مسائل اور مشکلات میں گھری پاکستان ہاکی اس وقت اپنی تاریخ کے ایک ایسے موڑ پر ہے جس نے دنیا بھر میں طویل حکمرانی کرنے والے ہاکی کے بے تاج بادشاہ ملک کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے،پاکستان ہاکی طویل عرصے سے جس زوال کا شکار ہے اس کے ذمے داروں کے خلاف نہ تو ماضی میں کوئی ایکشن لیا گیا اور نہ ہی مستقبل میں کسی احتساب کا امکان ہے، کھیلوں کے ادارے بند ہوچکے ہیں، ہاکی کے کھلاری بے روگاری کا شکار ہیں، مگر اس کھیل میں اقتدار کے حصول کی جنگ جاری ہے، ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس وقت ملک میں قومی کھیل کی دو فیڈریشن موجود ہے جس کے بعد اس کے حل کی تمام تر ذمے داری انٹر نیشنل ہاکی فیڈریشن کے کاندھوں پر آچکی ہے۔
گیند عالمی اور ایشیائی فیڈریشنوں کے کورٹ میں ہے وہ جس فیڈریشن کو تسلیم کرے گی، اس کی منتخب ٹیم کو عالمی مقابلوں میں شرکت کی اجازت دے گی، حکمرانی کا تاج اسی کے سر سجے گا، اس وقت ایک فیڈریشن طارق بگٹی اور دوسری شہلا رضا کی سر براہی میں کام کررہی ہے، دونوں کے دعوے بڑے بڑے ہیں، مگر ان کی دعوں کی حقیقت سامنے آنے میں کچھ دن انتظار کرنا پڑے گا، تاہم امکان یہ ہے کہ پاکستان ہاکی میں اقتدار کا بحران اب حل کی جانب بڑھ رہا ہے جس کے بعد یہ امید کی جاسکے گی منتخب فیڈریشن اس کھیل کی ترقی ، فروغ اور کھلاڑیوں کے مسائل کو حل کرنے میں کیا اقدامات کرتی ہے۔
قومی ٹیم کس طرح فتوحات کی ٹریک کی جانب اپنا سفر شروع کر سکے گی، قومی ہاکی میں حالیہ بحران پچھلے ایک سال سے جاری ہے، جس کو حکومتی سطح پر درست انداز میں ہیڈل نہیں کیا گیا،پاکستان اسپورٹس بورڈ اور وفاقی وزارت بین الصوبائی رابطے کی غلط حکمت عملی کے باعث قومی کھیل ہاکی مزید تباہی اور تقسیم کا شکار ہوا،ان دونوں اہم اداروں نے پی ایچ ایف کے معاملات کو غلط انداز سے ہینڈل کیا،جس کی وجہ سے پی ایچ ایف کی موجودہ کانگریس ارکان کی قانونی اہمیت پر بھی سوالیہ نشان لگا ہوا ہے، حکومت نے 2022میں کلبوں کی اسکروٹنی، اور نچلی سطح کے انتخابات کے بعد اگست2022میں ہونے والے فیڈریشن کے انتخابات کو تسلیم نہیں کیا تھا۔
اس بارے میں پی ایس بی اور وزارت بین الصوبائی رابطے کے پاس بڑی تعداد میں شکایت تھی کہ ایسوسی ایشنوں کے انتخابات میں جعل سازی کی گئی ہے،ان ہی الزامات پر فیڈریشن کے عہدے داروں کا انتخابات قبول نہیں کیا گیا مگر حیرت انگیز طور پر حکومت نے طارق بگٹی کو صدر نامزد کرتے ہوئے اسی کانگریس سے اعتماد کا ووٹ لینے کو کہا جس کے کئی ارکان کی موجودگی پر اعتراضات کئے گئے تھے ، اس طرح موجودہ کانگریس کے کئی ارکان کی آئینی پوزیشن پر سوال اٹھ رہے ہیں۔
بعض سابق ہاکی اولمپئینز کا کہنا ہے کہ پی ایچ ایف معاملات کی بہتری کے لئے حکومت کو ایڈہاک لگا کر کمیٹی تشکیل دینا چاہئے تھی وہ نئے انتخابات کراتی۔ اس وقت طارق بگٹی کی فیڈریشن کو حکومت کی حمایت حاصل ہے، اس کانگریس کے اجلاس میں جس سے طارق بگٹی نے اعتماد کا ووٹ لیا پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن اور پاکستان اسپورٹس بورڈ کے نمائندوں نے بھی شرکت کی، جبکہ دوسری فیڈریشن کا بھی دعوی ہے کہ ان کی کانگریس کے اجلاس میں بھی دونوں اہم اداروں کے نمائندے موجود تھے، مگر کیوں کہ طارق بگٹی کو سابق نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے نامزد کیا تھا اس لئے حکومت کی جانب سے اسی فیڈریشن کو تسلیم کئے جانے کا امکان ہے۔
