تحریر:ایم اسلم چغتائی… لندن پاکستان کی اشرافیہ کے 10فیصد لوگ ملکی وسائل پر قابض ہیں۔ دوسری بار وزارت عظمیٰ کی مسند پر بیٹھنے کے بعد میاں شہبازشریف نے اپنی وفاقی کابینہ کو مخاطب کرتے ہوئے یہ فرمایا مگر میاں شہباز شریف بتائیں کہ کیا آپ کی کابینہ کے وزرا اور مشاہیر و دیگر اراکین اشرافیہ میں شمار نہیں ہوتے، لاکھوں میں تنخواہیں ملتی ہیں، بے شمار مراعات ملتی ہیں۔ پٹرول مفت، گیس مفت، عام تنخواہ دار تو پٹرول اور گیس اپنی جیب سے خریدتا ہے، قوم و ملک کے ساتھ کب تک کھلواڑ اور تماشہ ہوتا رہے گا۔ کب ایک حقیقی اسلامی جمہوری ریاست قائم ہوگی۔قیام پاکستان سے ہی ملک سیاسی، سماجی اور مالی بحانوں کا شکار ہوگیا اور حالات ابتر ہوتے گئے۔ آج قوم فرقہ بندیوں اور قومیت میں بھی جکڑی ہوئی ہے۔ پاکستان بننے کے بعد بانی پاکستان قائداعظم سے زندگی نے وفا نہ کی اور پاکستان بننے کے دوسرے سال وہ اس جہان فانی کو الوداع کہہ گئے۔ قائداعظم کے عظیم ساتھی اور عظیم لیڈر وزیراعظم لیاقت علی خان کو بھی سازش کے ذریعے1951ء میں لیاقت باغ راولپنڈی میں گولی کا نشانہ بناکر شہید کردیا گیا اور یوں ان دونوں عظیم شخصیات کو پاکستان کی خدمت کرنے اور نئی مملکت کو اس کی حقیقی منزل کے راستے پر ڈالنے کا موقع نصیب نہ ہوا۔ لیاقت علی مرحوم کی شہادت کے بعد جمہوریت کو تماشہ بنادیا گیا، وڈیرے، جاگیردار، مورثی اور نااہل حکمران میدان سیاست میں آنا شروع ہوگئے اور کسی بھی منتخب وزیراعظم کو اپنی آئینی مدت پوری نہ کرنے دی گئی اور فوج کو اس ملک کی سیاست میں مداخلت کا موقع فراہم کردیا گیا، 1958میں فوجی جنرل ایوب خان نے ملک میں پہلا مارشل نافذ کردیا اور 1956کا جمہوری آئین معطل کردیا گیا۔ ملک کو تماشہ گاہ بنادیا گیا۔ 1962میں فیلڈ مارشل محمد ایوب نے ملک میں صدارتی آئین متعارف کردیا۔ 1962کے انتخابات میں منتخب ہوکر صدر کے عہدے پر فائز ہوگئے سیاسی سرگرمیاں محدود ہوگئیں۔ بلاشبہ محمد ایوب خان کے دور میں اقتصادی ترقی ہوئی، دو بڑے ڈیم منگلا ڈیم اور تربیلا ڈیم بنے۔ نہری نظام کو بہتر کیا گیا۔ صدر محمد ایوب خان1969ء تک ملک پر راج کرتے رہے، اس دوران مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں احساس محرومی پروان چڑھا۔ مشرقی پاکستان کو بوجھ سمجھا جانے لگا پاکستان کے ابھرتے ہوئے سیاستدان ذوالفقار علی بھٹو نے جو پہلے ایوب خان کی کابینہ میں وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز رہے اور بعد میں ایوب خان سے اختلاف کرکے اپنی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی1967ء میں بنائی، ایوب خان کے خلاف اپنی سیاسی تحریک کا آغاز کردیا۔ 1969ء میں جب ایوب خان کے خلاف تحرک نے زور پکڑا تو ایوب خان نے جاتے جاتے ملک دوسرے فوجی جنرل یحییٰ خان کے حوالے کردیا اور ملک میں فوجی دور اور دوسرے مارشل کا تماشہ لگ گیا۔ یحییٰ خان کے فوجی دور میں مشرقی پاکستان میں علیحدگی اور نفرت کے بیج بوئے گئے۔ یحییٰ خان پر شباب اور شراب کی محفلیں سجانے کا الزام بھی ہے۔جنرل یحییٰ خان کے دو سالہ اقتدار میں پاکستان پیپلز پارٹی نے ذوالفقار علی بھٹو کی سربراہی میں مقبولیت حاصل کی۔ 1971ء میں عام جنرل الیکشن کرائے گئے، جن میں مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ جیت گئی اور مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی جیت گئی۔ فوجی حکومت نے عوامی لیگ کے شیخ مجیب الرحمان کو حکومت بنانے کی اجازت نہ دی۔ مشرقی پاکستان میں پہلے سے موجود احساس کمتری اور نفرت مزید بڑھ گئی اور پاکستان سے علیحدگی کی تحریک زور پکڑنے لگی، جسے ہندوستان کی پوری حمایت حاصل تھی۔ نااہل فوجی حکمرانوں نے مشرقی پاکستان میں بغاوت کو فوجی طاقت کے ذریعے کچلنا شروع کردیا اور عوام پر زیادتیاں کی گئیں اور یوں پاکستان سے علیحدگی کی تحریک زور پکڑنے لگی۔ ہندوستان بھی بنگالیوں کے ساتھ جنگ میں پاکستان کے خلاف میدان میں آگیا اور یوں1971ء میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ ہوئی۔ پاکستان کی فوج نے ہتھیار ڈال دیے۔ پاکستان کا اکثریتی بازو مشرقی پاکستان علیحدہ ہوگیا اور اسی طرح پاکستان ٹوٹ گیا۔ دو قومی نظریے پر کاری ضرب لگی۔اس ملک میں صدارتی نظام، سویلین مارشل لاء جیسے کھیل کھیلے گئے اور آج تک ہم یہ طے نہیں کرسکے کہ اس ملک میں کون سا نظام نافذ کرنا ہے۔ کوئی سامنے منزل مقصود نہیں ہے۔ پچھلے سالیس سالوں میں دو، تین سیاسی جماعتیں برسراقتدار آئیں، جمہوریت کے نام پر حکومتیں بنائی گئیں مگر سیاسی تقسیم بڑھتی گئی، معیشت بد سے بدتر ہوتی گئی۔ افغانستان اور مالدیپ کو چھوڑ کر معاشی طور پر ہم اس ریجن میں سب سے پیچھے ہیں، لوگ ملک چھوڑ کر بیرون ملک بھاگ رہے ہیں۔ سیاستدانوں نے ماضی کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا۔ غلطیوں پر غلطیاں دہرائے جارہے ہیں، ہمیشہ کی طرح حالیہ انتخابات بھی متنازع ہوگئے ہیں۔ مانگے تانگے کی حکومت بنائی گئی ہے، کسی بھی پارٹی کا کوئی واضح عوامی فلاح کے لیے منشور نہیں ہے۔ آپس کی سیاسی لڑائیاں لڑی جاری ہیں۔