندوزی تو رمضان سے دو تین مہینے پہلے ہی شروع ہوچکی تھی، اس کے ساتھ مصنوعی اور ہماری اپنی پیدا کردہ مہنگائی اور منافع خوری کے باعث کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں جس کے باعث غریب ایک کجھور تک سے محروم اور پانی کے گھونٹ سے روزہ رکھنے اور افطار کرنے پر مجبور ہے۔

یہ سب اس وجہ سے ہے کہ ہماری تمام عبادتیں نماز ہو یا روزہ ، حج ہو یا عمرہ ، محض رسمی ادائیگی کا مظہر بن گئی ہیں۔ جب عبادات صرف روایات تک محدود ہو جائیں تو پھر انسانی معاشرے کی یہی تصویر ابھرتی ہے اور کوئی بھی عبادت چاہے نماز ہو یا روزہ انسان کے اندر کوئی تبدیلی پیدا کرنے کا باعث نہیں بنتی۔ 

اس مہینے میں اجر و ثواب کے کئی گنا بڑھ جانے کی باتیں ، اس ماہِ مبارک میں نیک کاموں کی فضیلت کا بیان ، پروردگار کی رحمتوں اور مغفرتوں کے تذکرے سن سن کر آپ کو زبانی یاد گئے ہوں گے۔ اس لئے میں یہاں ان سب کا تذکرہ کئے بغیر ان اہم معمولات اور روزے میں بھوک پیاس کی تربیت سے مطلوب نتائج پر آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ جن کو اپنا معمول بنا کر ہم اس رمضان میں کچھ ایسا نیا کریں جو ہماری روحانی ترقی کے ساتھ ہماری اخلاقی اور معاشرتی اصلاح کا باعث ہو۔

سب سے پہلی بات تو یہ کہ ہم اس رمضان میں کچھ ’’نیا ‘‘ کرنے کےعزم کے ساتھ یہ ارادہ کریں کہ ہم روزے میں ہر اس برے عمل یا کام کو ترک کردیں گے جس کے کرنے سے اللہ نے منع کیا ہے اور ہر وہ نیک عمل کریں گے جس کے کرنے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔ یاد رکھیئے رمضان ہو یا غیر رمضان روزے دار ہوں یا بے روزہ ہر حالت میں نیکی کرنے سے زیادہ افضل گناہ سے بچنا اہمیت کا حامل ہے، اسی کا نام ’’تقویٰ ‘‘ ہے اور تقوی غایتِ صوم ہے۔ اگر ہم اپنے روزوں کو نیکیاں کر کے چار چاند نہیں لگا سکتے تو کم از کم گناہ سے بچ کر اپنے روزوں کو کراہیت سے تو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ 

اس رمضان یہ معمول بنائیں کہ نماز کے وقت سے پہلے وضو کریں، ہر وقت با وضو رہیں ، تحیتہ الوضو ءکے دو نفل پڑھیں، اذان سے پہلے مسجد پہنچیں اور سب سے پہلے تحیتہ المسجد ادا کریں اس کے ساتھ فرض سے پہلے کی سنتیں چاہے موکدہ ہوں یا غیر موکدہ لازمی ادا کریں۔ اس مہینے تمام نمازیں تکبیر تحریمہ سے ادا کرنے کا خاص اہتمام کریں۔ فرضوں کے بعد کی تمام سنتیں اور نوافل ادا کریں۔ ان سارے کاموں میں سب سے اہم یہ بات ہے کہ نمازوں کو توجہ الیٰ اللہ، خشوع و خضوع کے ساتھ اور سمجھ کر ادا کریں۔ ہماری نمازیں اور روزہ بفرمانِ نبوی ﷺ ’’جب تم اللہ کی عبادت کرو تو ایسے کرو کہ تم اللہ کو دیکھ رہے ہو۔‘‘ کا عملی مظہر ہونی چائیں۔

اس کے ساتھ اس رمضان کو بدلا ہوا رمضان بنانے کے لئے رمضان کی ہررات میں تہجد کا خصوصی اہتمام کریں۔ تہجد کی نماز اللہ اور بندے کے درمیان گویا ایک خفیہ میٹنگ ملاقات ہوتی ہے، اس براہ راست ملاقات کے لئے حدیث کے مطابق اللہ ہر رات کے آخری حصے میں اپنے بندوں کے انتہائی قریب آ کر پکارتا ہے کہ کون ہے جو مجھ سے مغفرت ، رحمت ، رزق مانگے، میں اسے عطا کروں ۔ یہ ایک ایسی خفیہ ملاقات کی دعوت ہے جو صرف بندے اور اس کے آقا و مالک کے درمیان ہوتی ہے۔ 