تاہم شہلا رضا کو بھی سیاسی طور پر پی پی کی حمایت حاصل ہے، قومی سطح پر اس صورت حال سے جہاں قومی ہاکی ٹیم کے کھلاڑی پریشانی کا شکار ہیں تو دوسری جانب سابق ہاکی اولمپئینز اور انٹر نیشنل کھلاڑی بھی موجودہ صورت حال میں مشکلات اور حیرانی سے دوچار ہیں، قومی کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ کھلاڑیوں کو وہ سہولت حاصل نہیں جس سے عالمی اعزازات جیتے جاسکیں، نہ ان کے پاس مالی وسائل ہے، اور نہ ٹریننگ کی وہ سہولت جو غیر ملکی کھلاڑیوں کو دستیاب ہیں، ہمارے لاکھوں روپے ابھی تک فیڈریشن نے ادا نہیں کئے ہیں، ٹیم آفیشلز کا بھی شکوہ ہے کہ ان کے بقایاجات ادا کئے جائیں۔
دوسری جانب سابق ہاکی اولمپئینز کا کہنا ہے کہ ہاکی میں اچھے نتائج کے حصول کے لئے سب کو اکھٹا ہونے پڑے گا، دوفیڈریشن کھیل کے مفاد میں نہیں، حکومت کو فیڈریشن کو تسلیم کر کے ان کو مالی طور پر بھی سپوٹ کرنا ہوگا، تاکہ یہ کھیل معاشی مسائل سے باہر نکل سکے ، کھلاڑیوں کے بقایاجات ادا کئے جائیں تاکہ وہ دل جوئی اور یکسوئی سے اپنی مہارت کا ثبوت دے سکیں، پی ایچ ایف کے عہدے دار اس وقت ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی میں مصروف ہیں، مگر انہیں پی ایچ ایف ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھارہے ہیں، کھلاڑیوں کے عرصے سے رکے ہوئے بقایاجات کو ادا کرنے کے لئے فعال نظر نہیں آرہے ہیں، پی ایچ ایف کے سکریٹری رانا مجاہد علی خان نے کہا ہے کہا کہ پی ایچ ایف کا ریکارڈ چوری کر کےگھر لے جا نے والوں کو جلد سزا ملے گی ، اس حرکت سے ان کی حقیقت پتہ چلتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اور دیگر ادارے اس فیڈریشن کو تسلیم کر چکے ہیں، بعض لوگ جعلی بیان بازی سے عہدے دار نہیں بن سکتے، ہماری خواہش ہے کہ سب کو ساتھ لے کر چلیں تاکہ اس کھیل میں بہتری آسکے۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سکریٹری سید حیدر حسین نے کہا ہے مخالف گروپ کی سر گرمیاں غیر آئینی ہے،نگراں حکومت کو پی ایچ ایف کے صدر کی تقرری کا اختیار نہیں تھا، پی ایچ ایف کانگریس بااختیار ہے جس نے شہلا رضا کو صدر منتخب کرلیا، پاکستان ہاکی فیڈریشن کے معاملات اور حقائق تمام متعلقہ اداروں کے علم میں لاچکے ہیں۔
قومی کھیل اور جنکھیلوں میں اس وقت دو متوازی فیڈریشن موجود ہیں ان کو یکجا کرنے کے لئے پاکستان اسپورٹس بورڈ اور پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، صرف اس فیڈریشن کو تسلیم کیا جائے جسے اس کی عالمی اور ایشیائی تنظیم قبول کرتی ہے، پی او اے نے ماضی میں ایتھلیکٹس اور نیٹ بال میں اس فیڈریشن کو تسلیم نہیں کیا جسے اس کے عالمی ادارے اپنا رکن سمجھتے ہیں، مگر اس کے باجود ان کی ٹیمیں بیرون ملک حکومتی این او سی سے شر کت کررہی ہیں، باسکٹ بال میں طویل عرصے تک دو فیڈریشن کام کرتی رہیں اب جاکر اس فیڈریشن کا مسئلہ کسی حد تک حل ہوا ہے، حکومت کو ملک میں متوازی فیڈریشنوں کے خاتمے کے لئے عملی اقدامات کرنا ہوں گے اس کے بغیر برسوں سے جاری یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکے گا۔