حمیرا بنت فرید
ایک دور تھا جب نوجوانوں کو فتنہ و فساد کے خوف کی وجہ سے سیاست سے دور رہنے کی تلقین کی جاتی تھی۔ تعلیمی اداروں میں قائم سیاسی تنظیموں کا آپس میں آئے دن کے تصادم ہوتے تھے، بعد ازاں طلبا یونین پر بھی پابندی عائد کر دی گئی یوں نوجوان سیاست سے دور ہوتے چلے گئے۔ اگر کسی نے نوجوانوں کو اپنی طرف مائل کرنا ہے تو انھیں آئیڈیل ازم دینا انتہائی ضروری ہے ،جبکہ ہمارے ملک میں بہت عرصہ پہلے ہی نظریاتی سیاست ختم ہو چکی ہے۔ جس طرح ملک کی تعمیر وترقی میں نوجوانوں کا کردار اہم ہے، اسی طرح سیاست میں بھی اہم ہے۔
موجودہ دور میں نوجوانوں کی سیاست میں دلچسپی ایک خوش آئند بات ہے۔جو نئے سیاسی رجحانات کو جنم دینے کا سبب ہے۔ جس سے ہم مستقبل میں مثبت نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ آج کےنوجوان سیاست اور ریاستی امورپر کھل کر بات بھی کرتے ہیں اور اپنی قیادت کو بہت سے معاملات میں چیلنج بھی کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کے نوجوان سیاست کے بارے میں باخبر بھی ہیں، متفکر بھی اور سوشل میڈیا کے ذریعے اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔
ان کے خیالات سے اختلاف تو کیا جا سکتا ہے لیکن نظر انداز نہیں ۔ وہ ملک کے فرسودہ، کرپٹ، روایتی اور خاندانی سیاسی نظام کو چیلنج کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کیونکہ وہ جان گئے ہیں کہ ماضی میں ان کے جوش وجذبے کو سیاسی پارٹیوں نے صرف اپنے مفاد، اپنی مزاحمت کے لئےاستعمال کیا، اُن کے لیے مسائل کے حل کے صرف سبز باغ دکھائے گئے ہیں۔
تنظیمیں، پارٹیاں اور ادارے ان کا استحصال کرتے اور جھوٹے وعدے کرتے ہیں لیکن اپنے اہداف پورے ہونے پرسارے وعدے بھول جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں جذباتی نعروں کی بنیاد پر نوجوانوں کو اپنا گرویدہ تو کر لیتی ہیں لیکن جیسے ہی وہ اقتدار کے کھیل کا حصہ بنتی ہیں ان کی ترجیحات ہی بدل جاتی ہیں۔ پاکستان میں ہر عام انتخابات سے قبل سیاست دانوں کی جانب سے نوجوانوں کے بہتر مواقعوں اور مستقبل کے لیے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا جاتا لیکن پارلیمان میں ان کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر رہی۔
اس وقت بھی ہمارے نوجوان سب سے زیادہ مسائل کا شکار ہیں، جس سے اُن میں مایوسی، نفرت، غصہ، انتشار، تعصب، عدم تحفظ، بےراہ روی، منشیات کا استعمال اور خودکشی جیسے بڑھتے ہوئے رحجانات دیکھے جارہے ہیں تو دوسرے طرف نوجوانوں کا آگے بڑھنا، حق رائے دہی کا استعمال خوش آئند ہے۔یہ نوجوان جمہوری روایات کو سمجھنے لگے ہیں۔
یہ صرف ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے نہیں بلکہ ملکی تقدیر بدلنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ حکمرانوں، سیاست دانوں کو نوجوان قیادت آگے لانے کی کوشش کرنی چاہیے، تاکہ وہ ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں تاکہ سیاسی کلچر کو فروغ ملے۔ حق رائے دہی کا استعمال خوش آئند ہے وہ سیاست کی بنیادی باتوں کو سمجھیں۔
نئی نسل کو عملی طور پر قومی سیاسی دھارے کا حصہ بنانا ہوگا، جہاں ان کی سیاسی‘ سماجی او رمعاشی حیثیت کو مضبوط بنیادوں پر ڈھالا جا سکے۔نوجوان خود بھی آئین میں موجود اپنے حقوق سے متعلق آگہی حاصل کریں اور اپنے لیے آگے بڑھنےکی راہیں ہموار کریں ۔ دیمک زدہ نظام میں تبدیلی لالنے کے لئے ان کے شوق و جنون کو مثبت راہ دکھائی جائے۔
وہ دور گیا جب نظام کو برا بھلا کہہ کر نوجوان یاس وحسرت کی تصویر بنے بیٹھے رہتے تھے لیکن آج کے باشعور نوجوانوں کو اپنے قوت بازو اور صلاحیتوں پر بھروسہ ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ معاشرے میں انقلاب سیاسی میدان میںداخل ہو کر ہی لایا جا سکتا ہے۔ انہیں اب ساری تو جہ اپنی تعلیم اور شخصی تعمیر پر دینا ہوگی۔
تعلیمی اداروں میں اصلاحات کی جائیں ،تاکہ طلباء ایک ضابطہ اخلاق کے ساتھ کام کریں، اسی طرح نوجوانوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ آج کی دنیا علم اور صلاحیت کی دنیا ہے اور اس میں وہی لوگ اپنے لیے جگہ بناسکیں گے جو علم اور اپنی صلاحیت کو بنیاد بنا کر آگے بڑھیں گے، اس کے بعد ہی وہ ملک و قوم اور کسی سیاسی جماعت کے لیے اثاثہ ثابت ہو سکیں گے۔
کوشش کریں کہ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ، الزام تراشیوں، لڑائی جھگڑوں سے لطف اندوز نہ ہوں بلکہ کچھ ایسا کریں کہ نفرتیں، لڑائیاں اور عدم برداشت ختم ہوں۔ تاکہ یہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے! اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کتنی جہدوجہد کرکے اپنے اس مشن میں کس حد تک کامیابی حاصل کرتے ہیں۔