• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولاناحافظ عبدالرحمٰن سلفی

سرورکائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فاران کی چوٹیوں سے جب توحید باری تعالیٰ کا نعرہ بلند کیا۔ تب سے کفر و شرک کے ایوانوں میں زلزلہ طاری ہو گیا اور آپ ﷺ اور آپ کے جاں نثارساتھیوں کو مسلسل ایذائیں دی جانے لگیں۔یہاں تک کہ تیرہ برس تک مکہ مکرمہ میں مصائب و آلام برداشت کرتے ہوئے دعوت و تبلیغ کا فریضہ اداکرنے والے پیغمبراعظم ﷺ کو مدینۂ منورہ ہجرت کا حکم ہوا اور آپ اپنے ساتھیوں سمیت‘مدینۂ منورہ ہجرت فرما گئے ،تاہم یہاں بھی کفار مکہ ‘ یہودیوں اورمنافقین نے سکون نہ لینے دیا بلکہ آئے دن نت نئی سازشیں کھڑی کرتے اور جنگوں میں الجھا کر سمجھتے رہے کہ شاید اللہ کے آخری دین اور جماعت حقہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر کے رکھ دیں گے۔ تاہم اللہ کی مشیت غلبہ اسلام اور اہل ایمان کو عظمت و شوکت عطا فرمانا تھی۔ 

چناںچہ تمام تر سازشوں اور جنگوں کے باوجود آٹھ ہجری میں وہ عظیم واقعہ رونماہوا جس کے متعلق اہل مکہ کبھی گمان بھی نہ کر سکتے تھے۔ صلح حدیبیہ میں امن کا معاہدہ طے پا چکاتھا۔ قبائل مسلمانوں اور کفار مکہ کے حلیف بن گئے اور اس طرح بنو خزاعہ رسول اللہ ﷺ کے حلیف بنے جب کہ بنی بکر قریش کے حصے دار بن گئے ۔معاہدے کے تحت اگر کوئی قبیلہ دوسرے پرحملہ کرے گا تو وہ دوسرے فریق پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ شعبان آٹھ ہجری میں موقع غنیمت جانتے ہوئے قریش کے حلیف بنی بکر نے رات کی تاریکی میں بنو خزاعہ پر حملہ کر کے اپنی پرانی عداوت کااظہار کیا تاکہ پرانا بدلہ چکالیں۔ بس یہی واقعہ اللہ کے گھر کو قیامت تک کے لیے بتوں کی نجاست سے پاک کرنے کا سبب بنا۔ 

یہاں تک کہ بنی خزاعہ حرم میں پناہ گزین ہوئے۔ ان حالات میں عمرو بن سالم خزاعی نے فوراً مدینے کی راہ لی اور خدمت اقدس میں حاضر ہو کر منظوم انداز میں دہائی دی اور اس عہد کی طرف اشارہ کیاجو بنوخزاعہ اور بنو ہاشم کے درمیان عبدالمطلب کے زمانے سے چلا آ رہا تھا۔ اس وقت سرور کائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام صحابہ کرامؓ کے جھرمٹ کے درمیان مسجد نبوی میں تشریف فرماتھے۔ بنو خزاعہ کے وفد نے رقت آمیز اندازمیں عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ بنو بکر نے رات میں ہم پر ایسی حالت میں حملہ کیا کہ ہم رکوع و سجود میں تھے (یعنی مسلمان تھے) اور ہمیں قتل کیا۔

نبی مکرم ﷺ نے فرمایا، اے عمرو بن سالم تیری مدد کی گئی۔ اس واقعے نے جہاں رسول اللہ ﷺ اور اہل ایمان میں قریش کی بدعہدی اور ظلم کے خلاف غم و غصہ پیدا کیا ‘وہیں قریش مکہ میں بھی بدعہدی کا احساس پیدا کیا۔ نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو بتایا کہ قریش کیا کرنے والے ہیں۔ گویا میں ابوسفیان کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ عہد کو پھر سے پختہ کرنے اور مدت صلح کو بڑھانے کے لیے آگیا ہے۔ 

دوسر ی جانب قریش نے یہی کیا اور ابوسفیان صلح کے لیے مدینہ منورہ خدمت نبوی میں حاضر ہوا، تاہم مایوس واپس ہوا۔ بعد ازاں سیدنا ابوبکر صدیقؓ ، عمر بن خطاب ؓ،علی بن ابی طالبؓ سے ملا مگر سب جگہ سے مایوس ہو کر ناکام واپس لوٹا۔ ادھر پیغمبر اعظم ﷺ نے انتہائی راز داری سے جنگی تیاریاں شروع فرمائیں ،یہاں تک کہ10رمضان المبارک آٹھ ہجری میں رحمت عالم ﷺ نے دس ہزار جاں نثاروں کے ساتھ مکہ مکرمہ کے لیے رخت سفر باندھا۔ راستے میں ابوسفیان بن حارث اور سیدنا عباسؓ اہل و عیال کے ساتھ ملے اور آپ ﷺ کالشکر مرالظہران کے مقام پر پہنچ گیا اورآپؐ نے روزہ افطارفرمالیا۔ صحابہ کرام ؓ نے بھی آپؐ کی اتباع میں روزہ افطارکیا۔ رات کو وادی فاطمہ میں نزول فرمایا۔ 

