اسلام آباد(رپورٹ:رانامسعود حسین )سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6؍ ججوں کے عدالتی معاملات میں ایک خفیہ ادارے کی جانب سے مبینہ مداخلت سے متعلق لکھے گئے خط کے حوالہ سے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سے ایسے اقدامات کے سدباب کیلئے تجاویز طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 29 اپریل تک ملتوی کردی ہے جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آئندہ سماعت پر فل کورٹ بینچ تشکیل دینے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ سماعت سے مقدمہ کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی جائیگی، انہوں نے ریما رکس دیئے ہیں کہ ہمارا آج کا حکمنامہ یہی ہے کہ ہم عدلیہ کی آزادی پر زیرو ٹالرنس رکھتے ہیں اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں کسی قسم کی کوئی دھمکی یا مداخلت برداشت نہیں کرینگے،آئین میں ہمارے پاس کمیشن بنانے کا اختیار نہیں، عدلیہ کی آزادی پرکسی قسم کا بھی کوئی حملہ ہوا تو سب سے پہلے میں اور میرے ساتھی کھڑے ہونگے، اگر کسی کا کوئی اور ایجنڈا ہےتو وہ صدر سپریم کورٹ بار بن جائے، وزیراعظم سے ملاقات انتظامی طور پر کی،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کہ جو چیزیں ہورہی ہیں شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبا کر معاملے کو نظر انداز نہیں کرسکتے ہیں، معاملے پر کارروائی کر کے ادارہ جاتی ریسپانس دینا ہوگاتا کہ آئندہ ایسا نہ ہو؟جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا ملک میں سیاسی انجینئرنگ ہوتی رہی ہے اور اس عدالت کے بارے میں بھی سیاسی انجینئرنگ میں ملوث ہونے کاتاثر ہے،ججز نے جو انگلی اٹھائی ہے وہ عدلیہ میں مداخلت کے کلچرکی ہے ، یہ مفاد عامہ کا معاملہ ہے اور ہمیں اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچانا ہے،دوران سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس کا معاملہ مداخلت کا نہیں تھا؟ اس وقت کے وزیراعظم (عمران خان) سے پوچھیں کہ وہ کیا تھا اور کیوں تھا؟ دوران سماعت چیف جسٹس نے سوال اٹھایا ہے کہ جب ہائیکورٹ کے پاس ایسے معاملات میں توہین عدالت کی کارروائی سے متعلق اپنے اختیارات موجود ہیں ؟ تو چیف جسٹس اپنے اختیارات کیوں استعمال نہیںکر رہے ہیں؟ اگر کسی جج کے کام میں مداخلت ہو رہی ہو تو اسے چاہیے کہ وہ متعلقہ افراد کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرے ،کسی بھی فرد کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کیلئے نہ توسپریم کورٹ اور نہ ہی سپریم جوڈیشل کونسل کی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے ، توہین عدالت کی کارروائی کا اختیار آئین نے ہر جج کو دیا ہے، کوئی قانون توہین عدالت کارروائی کا اختیار کمزور نہیں کر سکتا ہے، اگر سول جج کی توہین ہو رہی ہے تو اس کا اپنا اختیار ہے، اگر ہائیکورٹ کے جج کی توہین ہے تو اس کا اپنا اختیار ہے، ہمارا کام نہیں ہے کہ کسی کی بے عزتی کریں، معاشرے میں بہت گند آگیا ہے، اگر عدالت توہین عدالت کا نوٹس جاری کرے تو متعلقہ فریق کو اس کا جواب دینا پڑتا ہے ، 300وکلا ء کا بغیر دستخط وں کے ایک خط چلایا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ کے ادارہ کے ریسپانس (جواب) کی ضرورت ہے، اس سے زیادہ ادارے کی جانب سے رسپانس نہیں دیا جا سکتا ہے، جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ ہم نے اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ اگر ہائی کورٹ اختیارات کو استعمال نہ کرے تو اس صورت میں ہم کیا کرسکتے ہیں؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سیدمنصورعلی شاہ،جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہرمن اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل سات رکنی لاجر بینچ نے بدھ کے روز ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی تو اسی معاملہ کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن (لاہور بنچ ) اور اعتزازاحسن ایڈوکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی الگ الگ درخواستوں کے وکلاء حامد خان اور حسین احمدایڈوکیٹ روسٹرم پر آگئے اور چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ہم نے بھی اسی حوالے سے آئینی درخواستیں دائر کررکھی ہیں، انہیں بھی اس کیس کے ساتھ سماعت کیلئے مقرر کیاجائے ،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سے زیادہ قانون کو کون جانتا ہے؟ اب وہ زمانے چلے گئے ہیں ، جب چیف جسٹس کی مرضی سے درخواستیں مقرر ہواکرتی تھیں، اب سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر )ایکٹ 2023کے تحت تشکیل دی گئی تین رکنی کمیٹی ،ہی مقدمات کومقرر کرنے سے متعلق فیصلے کرتی ہے۔ انہوںنے واضح کیا کہ نہ تو کمیٹی کو عدالت کا اختیار استعمال کرنا چاہیے نہ عدالت کو کمیٹی کا اختیار استعمال کرنا چاہیے،انہوںنے کہاکہ ایک اورنامناسب بات یہ ہے کہ عدالت میں درخواست دائر ہونے سے پہلے ہی میڈیا میں نشر ہوجاتی ہے،یہ بھی عدالتوں کو دبائو میں لانے کا ایک طریقہ کار ہے، لیکن کم از کم میں تو کسی کے دبائو میں نہیں آتا ہوں،انہوںنے کہاکہ آج کل ایک اور نئی چیز شروع ہو گئی ہے، وکیل عدالت سے ازخود نوٹس لینے کیلئے کہہ رہے ہیں ،انہوںنے کہاکہ جو وکیل ازخود نوٹس لینے کی بات کرتا ہے ،اسے وکالت ہی چھوڑ دینی چاہیے، انہوںنے واضح کیا کہ عدلیہ کی آزادی پرکسی قسم کا بھی کوئی حملہ ہوا تو سب سے پہلے میں اور میرے ساتھی کھڑے ہوں گے، اگر کسی کا کوئی اور ایجنڈا ہے کہ میں ایساکروں یا ویسے کروں تو ہم دبائو نہیں لیں گے، ہم نے وزیر اعظم کے ساتھ کسی سے چھپ کر اپنے گھریا چیمبر میں میٹنگ نہیں کی ہے ،ہم نے انتظامی حیثیت میں انکے ساتھ میٹنگ کی ہے ، دوران سماعت چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل بیرسٹر منصور عثمان اعوان کو سپریم کورٹ کی پریس ریلیز پڑھنے کی ہدایت کی تو انہوںنے باآواز بلند پڑھا ،جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے خط پر تیز ترین کارروائی کی ہے ،26مارچ کو خط موصول ہوا ،اسی روز ہی اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور تمام ججوں سے میںنے سنیئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ کی موجودگی میں ملاقات کرکے ڈھائی گھنٹے طویل مشاورت کی اور پھر اگلے روز فل کورٹ اجلاس بلالیا ،انتظامی سطح پر وزیر اعظم کو بلاکر انکے سامنے سارا معاملہ اٹھایا اور سپریم کورٹ میں باقاعدہ میٹنگ کی،جس میں وزیراعظم، انتظامیہ اور مقننہ کے سربراہ کے طور پر بیٹھے تھے جبکہ دوسری جانب سپریم کورٹ کی انتظامیہ بیٹھی تھی،دوران سماعت اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت نے انکوائری کیلئے کوئی اقدام خود سے نہیں اٹھایا تھا، سپریم کورٹ نے مجوزہ کمیشن کی تشکیل کیلئے جسٹس ریٹائرڈ ناصرالملک اورجسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی کے نام تجویز کیے تھے۔