یہ سحر کے وہ پر نور لمحات ہیں جن میں بندہ اپنی اشک بار آنکھوں سے اپنے مالک کے حضور اپنی التجا اور فریاد لے کر پہنچتا ہے۔ ان لمحات میں بندے اور اللہ کے درمیان کوئی اور نہیں ہوتا اللہ بندے کی درخواست براہِ راست سن کر قبول کرتا ہے اور بقولِ امام شافعیؒ  ’’تہجد کے وقت کی دعا ایسا تیر ہے کہ جس کا نشانہ خطا ہوتا ہی نہیں‘‘۔ رمضان کی ہر رات میں یہ تیرچلائیں اور خوب چلائیں۔ اس رمضان کو کچھ نیا اور بدلا ہوا بنانے کے لئے عبادت کے اس خفیہ طریقۂ ملاقات کو آزما کر دیکھئے جس میں آپ ہوں اور صرف ’’وہ اللہ‘‘ ہو، تیسرا کوئی نہ ہو۔ یقین رکھیئے کہ وہ آپ کی بات سنے گااور اس کا جواب بھی دے گا اور آپ اشاروں میں اس کے دیئے ہوئے جوابوں سے خوشی سے جھوم اٹھیں گے۔

قرآن روئے زمین پر سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے، لیکن بدقسمتی سے سب سے زیادہ بغیر سمجھے پڑھی جانے والی کتاب بھی قرآن ہی ہے۔ ہم اپنی تمام تر محنت صرف اس کی تلاوت کو مزین بنانے اس کے الفاظ کو بہترین پیرائے میں ادا کرنے پر صرف کرتے ہیں ،ہر چند کہ یہ اپنی جگہ ضروری اور مسلّم ہے۔ مگر کاش کہ ہم اس کے مفہوم کو سمجھنے پر بھی اتنی ہی تو جہ دیں سکیں۔ لہٰذا اس رمضان قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کی عادت اپنائیں، اس سے ہمیں روزے کا حقیقی مقصد تقویٰ یعنی اللہ کے احکامات کا فہم و ادراک حاصل ہوگا جو رمضان کے بعد رمضان کے اثرات و ثمرات کو دوام عطا کرے گا۔

روزہ دار بندے کو ہر روزے کے افطار پر قرب الہٰی کی ایک منزل کی معراج روحانی حاصل ہوتی ہے وہ ہر روزے کے افطار پر اللہ سے ایک منزل قریب ہوتا جاتا ہے اور آخری روزے کے اختتام پر یا عید کی چاند رات بندہ اس آخری منزل پر ہوتا ہے جو عرش الہٰی یا جنت کے دروازے سے قریب اور متصل ہے ۔ بس جب بندہ آخری روزے پر قربِ خداوندی کی اس آخری اور قریب ترین منزل پر پہنچتا ہے تو اللہ پکار اٹھتا ہے کہ روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ (حدیث قدسی)اے میرے روزے دار بندے اب تو جنت کے جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل ہوجا ’’یا ایک دوسری روایت کے بموجب اللہ فرماتا ہے ’’روزہ میرے لئے ہے اور میں خود ہی اس کی جزا ہوں‘‘۔ توقربِ خداوندی کی اس آخری منزل پر پہنچ کر روزے دار بندہ پکار اٹھے گا کہ اے میرے مالک ’’لا اپنا ہاتھ دے میرے دستِ سوال میں۔‘‘

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بفرمان نبوی ’’ بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جن کو دن میں بھوکا رہنے اور رات کو نماز میں کھڑا رہنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا‘‘۔کا مصداق بننے کے بجائے ہم اس رسمی روزے سے آگے بڑھ کر اس کی حقیقی روح پر توجہ دیں، ان شاء اللہ جب ایسا ہوجائے گا تو یہ رجحان ہمارے گھروں ، محلوں اور ہماری زندگیوں کو بدل دے گا اور ہماری’’ خودی ‘‘قربت الہٰی کی ناقابلِ فراموش رفعتوں پر پہنچ جائے گی۔