یہاں پر آپ ﷺ کے حکم پر صحابہ کرامؓ نے الگ الگ آگ جلائی۔ اس طرح دس ہزار چولہوں میں آگ جلائی گئی جو اسلامی لشکر کی قوت و ہیبت طاری کرنے کے لیے بڑی معاون ثابت ہوئی۔ حضرت عباسؓ اس موقع پر ابو سفیان کو لے کر خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ جہاں ابو سفیان نے اسلام قبول کیا۔ اسلامی لشکر اچانک قریش کے سروں پرپہنچ گیا۔ اہل مکہ حیران و سرگرداں اس سے نمٹنے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہ تھے۔ انہیں رحمۃ للعالمین ﷺ اور ان کے ساتھیوں پر روا رکھے جانے والے تمام تر مظالم یاد آنے لگے اور وہ دستور زمانہ کے مطابق توقع کرنے لگے کہ آج ہماری خیرنہیں۔ 

ہماری گردنیں کاٹ کر فاتح اعظم محمد ﷺ کی خدمت میں طشتوں میں سجا کر پیش کر دی جائیں گی۔ دوسری جانب امام الانبیاء ﷺ نے بہترین جنگی تدابیر اختیار کرتے ہوئے لشکر کو ترتیب فرمایا۔ سیدنا خالد بن ولید ؓ کی زیر قیادت دستہ ترتیب دے کر ارشاد فرمایا کہ وہ مکہ مکرمہ کے زیریں حصے سے داخل ہوں ۔ یہاں تک کہ صفا پر آپ سے آملیں۔اسی طرح سیدنا زبیر بن عوام ؓ کو بائیں پہلو پر رکھا۔ ان کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کا پرچم تھاجنہیں حکم دیا گیا تھاکہ مکہ میں بالائی حصہ یعنی کداء سے داخل ہوں اور حجون میں جھنڈا گاڑکر آپ ﷺ کی آمد تک وہیں ٹھہرے رہیں۔ 

سیدنا ابوعبیدہؓ پیادے پر مقرر کیے گئے اور انہیں حکم دیا گیا کہ وہ بطن وادی کا راستہ اختیار کریں، یہاں تک کہ مکہ مکرمہ میں رسول اللہ ﷺ کے آگے اتریں۔ اس طرح اسلامی لشکر مکہ میں بغیر کسی بڑے خون خرابے کے داخل ہو گیا، البتہ خالد بن ولید ؓ کی راہ میں جو مشرک آڑے آیا وہ مارا گیا ۔ جب کہ دو صحابہ کرام زینؓ بن جابر فہری اور خنیسؓ بن خالد نے جام شہادت نوش کیا۔ جس کی وجہ یہ ہوئی کہ وہ لشکر سے بچھڑ کر دوسرے راستے پر چل پڑے اور اس دوران انہیں شہید کر دیا گیا۔ جب کہ خالد بن ولیدؓ اور ان کے رفقاء کے ہاتھوں بارہ اوباش مارے گئے۔ 

وہ کوہ صفا پر رسول اللہ ﷺ سے جا ملے۔ سیدنا زبیرؓ نے حجون میں مسجد فتح کے پاس جھنڈا گاڑا اور آپ کے لیے ایک قبہ نصب کیا اور پھر مسلسل وہیں ٹھہرے رہے‘ یہاں تک کہ امام کائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لے آئے۔ بعد ازاں آ پ ﷺ اپنے گرد و پیش موجود انصار و مہاجرین کے جلو میں مسجدالحرام کے اندر تشریف لائے۔ حجر اسود کو بوسہ دیا اوربیت اللہ کا طواف فرمایا۔ رسول اکرم ﷺ نے اعلان فرمایا کہ جو بیت اللہ میں پناہ لے‘ اس کے لیے امان ہے ۔جو ابوسفیان کے گھر میں پناہ لے، اسے بھی امان ہے یہاں تک کہ جو اپنے گھر کے اندر بیٹھا رہے اور مقابل نہ آئے ‘ اسے بھی امان ہے۔ ساتھ ہی قرآن مجید کی تلاوت فرماتے۔ ترجمہ!حق آ گیا اور باطل چلا گیا‘ باطل توجانے ہی والا ہے۔